تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     28-05-2021

ایٹمی قوت اقتصادی طاقت کب بنے گی؟

مسجد اقصیٰ کے موجودہ خطیب الشیخ عکرمہ صبری سمیت ہزاروں فلسطینیوں نے غزہ پر موجودہ اسرائیلی حملوں کے دوران پاکستانی عوام اور حکام کی اپنے بھائیوں کے ساتھ اظہارِ محبت و یگانگت کو بے حد سراہا ہے۔ ان حملوں کے دوران ایک بار پھر اہلِ فلسطین پر یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ اسلامی رشتے علاقائی و لسانی رشتوں سے کہیں بڑھ کر مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں۔ غزہ پر بمباری‘ میزائلوں کی بارش اور معصوم و بے گناہ عورتوں، مردوں اور بچوں کی شہادت اور وہاں کی رہائشی عمارتوں کی کھنڈرات میں تبدیلی کے دلدوز مناظر بھی فلسطین کے عرب بھائیوں کے دل میں اضطراب کی کوئی لہر پیدا نہیں کر سکے۔ انہوں نے اس موقع پر بے جان سی رسمی قراردادوں کے علاوہ کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا۔
آج 28 مئی‘ یوم تکبیر ہے۔ 1998ء کی اسی تاریخ کو پاکستان نے چاغی‘ بلوچستان میں جوہری دھماکے کیے اور اپنے آپ کو ایٹمی قوت تسلیم کروا لیا۔ اس تاریخی اقدام کے بعد پاکستانی ساری دنیا میں فخر سے سر اٹھا کر چلنے لگے۔ آج جمعۃ المبارک ہے۔ 28 مئی 1998ء کو جمعرات کا دن تھا۔ اگلے روز 29 مئی کو جمعۃ المبارک کا خطبہ ارشاد کرتے ہوئے اس وقت کے مسجد اقصیٰ کے خطیب کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ انہوں نے نہایت پُرجوش انداز میں پاکستان کو ایٹمی دھماکوں پر ہدیہ تبریک پیش کیا۔ خطیب مسجدِ اقصیٰ نے دھماکوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ھذہٖ لیست قوۃ الباکستان ولکن ھی قوۃ الاسلام۔ کہ یہ نہ صرف پاکستان کی بلکہ سارے عالم اسلام کی قوت ہے۔ اُس وقت بھی فلسطینی اپنے عرب بھائیوں سے اُتنے ہی شاکی تھے جتنے آج ہیں۔
بات صرف فلسطین کی نہیں بلکہ دوسرے بہت سے عرب اور مسلم ملکوں میں بھی فخروانبساط کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ میں اُس زمانے میں سعودی عرب میں تھا۔ وہاں انہی دنوں پاکستانی اور سعودی دانشوروں نے مل کر جدہ کے سعودی جرمن ہسپتال میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ ایک پاکستانی شخصیت گلاب خان اس پروگرام کی روحِ رواں تھے۔ ہال سامعین سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ہر مقرر پاکستان کی اس عظیم کامیابی پر خوشی سے سرشار تھا۔ میری باری آئی تو میں نے پاکستان کی ایٹمی قوت بننے کی کہانی ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک بیان کی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اُن کی ٹیم کی انتھک اور تاریخ ساز محنت و کاوش اور جنرل ضیاالحق شہید اور جناب غلام اسحاق خان کی شبانہ روز توجہ اور بروقت وسائل کی فراہمی کا بھی تذکرہ کیا؛ تاہم اس موقع پر اصل میلہ تو سعودی ایئرلائنز کے اس وقت کے قائمقام چیئرمین عبدالسلام نے لوٹا۔ انہوں نے عربی اور انگریزی کو ملا کر خطابت کے زبردست جوہر دکھلائے اور ایک سماں باندھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی پاکستانیوں کی سائنسی اور فنی مہارت کے قائل تھے مگر ایٹمی قوت بن کر پاکستان نے اپنی اس عظمت کو چارچاند لگا دیئے ہیں۔ مسٹر عبدالسلام نے کہا کہ یہ دل خوش کن اعلان سن کر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستانی پائلٹس کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے دس امریکی پائلٹس کی جگہ پاکستانی ہوابازوں کو بلائیں گے۔ پاکستان کی یہ عظیم پذیرائی سن کر ہال تادیر تالیوں سے گونجتا رہا۔
ایٹمی قوت بننے کی خوشی میں اُن دنوں ملک کے اندر اور ملک سے باہر پاکستانی کوہ ہمالیہ سر کرنے کے لیے بھی کمربستہ تھے۔ اس موقع پر ''قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کا بہت چرچا ہوا مگر پھر کہیں راستے میں ہی یہ مہم دم توڑ گئی۔ اہلِ پاکستان ایٹمی دھماکوں کے بعد یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہر جگہ انہیں اور اُن کے گرین پاسپورٹ کو عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا مگر واحسرتا ایسا نہ ہو سکا۔ امریکہ کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ 2001ء میں ہمیں کہا گیا کہ افغانستان پر حملے کے لیے ہمیں ہوائی و زمینی راستے دو۔ امریکی مطالبے پر سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔
ایک ایٹمی قوت کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہوا؟ اس کا بڑا واضح سبب یہ ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت تو بن گیا مگر اس کی دریوزہ گری کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ کبھی ہمیں آئی ایم ایف کی قدم بوسی کرنا پڑی، کبھی ورلڈ بینک کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا پڑا اور کبھی اپنے دوستوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا ہے۔ ہاتھ پھیلاتے ہوئے نظریں جھکانا پڑتی ہیں جبکہ اپنی خودمختاری کے تحفظ کیلئے نظریں ملانا پڑتی ہیں۔ معاشی بدحالی کا آپ نظر عمیق سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ پاکستان میں ہمیشہ سیاست معیشت پر غالب رہی ہے۔
جناب عمران خان جب 2018ء میں برسراقتدار آئے تو اُس وقت پاکستان کی شرح نمو 5.9 فیصد تھی مگر گزشتہ تین برس کے دوران ان کی اوّل و آخر ترجیح معیشت نہیں بلکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے افراد کو پس دیوارِ زنداں پہنچانا تھا۔ ان تین سالوں میں مہنگائی آسمان پر جا پہنچی۔ اشیائے ضرورت تک بھی عام آدمی کی رسائی محال ہوگئی۔ خان صاحب کے دورِ اقتدار میں گیارہ ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے دس میں حکومت کو شکست ہوئی جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ عوام مہنگائی، بیروزگاری اور ناقص گورننس سے بہت تنگ ہیں۔ اس عرصے میں عوام کے ناتواں کندھوں پر حکومت نے ملکی و غیرملکی قرضوں کا ناقابل برداشت بوجھ بھی لاد دیا ہے۔
آج اسی مقروض معیشت کی بنا پر ایک بار پھر امریکہ پاکستان سے زمینی و ہوائی راستے مانگ رہا ہے۔ 11 ستمبر 2021ء تک امریکی اور اتحادی فوجی افغانستان سے واپس روانہ ہو جائیں گے۔ پینٹاگان کے ایک افسر نے اعلان کیا ہے کہ اس حوالے سے کچھ عندیہ ملا محسوس ہوا ہے لیکن پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دو روز قبل قومی اسمبلی میں بڑی دھواں دھار تقریر کی اور دوٹوک اعلان کیا کہ پاکستان میں جب تک عمران خان ہیں اُس وقت تک امریکہ کو کوئی اڈہ دیا جائے گا اور نہ زمینی راستہ دیا جائے گا۔ قانونی و تزویراتی ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ 2001ء کا معاہدہ صرف اس وقت تک کا تھا جب تک امریکی فوجیں وہاں موجود تھیں۔ ستمبر 2021ء کو ان فوجوں کے رخصت ہوتے ہی یہ معاہدہ بھی ختم ہو جائے گا۔
افغانستان سے نکل کر اگر امریکہ بذریعہ پاکستان افغانستان پر حملے کرے گا یا اس کے ڈرونز بم گرائیں گے تو اس کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو ہوگا۔ 26 مئی کو افغان طالبان نے اعلان کیا کہ خطے کا جو ملک امریکہ کو افغانستان پر حملوں کے لیے رسائی دے گا تو وہ نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔ ماضی میں پاکستان بم دھماکوں اور دہشت گردی کے بڑے خوفناک واقعات سے دوچار رہا۔ 2001ء کے اس معاہدے پر عمران خان شدید تنقید کیا کرتے تھے۔ وہ نیٹو فورسز کے ٹرکوں کا راستہ روکنے کیلئے پشاور میں دھرنا دیا کرتے تھے۔ وہ وزیرستان میں بھی جا کر امریکہ مخالف تقریریں کرتے اور کہتے تھے کہ پاکستانی یہ غلامی کبھی قبول نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے وہ اب بھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے جنیوا میں اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کر کے اُن کے ساتھ اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ عمران خان صاحب نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عہد کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر امریکہ کے ساتھ 2001ء والا معاہدہ منسوخ کر دیں گے مگر اب وہ اس کے بارے میں منقار زیر پر ہیں۔ بقول شاعر
آئینہ کیوں نہ توڑ سکے بت شکن تھے آپ
کہیے تو اب وہ قوتِ بازو کہاں گئی
جب تک ہم ایٹمی کے ساتھ ساتھ اقتصادی قوت نہیں بنتے اس وقت تک غلامی کا یہ طوق ہماری گردن میں پڑا رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved