تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-05-2021

شاباش شاہ محمود قریشی!

آپ جتنی زیادہ محنت کرتے ہیں اس میں ناکامی پر صدمہ بھی اسی قدر ہوتا ہے۔ آپ جس پر بہت بھروسہ کرتے ہیں بھروسہ ٹوٹنے پر دکھ بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جس سے زیادہ امیدیں اور توقعات وابستہ کر لیں اگر وہ امیدیں اور توقعات پوری نہ ہوں تو مایوسی بھی اسی قدر شدید ہوتی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں نے عمران خان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں‘ اب اڑھائی سال کی ناکام ترین کارکردگی نے بیرون ملک پاکستانیوں کو اسی قدر مایوس کیا ہے اور یہ مایوسی بڑی قدرتی ہے۔
مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جب میں یہ بات لکھوں گا کہ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانی بہرحال سیاسی وابستگی کے اعتبار سے اپنے لیڈروں کے اس طرح بے دام کے غلام نہیں جس طرح ہمارے پاکستان کے رہائشی سیاسی کارکن ہیں تو پاکستان میں رہائش پذیر میرے قارئین میں سے کئی حضرات اپنی تنقید کی لاٹھی سے میری دھنائی شروع کر دیں گے اور طعنے ماریں گے کہ پاکستان سے باہر جا کر پاکستانی‘ خواہ وہ لکھاری ہوں یا کچھ اور‘ اپنی اوقات بھول جاتے ہیں اور مغرب سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں اور وہاں کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں تاہم میں اپنے ان قارئین پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں دو دن بعد واپس پاکستان آرہا ہوں اور میرے پاس سبز پاسپورٹ کے علاوہ نہ کوئی اور پاسپورٹ ہے اور نہ کسی دوسرے ملک کی شہریت یا گرین کارڈ وغیرہ ہے۔ میں نے پاکستان میں ہی جینا ہے اور ان شااللہ بفضلِ تعالیٰ پاکستان میں ہی دفن ہونا ہے۔ اللہ کی اللہ جانتا ہے کہ بندہ کہاں دفن ہوتا ہے یا اسے کفن بھی نصیب ہوتا ہے یا نہیں تاہم اس عاجز نے ملتان میں پاک مائی کے قبرستان میں اپنی والدہ مرحومہ کے قدموں میں ایک چھوٹا سا پلاٹ اس نیت سے رکھوایا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس فقیر کی یہ خواہش ان شااللہ ضرور پوری کرے گا۔
دراصل مغرب میں رہائش پذیر پاکستانیوں نے اور خاص طورپر امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے عمران خان کا دامے، درمے، سخنے جس طرح ساتھ دیا، ان کے شوکت خانم ہسپتال کے لئے جس طرح تن‘ من‘ دھن سے مدد کی اور کرپشن کے خلاف ان کے بیانیے کو جس طرح پذیرائی بخشی وہ بڑی پُرخلوص اور توقعات سے بھرپور تھی۔ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کا ذکر میں خاص طور پر اس لئے کر رہا ہوں کہ ابھی ان دنوں زیادہ واسطہ انہی امریکہ میں رہائش پذیر دوستوں سے پڑ رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ امریکہ میں رہائش پذیر پاکستانی تعلیمی حوالے سے دیگر ممالک میں رہائش پذیر پاکستانیوں سے نسبتاً کافی بہتر ہیں۔ یہاں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم‘ ایسوسی ایشن آف فزیشن آف پاکستانی ڈیسنٹ آف نارتھ امریکہ (APPNA) بھارتی نژاد امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم کے بعد ملک بھر کی دوسری بڑی ڈاکٹروں کی تنظیم ہے۔ اسی طرح یہاں رہنے والے بے شمار پاکستانی دیگر وائٹ کالر جابز کر رہے ہیں۔ بہت سے پاکستانی نژاد امریکی آئی ٹی، انجینئرنگ اور تعلیم کے شعبے میں بھی نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ بہت سے پاکستانیوں نے یہاں کاروبار میں بہت نام کمایا ہے۔ میں ایک ذاتی تجربے کی بات لکھ رہا ہوں کہ قریب دس بارہ سال قبل لاس اینجلس میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں ہم لوگ وہاں گئے ہوئے تھے۔ اس مشاعرے میں پاکستان سے انور مسعود، امجد اسلام امجد، عباس تابش اور میں جبکہ بھارت سے خوشبیر سنگھ شاد آیا ہوا تھا۔ اصل مشاعرے کے بعد ایک صاحب نے منتظم سے رابطہ کرکے کہا کہ ان کے ایک دوست کی ٹیکسی سروس کی کمپنی ہے اور اس کمپنی میں ڈیڑھ دو سو پاکستانی ٹیکسی ڈرائیورز ہیں جن کے لئے وہ ایک چھوٹے سے مشاعرے کا اہتمام کرنا چاہتا ہے۔ امجد اسلام امجد نے کہا کہ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کا ہم پر حق ہے اور ہمیں ان کی خواہش کا احترام کرنا چاہئے۔ سب نے اس بات سے اتفاق کیا اور ہامی بھری تاہم سچ بات یہ ہے کہ کئی شعرا کو اس سلسلے میں تھوڑا خوف سا لاحق تھا کہ کہیں مشاعرہ بالکل فارغ نہ ہو جائے۔ وجہ کوئی نہیں تھی سوائے اس کے کہ ٹیکسی ڈرائیورز کا سنتے ہی سخن فہمی کے بارے میں ان کے ذوق کے متعلق شبہ سا پیدا ہو گیا تھا‘ لیکن مشاعرہ اتنا شاندار اور بھرپور ہواکہ مشاعرے کے سامعین کے بارے میں تحفظات رکھنے والے شاعروں کو اپنی سوچ پر شرمندگی ہوئی۔ سامعین نے ہر شعر کو اس کے معیار کے مطابق داد سے نوازا یعنی اچھے شعر کو بھرپور داد سے نوازا جبکہ نسبتاً کمزور اشعار پر داد میں اسی نسبت سے کمی کر دی۔ بعد از مشاعرہ امجد اسلام امجد اور انور مسعود صاحب نے سامعین کے ذوق کو باقاعدہ داد دی۔ معلوم ہوا کہ ان ٹیکسی ڈرائیوروں میں سے غالب اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ مختلف مضامین میں ماسٹرز اور پروفیشنل تعلیم میں گریجویٹ یہ لوگ اپنی اصل تعلیم کے مطابق نوکری ملنے تک یہ مجبوری والی نوکری کر رہے تھے اور جیسے جیسے ان کو اپنے مضمون اور شعبے سے متعلق نوکری ملے گی یہ ادھر شفٹ ہو جائیں گے۔
امریکہ میں رہائش پذیر پاکستانیوں نے ملک میں تبدیلی کی اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کیلئے عمران خان کی شکل میں ایک نجات دہندہ دیکھا اور ان کے ساتھ جڑ گئے۔ اکثریت ایسی تھی جو پہلے شاید کسی سیاسی پارٹی یا شخصیت سے وابستہ تک نہ تھی‘ یعنی یہ وہ لوگ تھے جو اس سے قبل پاکستانی سیاستدانوں سے مایوسی کے باعث پاکستانی سیاست سے بالکل لاتعلق ہوکر بیٹھے ہوئے تھے‘ لیکن جونہی عمران خان کی شکل میں ان کو امید کی کرن نظر آئی وہ ان کے گھر اکٹھے ہوگئے اور کئی لوگ ایسے بھی تھے جو اپنی سابقہ سیاسی پارٹیوں اور قیادت کی لوٹ مار اور کرپشن سے تنگ آکر کوئی متبادل دیکھ رہے تھے‘ جو عمران خان کی صورت میں ان کے سامنے آیا اور انہوں نے اسے اپنی توقعات کا محور بنا لیا‘ لیکن ہوا یہ ہے کہ خان صاحب کی اڑھائی سالہ کارکردگی نے آہستہ آہستہ یہ رومانس قریب قریب ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں عمران خان نے جتنی تیز رفتاری اور پھرتیوں سے اپنے (پڑھے لکھے) ورکروں، حامیوں اور محبت کرنے والوں کو مایوس کیا اس کی مثال دینے کے لئے مجھ کم علم کو فی الحال کوئی مثال نہیں مل رہی، تاہم اس دوران پاکستان سے متعلق امریکی سرزمین سے جڑی ہوئی ایک اچھی خبر یہ ہے کہ نہلے ٹائپ وزرا کی فوج ظفر موج میں سے کم از کم شاہ محمود قریشی نے فلسطین کے حالیہ انسانی المیے پر اقوام متحدہ میں جس طرح پاکستانی موقف کو پیش کیا وہ نہایت شاندار تھا۔ بعدازاں امریکی ٹیلی ویژن سی این این پر ان کی اینکر پرسن Bianna Golodryga کے ساتھ انٹرویو کے دوران بھی شاہ محمود قریشی نے خاصے بہتر انداز میں نہ صرف اس کے تیکھے اور چبھتے ہوئے سوالات کا جواب دیا بلکہ اپنے موقف کو مضبوطی سے پیش کیا۔ خاص طور پر میڈیا پر یہودیوں کی مضبوط گرفت والے سوال و جواب پر تو سی این این کی اینکر پرسن کسی غیر جانبدار صحافی (خواہ وہ غیر جانبداری منافقانہ ہی کیوں نہ ہو) کے بجائے باقاعدہ یہودیوں کی ترجمان بن گئی اور پروگرام کے بعد بھی وہ اس سلسلے میں ٹویٹ کرتی رہی۔ سچ یہ ہے کہ مجھے شاہ محمود قریشی کی قدیم شیکسپیئرین ڈراموں کے ایکٹروں کی طرح چبا چبا کر انگریزی بولنے سے بڑی کوفت ہوتی ہے مگر اس روز سی این این کی اینکر سے دورانِ گفتگو ان کی وہی کوفت زدہ انگریزی سن کر بھی دل شاد رہا۔ مجھے ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے امریکی ڈیموکریٹک پاکستانی بزنس مین طاہر جاوید کی بات یاد آئی کہ اس گئی گزری کابینہ میں بہرحال شاہ محمود قریشی دیگر سب وزرا سے بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ طاہر جاوید کی بات کم از کم حالیہ دورہ امریکہ اور اقوام متحدہ میں خطاب کی حد تک تو درست ہے۔ شاباش شاہ محمود قریشی! اللہ ہی جانے آپ آگے کیا کرتے ہیں‘ مگر فی الحال تو آپ نے اپنے اس قدیم ناقد کا دل خوش کر دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved