تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     26-05-2021

قبضہ مافیا اور پنجاب حکومت

وزیراعظم عمران خان نے قبضہ گروپوں اور کچھ انتہائی طاقتور افراد کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے ان سے اربوں روپے کی پراپرٹیز واپس لی ہیں جو بلاشبہ ایک اچھا اور بہت بڑا اقدام ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی ناجائز قبضہ مافیا اور تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا تھا جس سے کسی قدر کامیابی بھی ملی مگر جب تک یہ مہم تسلسل سے جاری نہ رہے اس کے ثمرات حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو حکومت مخالفین ایک طرف بے جا پروپیگنڈا کر رہے ہیں تو دوسری طرف خود بھی پروپیگنڈے کا شکار ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ بنی گالا کو تو این او سی دے کر ریگولرائز کر دیا گیا مگر غریبوں کی جھگیوں اور جھونپڑیوں کو گرا دیا گیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بنی گالا پر اعتراض صرف نقشے کی منظوری کا تھا۔ یہ کسی شہری کی زمین پر قبضہ کر کے تعمیر نہیں کیا گیا تھا نہ ہی اس کیلئے سرکاری، اوقاف کی یا لیز کی زمین پر قبضہ کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے تمام دستاویزات عدالت میں جمع کرائی گئی تھیں اور عدالت کے حکم پر ہی جرمانہ کر کے اس کو ریگولرائز کیا گیا تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا گھر نقشہ منظور کرائے بغیر تعمیر کر لے تو نقشہ جب منظور کیا جائے گا اس وقت سوسائٹی قوانین سے ہٹ کر ہونے والی تعمیرات گرا دی جائیں گی اور باقی نقشے کو جرمانے کے بعد ریگولرائز کر دیا جائے گا۔ بنی گالا کو بغیر اجازت تعمیر پر 106 روپے مربع فٹ کے حساب سے جرمانہ کیا گیا اور 12 لاکھ 6 ہزار روپے جرمانہ وصول کرنے کے بعد اس کو ریگولرائز کر دیا گیا۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ پراپرٹی میں تعمیرات صرف چند کنال کے رقبے پر ہیں جبکہ قانون کے مطابق یہاں بیس فیصد رقبے‘ تقریباً60کنال پر بلڈنگ تعمیر کی جا سکتی ہے۔ البتہ پنجاب حکومت نے اب تک جن ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی کی گئی ان میں سے بیشتر میں شہریوں کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا تھا۔ کچھ کیسز میں سرکاری زمین، سڑکوں اور اوقاف کی لیز پر حاصل کی گئی زمین پر موجود ناجائز تعمیرات تھیں جنہیں ڈھا دیا گیا۔ ظاہری بات ہے کہ یہ کام عام آدمی کا نہیں تھا بلکہ بڑے بڑے سیاسی افراد کے مبینہ فرنٹ مین اس سارے دھندے میں ملوث تھے۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت کی کوششیں قابل ستائش ہیں‘ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس وقت پاکستان بھر میں ایک محتاط تخمینے کے مطابق‘ پانچ ٹریلین سے زائد مالیت کی سرکاری اور پرائیویٹ زمینیں‘ جن میں ملک بھر کے جنگلات اور ریلوے کی انچوں کے حساب سے سونے سے بھی مہنگی زمینیں بھی شامل ہیں‘ سیاستدانوں‘ بیورو کریسی اور با اثر افراد نے محکمہ مال‘ اوقاف‘ محکمہ جنگلات اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے اہلکاروں‘ پٹواریوں‘ تحصیلداروں‘ کمشنرز اور بڑے بڑے افسران کی مبینہ ملی بھگت، مدد اور مداخلت سے اپنے قبضے میں لے رکھی ہیں اور ان پر کہیں سٹے آرڈر تو کہیں چمک اور دمک سے قبضہ جمایا ہوا ہے۔ اس ملک اور اس کے عوام کو کس طرح لوٹا گیا اور بدستور لوٹا جا رہا ہے‘ اس کی ایک جھلک ہم سب راولپنڈی رنگ روڈ کے حالیہ منصوبے میں دیکھ رہے ہیں۔ کاش کہ کسی دن کوئی ادارہ یا خود وزیراعظم صاحب لاہور کی رنگ روڈ کے پچاس ارب سے زائد کے سکینڈل کی انکوائری کا حکم بھی دیں کہ کس طرح اور کس کس نے ایک ہی جھٹکے میں یہاں دس‘ دس ارب روپے کی دیہاڑیاں لگائیں۔ راولپنڈی رنگ روڈ کے سکینڈل تو ایک ایک کر کے سامنے آ ہی گئے ہیں‘ مگر جب لاہور رنگ روڈ کے دبے ہوئے سکینڈلز سے پردہ اٹھے گا تو وہ چہرے‘ جو آج بیان بازی کرنے میں ایسے دوسرے سے سبقت لے جا رہے ہیں‘ کو منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی کیونکہ ریکارڈ ایک ایک کا نام اپنے اندر دبائے ہوا ہے ۔
چالاک اور طاقتور افراد نے اوقاف‘ جنگلات اور محکمہ مال کے اہل کاروں اور دیگر اداروں کو اپنے دام میں لا کر اس قدر پکے کام کر رکھے ہیں کہ وہ مثال سچ ثابت ہو چکی ہے کہ وائٹ کالر کرائم کی جڑ تک پہنچنے کے لیے نکلیں تو عمر گزر جاتی ہے مگر اصل بندے تک پہنچنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ اگر کبھی کوئی مصمم ارادہ کر ہی لے تو اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ عام اور شریف انسان کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ اس حوالے سے امریکی بزنس مین اور مالیاتی کرائمز کے مستند تجزیہ کار ریمنڈ ڈبلیو بیکر کی کتاب Capitalism's Achilles heel کا مطالعہ کافی مفید رہے گا۔ وائٹ کالر کرائم کیا ہوتا ہے‘ یہ کس طرح انجام دیا جاتا ہے، مقامی سیاستدان، عالمی ادارے اور انٹرنیشنل کارپویشنز کیسے اس میں حصہ دار بنتی ہیں‘ یہ سب کچھ اس کتاب میں حالات و واقعات اور دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں بتایا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں ایک طبقہ امریکا میں شائع ہونے والی اس کتاب سے بدکنے لگتا ہے کہ کیونکہ اس میں پاکستان کے ایک سابق حکمران خاندان کے حوالے سے صریحاً بیان کیا گیا ہے کہ کیسے ایک سابق وزیراعظم نے اپنے ادوارِ حکومت کے دوران قومی خزانے سے 418 ملین امریکی ڈالر کی کرپشن کر کے بیرونِ ملک میں اثاثے بنائے۔ لاہور‘ اسلام آباد موٹر وے سے 160 ملین امریکی ڈالر کا کمیشن بھی حاصل کیا گیا‘ جو ایک پرائیوٹ کمپنی نے وصول کیا تھا جبکہ پاکستانی بینکوں سے قرضے کے نام پر 140 ملین ڈالر لوٹے گئے۔ اس کے علاوہ چینی کی برآمد پر حاصل کی گئی سبسڈی کے نام پر بھی 60 ملین ڈالر لوٹے گئے ۔
یہاں پر یہ امر واضح رہنا چاہیے کہ کرپشن بالخصوص وائٹ کالر کرائم اس وقت تک ممکن نہیں ہو پاتا جب تک سرکاری اداروں میں بھی آپ کے کارندے موجود نہ ہوں۔ وقتاً فوقتاً نوکریاں دینے کے نام پر اپنے لوگوں کو جس طرح سرکاری اداروں میں کھپایا گیا‘ ایک طرف اس کا خمیازہ ریاستی اداروں کے مسلسل خسارے کے صورت میں بھگتنا پڑا تو دوسری جانب یہ طبقہ اشرافیہ کے جرائم میں سہولت کاری کے ساتھ ساتھ اس کی پردہ پوشی میں بھی مصروف رہا۔یہ پوری ایک چین ہوتی ہے جس میں ایک کڑی دوسری کو مضبوط کر رہی ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان چاہ کر بھی ابھی تک اس مافیا کے خلاف زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وہ ادارے‘ جنہیں ایسے جرائم اور کرپشن کی روک تھام کے لیے قائم کیا گیا تھا‘ وہ کرپشن ختم کرنے کے بجائے حصہ دار بننے پر راضی ہو گئے اور یوں ہر بار ''سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دی جانے لگی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ قبضہ گروپوں کی سرپرستی محکمہ مال کے علاوہ اینٹی کرپشن کے ضلعی‘ ریجنل اور مرکزی دفاتر میں بیٹھے چند افسران بھی سینہ تان کر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر اس محکمے کا تاثر یہ بن چکا ہے کہ یہ ایسا محکمہ ہے جو رشوت اور بدعنوانی کے مرتکب افراد کو کچھ لے دے کر کلین چٹ دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کاش کسی دن اس محکمے کے انسپکٹر سے لے کر بڑے عہدوں تک کے افسران کے بے نامی اکائونٹس اور جائیدادوں کو بھی چیک کر نے کی کوشش کی جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو یقین جانیے ان تحقیقات سے اٹھنے والی سرانڈ سے سب کے دماغ پھٹنے لگیں گے۔
چند ہفتے قبل لاہور میں شریف برادران کے مشہور زمانہ جاتی امرا پیلس کے بارے میں یہ کہانی گردش کر رہی تھی کہ مذکورہ پیلس اوقاف کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔ بورڈ آف ریونیو کے مطابق‘ تحصیل رائے ونڈ کے موضع مانک میں واقع یہ اراضی شریف خاندان کے مرکزی گھر کا حصہ ہے اور پنجاب حکومت نے شریف خاندان کی 127 کنال اراضی کا انتقال منسوخ کرکے رقبہ بحق سرکار ضبط کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔بورڈ آف ریونیو کے مطابق‘ یہ اراضی محکمہ اوقاف کی ملکیت تھی لیکن اس کا ریکارڈ تبدیل کر کے زمین شریف خاندان نے اپنے نام منتقل کروائی جبکہ قانون یہ کہتا ہے کہ اوقاف کی زمین کو محکمہ مال کے نچلے درجے کے اہلکار کسی بھی صورت میں کسی شخص کے نام منتقل نہیں کر سکتے۔ یہ کہانی منظر عام پر آنے کے بعد ملکی سیاست میں ایک شور سا مچ گیا جسے جلد ہی پی ٹی آئی کے میڈیا سیل کی ڈنگ ٹپائو پالیسی اور غیر سنجیدگی نے میٹھی نیند سلا دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved