کائنات توازن کا نام ہے یعنی توازن کے دم سے قائم ہے۔ سب کچھ ایک خاص حساب کتاب سے ہے اور اُسی کے مطابق چل رہا ہے۔ ہمارے خالق و رب نے ہمیں بھی فقید المثال توازن سے بنایا ہے۔ اُس کا اپنا فرمان ہے کہ انسان جامع ترین اندازے یا سانچے کے مطابق ہیں‘ ان میں کہیں کوئی کھوٹ نہیں۔ ہم صلاحیتوں اور خصوصیات کا مجموعہ ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم کچھ بنیں، کچھ کریں تاکہ ہمارے خالق کی صنّاعی کا مقصد پورا ہو۔ انسان کو اللہ نے اپنی رضا (یعنی رضائے ربّانی) کے مطابق جینے کے لیے خلق کیا ہے۔ ہمیں وجود بخشے جانے کا بنیادی اور حقیقی مقصد یہی ہے کہ ہم اپنے رب کی رضا کو پہچانیں، اُسے تسلیم کریں اور اُسی کے مطابق زندگی بسر کریں۔ زندگی کا ہر معاملہ ہم سے مثالی نوعیت کے توازن کا تقاضا کرتا ہے۔ رب کی مرضی یہی ہے۔ ہمیں زندگی کا وہ ڈھنگ اپنانا ہے جو اللہ کی رضا کے تابع ہو اور اُس کی خوشنودی یقینی بنانے کا وسیلہ ثابت ہو۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اپنی خواہشات اور اپنی مرضی کو ایک طرف ہٹاکر صرف اپنے رب کی رضا کے آگے سرِتسلیم خم کریں۔ یہی وہ رویہ ہے جو دین ہم سے چاہتا ہے۔ تمام دینی تعلیمات کا منتہائے مقصود یہ ہے کہ ہم اپنے پورے وجود کو اللہ کی رضا کے لیے وقف کریں۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تب وہ توازن پیدا ہوتا ہے جو ہمیں پوری کائنات سے ہم آہنگ کرتا ہے۔
نَفس ہمیں خواہشات کے دائرے میں مقید رکھتا ہے۔ جب ہم اپنی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں تب اللہ کی رضا پر راضی رہنا یاد نہیں رہتا۔ ایسے میں صرف اِتنی سی خواہش باقی رہ جاتی ہے کہ ہر خواہش پوری ہو اور دنیا ہی میں وہ مزے بھی مل جائیں جن کا وعدہ اُخروی کامیابی کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اہلِ دانش کہتے ہیں کہ دنیا ہی میں جنت کا سا مزا صرف ایک صورت میں لُوٹا جاسکتا ہے ‘وہ یہ کہ ہم اپنے وجود کی مقصدیت کو پہچانیں، اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کو یاد رکھیں، کسی سے کوئی بے جا توقع وابستہ نہ کریں، اپنے بل پر جینے کی کوشش کریں، کسی کی حق تلفی کا تصور تک ذہن کے پردے پر نہ اُبھرے۔ یہی زندگی کی سب سے معیاری حالت ہوتی ہے جس میں رب ہم سے راضی رہتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت مشکل دکھائی دیتا ہے مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے ایسے اصحاب تیار کیے تھے جنہوں نے کم و بیش دو عشروں کی تربیت میں وہ سب کچھ سیکھا جو اللہ کی رضا میں راضی ہونے کے لیے انتہائی کافی تصور کیا جاتا ہے۔ پہلے نمبر پر خود نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس ہمارے لیے سب سے بڑا نمونۂ عمل ٹھہرائی گئی ہے۔ اُنؐ کے بعد یہ نفوسِ مطہّر اپنے افکار و اعمال کی روشنی میں ہمارے لیے مشعلِ راہ ٹھہرے ہیں۔
ہر دور کے علمائے کرام اور اہلِ دانش نے ہمیں متوازن، معتدل اور مستحکم زندگی بسر کرنے کی راہ دکھائی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ صدیوں کے تفاعل نے ایسا بہت کچھ پیدا کردیا ہے جو ہمارے ذہن پر بوجھ کا سا درجہ رکھتا ہے۔ زندگی کو آسان تر بنانے کی سعی اِسے مزید پیچیدہ بنانے پر تُلی ہے۔ معاشی اور معاشرتی ناہمواری بڑھتی جارہی ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ عدم توازن کی طرف جانے کو پَر تولتا رہتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خواہشات کو قابو میں رکھنے اور اللہ کی رضا کے تابع رہنے کے حوالے سے ہماری قوتِ ارادی گھٹ گئی ہے۔ ہر حال میں غیر ضروری خواہشات سے مجتنب رہنے کا عزم کمزور پڑچکا ہے۔ خواہشات کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے۔ انسان سوچے سمجھے بغیر بہت کچھ پانے کی خواہش کیے جارہا ہے اور اِس راہ میں کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ بہت سوں کو آپ اِس حال میں پائیں گے کہ اپنی صلاحیت و سکت سے کہیں زیادہ خواہشات پال بیٹھے اور برباد ہوگئے ؎
زندگی سی نعمت کو قتل کر گیا آخر
دل کہ جس کے ہاتھوں میں خواہشوں کا خنجر تھا!
زندگی کو متوازن رکھنے کی بہترین تدبیر اور شکل یہ ہے کہ انسان ماحول سے ہم آہنگ ہوکر جیے۔ ماحول میں انسان، حیوانات، نباتات و جمادات سبھی شامل ہیں۔ اِن میں سے کسی کو بھی غیر ضروری طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماحول سے محبت کرنا ہی پڑتی ہے۔ اس معاملے میں آؤٹ سورسنگ نہیں چلتی۔ آج کراچی میں جگہ جگہ کچھ لوگ باجرہ، دالیں اور چاول وغیرہ لے کر فٹ پاتھوں پر بیٹھتے ہیں۔ قریب ہی پانی سے بھرے مٹی کے بڑے کونڈے رکھے ہوتے ہیں جن پر پرندے منڈلاتے رہتے ہیں۔ آپ متعلقہ شخص کو کچھ پیسے دیجیے، وہ آپ کی طرف سے باجرہ وغیرہ پرندوں کو ڈال دے گا۔ پرندے باجرہ یا کوئی اور دانہ دُنکا چُگیں گے اور اللہ آپ کو اجر دے گا۔ بالکل درست! مگر یہ کام تو ہمیں فٹ پاتھوں کے بجائے اپنے گھر کی چھت پر، آنگن میں یا پھر جھروکوں، چھجوں پر کرنا ہے۔ بھوکے پیاسے پرندے تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور اُنہیں دانہ پانی ہر وقت ہی درکار ہوتا ہے۔ چڑیا، کبوتر، طوطے، کوے ہمارے خلوص کے منتظر رہتے ہیں۔ ہم ان پر متوجہ نہ ہوں تو اُن کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ اپارٹمنٹس کی بالکونی میں مٹی کا کونڈا پانی سے بھر کر رکھنے اور چھجّے پر تھوڑا سا باجرہ ڈالنے سے معصوم پرندوں کی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ اللہ کو خوش کرنے کا اِس سے آسان طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ اور ہم سے اِتنا بھی نہیں ہو پارہا! بے زبان پرندے ہم سے تازگی اور ورائٹی بھی طلب نہیں کرتے۔ رات کے بچے ہوئے چاول اور باسی روٹی کے ٹکڑے بھی اُن کے آگے ڈال دیجیے تو وہ برضا و رغبت قبول کرلیتے ہیں اور آپ کے حق میں دعا کرتے ہیں۔ انسانوں کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرنا واجب ہے مگر ساتھ ہی ساتھ چرند پرند کی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی لازم ہے کیونکہ وہ اپنی حاجت بیان نہیں کرسکتے۔ بار برداری کے لیے خریدے یا پالے جانے والے جانور بیمار بھی پڑتے ہیں اور کبھی اُن میں اِتنی کمزوری بھی آجاتی ہے کہ بوجھ اٹھانے یا کھینچنے کی سکت نہیں رکھتے۔ پھر بھی اُن سے کام لیا جارہا ہوتا ہے اور سڑک پر گزرنے والے اِن حیوانات کے آنسو دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ آنسو کیا غضب ڈھا سکتے ہیں اِس کے بارے میں سوچنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ گھروں میں پیڑ بھی ہوتے تھے اور بکریاں، مرغیاں بھی دکھائی دیتی تھیں۔ ایسے گھروں کی رونق قابلِ دید ہوا کرتی تھی۔ اللہ کی بے زبان مخلوق کو پالنے اور اُس کا خیال رکھنے والے گھروں پر فیضِ ربانی بہت آسانی سے محسوس کیا جاسکتا تھا۔ اب ترجیحات بدل گئی ہیں اور سب کچھ مالی منفعت کے حصول کی نذر ہوچکا ہے۔ جہاں آنگن ہونا چاہیے وہاں اب اضافی کمرا بناکر کرائے پر دے دیا جاتا ہے۔ یہ ہے اللہ کے بخشے ہوئے ماحول سے ہماری محبت کا معیار۔ لے دے کر تھوڑا سا پرندے پالنے کا شوق رہ گیا ہے۔ یہ شوق بھی دل دکھانے والا ہے۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیوں اور پرندوں کو گھروں کے اندر ذرا سی جگہ میں قید رکھنا دل و دماغ کے لیے الجھن پیدا کرتا ہے۔ بھیڑ بکریاں اور مرغیاں، بطخیں پالنا اس لیے معیوب نہیں کہ وہ اچھا خاصا گھوم پھر بھی لیتی ہیں۔ بھیڑ بکریوں کو تو چَرانے والے لے جاتے ہیں اور ایک دنیا کی سَیر کراکے شام کو چھوڑ جاتے ہیں۔ آج کی ہنگامہ خیز و ہنگامہ پرور طرزِ زندگی ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ماحول سے ہم آہنگ ہوکر جئیں۔ اِس کی بہترین صورت یہ ہے کہ پیڑ پودوں اور چرند پرند کے لیے وقت نکالیں۔ سڑک پر پیسے دے کر پرندوں کو باجرہ کھلانے سے یہ حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ہر حال میں ذہن نشین رہے کہ محبت خود کرنا پڑتی ہے، یہ کسی بھی صورت آؤٹ سورس نہیں کی جاسکتی۔ ماحول سے محبت خود کیجیے، پیسے دے کر یہ کام دوسروں کے سر مت تھوپئے۔ پرندوں اور پالتو حیوانات سے محبت کے ذریعے ہم اللہ کی خوشنودی کی طرف بڑھتے ہیں اور کائنات سے ہم آہنگ ہونے کی راہ پر گامزن ہونا بھی نصیب ہوتا ہے۔ اِتنا بھی ہو جائے تو سمجھیے اللہ کی رضا کے تابع ہونے کا ایک بڑا مرحلہ طے ہوا۔