حکومت نے نیشنل اکائونٹس کمیٹی (این اے سی) میں موجودہ مالی سال کی شرح نمو تین اعشاریہ چورانوے فیصد طے کی ہے جس کے بعد رائے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ماہرین حکومتی دعوے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ حکومت سے قربت رکھنے والے معیشت دان اسے تحریک انصاف کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ آئیے! ایک جائزہ لیتے ہیں تا کہ حقیقی نتیجے تک پہنچنے میں مدد مل سکے۔شرح نمو جاننے کے لیے صنعت، زراعت اور خدمات یعنی سروسز کے شعبے کو مدنظر رکھا جا تا ہے۔ اگر یہ تمام شعبے ترقی کر رہے ہیں تو شرح نمو بہتر ہو گی اور ان کی بری کارکردگی سے شرح نمو کم ہو جاتی ہے۔ این اے سی کے مطابق صنعت کے شعبے میں ریکارڈ بہتری آئی ہے۔ اس سال کا ہدف صفر اعشاریہ ایک فیصد تھا جبکہ صنعت میں ترقی تین اعشاریہ آٹھ فیصد رہی۔ لارج مینوفیکچرنگ یونٹس میں نو اعشاریہ تین فیصد اور سمال مینوفیکچرنگ یونٹس میں آٹھ اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا۔
اگر زراعت پر نظر دوڑائی جائے تو اس سال کے اعدادوشمار قدرے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ زرعی حجم میں دو اعشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوا جو پچھلے سال کے برابر اور ہدف کے عین مطابق ہے۔ گندم، چاول، گنا اور مکئی کی پیداوار میں بالترتیب آٹھ فیصد، تیرہ اعشاریہ چار فیصد،بائیس اور ایک فیصد اضافہ ہوا ہے البتہ کپاس کی پیداوار میں تئیس فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ کاٹن جننگ میں پندرہ اعشاریہ چھ فیصد کمی ہوئی۔ لائیو سٹاک میں اضافہ تین اعشاریہ ایک فیصد رہا جو ہدف سے کم ہے۔ فشنگ میں صفر اعشاریہ سات فیصد اضافہ بتایا جا رہا ہے لیکن یہ ہدف سے ڈیڑھ فیصد کم ہے۔
سروسز (خدمات) کے شعبے میں حیران کن بہتری رپورٹ کی جا رہی ہے۔دو فیصد ہدف کے مقابلے میں چار اعشاریہ چھ فیصد ترقی ایک ریکارڈ ہے۔ یاد رہے کہ خدمات کے شعبے میں سب سے زیادہ اثر بینکنگ سیکٹر سے پڑتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال بینکنگ سیکٹر میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ ہول سیل اور ریٹیل کا ہدف 1.1 فیصد تھا جبکہ اضافہ 8.4 فیصد رہا۔ مالیات اور بیمہ 7.8 فیصد، ہاؤسنگ 4.1 فیصد، سرکاری خدمات 2.2 فیصد اور نجی خدمات کے شعبے میں 4.6 فیصد اضافہ رپورٹ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بجلی کی تقسیم اور پیداوار میں تئیس فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ معدنیات کا شعبہ البتہ اس بار بھی بدحالی کا شکار رہا ہے جو منفی سات شرح نمو پر کھڑا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے یہ منفی شرح نمو ظاہر کر رہا ہے۔
حکومت کے جاری کردہ ان اعدادوشمار پر کس حد تک یقین کیا جا سکتا ہے‘ اس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ملک میں ایک ادارہ پاکستان ادراۂ شماریات ہے جو مختلف ڈیٹا حاصل کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر اپنی رپورٹس جاری کرتا ہے۔ اس کے رپورٹ کیے گئے حساب کتاب کو حتمی مانا جاتا ہے۔ اس کی کریڈیبلٹی کی صورتحال یہ ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے آتے ہی سب سے پہلے اس ادارے کی کارکردگی پر سوال اٹھا یا تھا۔ میں اپنے پچھلے کالموں میں اس کا ذکر کر چکا ہوں کہ جب ترین صاحب نے پی بی ایس کے اجلاس میں شرکت کی تو معلوم ہوا کہ فیصل آباد اور کوئٹہ کی ضلعی حکومتوں نے تحریری شکایت درج کروائی ہے کہ اس سال آٹے کی قیمت اور مقدار کے حوالے سے جو اعدادوشمار پی بی ایس نے جاری کیے ہیں وہ غلط ہیں۔ جب تحقیقات کی گئیں تو یہ الزام درست ثابت ہوا۔ وزیرخزانہ نے ادارے کے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے طریقہ کار کو از سر نو تبدیل کرنے کا حکم دیا۔
ذرائع کے مطابق اس سال شرح نمو کے حساب کتاب کو بہتر کرنے کے لیے بھی کچھ ہیر پھر کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم ایک غیر منتخب کیبنٹ ممبر نے پچھلے ہفتے دبائو ڈالا کہ شرح نمو چار فیصد رکھی جائے جبکہ پی بی ایس کے مطابق اگر بہت زیادہ بہتری بھی رپورٹ کی جائے تو یہ تین اعشاریہ پانچ فیصد سے کم رہے گی۔ لیکن پھر وہی ہوا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے اور مبینہ طور پر دباو قبول کرنا پڑا۔ اگر شعبہ زراعت پر نظر ڈالی جائے تو وفاقی کمیٹی آف ایگریکلچر کے مطابق اس سال گندم کی پیداوار چھبیس اعشاریہ چار ملین میٹرک ٹن ہے جبکہ حکومت کی جانب سے این اے سی کے اجلاس میں پیش کیے گئے اعداد وشمار اس سے مختلف ہیں۔عوام کو بتایا گیا ہے کہ اس سال گندم کی پیداوار ستائیس اعشاریہ تین ملین میٹرک ٹن ہے۔ اب کون سچ بول رہا ہے اور کون غلط اعداد و شمار کا سہارا لے رہا ہے‘ یہ بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
نیشنل اکائونٹس کمیٹی کے ایک سو تین نمبر اجلاس کی اندرونی کہانی بھی معاملات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔پلاننگ سیکرٹری کی سربراہی میں جب شرح نمو چار فیصد بتائی گئی تو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے نمائندے اور وزارتِ خزانہ کے نمائندے نے اس پر اعتراض اٹھایا۔ ان کے مطابق سٹیٹ بینک نے شرح نمو تقریباً تین فیصد رہنے کی پیش گوئی کی تھی۔ آئی ایم ایف نے دو فیصد اور ورلڈ بینک نے تقریباً ایک اعشاریہ تین فیصد رہنے کی پیش گوئی کی تھی۔ یہ پیش گوئیاں مختلف رپورٹس کی شکل میں پچھلے دو ماہ میں کی گئی تھیں جن میں تفصیل سے تمام پہلوئوں کو زیر بحث لایا گیا تھا۔ سب کے دعوے ایک ہی وقت میں غلط کیسے ہو سکتے ہیں؟ دو ماہ میں ایسی کون سی ترقی ہو گئی ہے کہ جس نے حالات بدل کر رکھ دیے؟ اگر تھوڑا بہت فرق ہوتا تو مان لیا جاتا مگر یہاں تو دوگنا سے بھی زیادہ فرق بتایا جا رہا ہے۔ اسے کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟ اجلاس میں اس ایشو پر گرما گرمی ہوئی اور مجبوراً اجلاس دو گھنٹے کے لیے معطل کرنا پڑا۔ اس دوران وزارتِ خزانہ کے نمائندے کو مبینہ طور پر اوپر سے ایک فون آیا اور اختلاف کو ختم کرنے کی ہدایت کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب نے اسے قبول کر لیا۔
اگر موجودہ شرح نمو کا موازنہ ماضی سے کیا جائے تو شک و شبہات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سال لوگوں کے اخراجات کا انڈیکس نمبر تقریباً سات رہا ہے اس لیے شرح نمو چار فیصد بنتی ہے جبکہ ن لیگ کے آخری سال میں شرح نمو پانچ اعشاریہ پانچ فیصد تھی اور عوامی اخراجات کا نمبر پانچ سے کچھ زیادہ تھا۔ اس حساب کے مطابق اگر موجودہ سال میں شرح نمو پانچ فیصد تک بڑھ جاتی تو عوامی خرچ کا نمبر تو دس تک پہنچ جاتا جو یقینا حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
یہاں پر یہ امر ذہن نشین رہے کہ یہ حکومتی اعدادوشمار ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے مہنگائی کو لے کر شدید دبائو ہے۔ اس کے علاوہ ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں کے آخری سالوں میں معیشت کے اشاریے بہتر نظر آنے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی حکومت رخصت ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ مصنوعی تھا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسے مصنوعی اعدادوشمار کی بنیاد پر کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلسل دو مرتبہ وفاقی حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ شاید اسی کا شاخسانہ ہے کہ عوام کا ان اعدادوشمار پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ یہ حساب کتاب حکومت کے خود کو تسلی دینے کے لیے تو کافی ہو سکتا ہے لیکن عوام کا معیار کچھ اور ہے۔ اگر آٹا‘ دال‘ چینی اور بجلی‘ گیس سستی ملیں گے تو عوام خودبخود تسلیم کر لیں گے کہ حکومت کی کارکردگی بہت اچھی ہے اور اگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو موڈیز سمیت کسی بھی ادارے کی رپورٹ عوام کو یقین دہانی نہیں کروا سکتی کہ حکومت بہت اچھا پرفارم کر رہی ہے۔حکومت سے یہی گزارش ہے کہ وہ کاغذی اعدادوشمار بہتر بنانے کے بجائے عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دے۔صرف یہی واحد طریقہ ہے جس سے حکومتی اعداد و شمار پر سے عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔