انگریزوں نے1757ء میں جب بنگال میں قدم جمائے تو ٹیکس جمع کرنے کیلئے پہلی بار وہاں ڈپٹی کلکٹر کا منصب تخلیق کیا؛ تاہم منصب دار کو جب ٹیکس وصول کرنے میں دشواری پیش آئی تو اس نے برطانوی حکومت سے پوچھاکہ ٹیکس نہ دینے والوں سے کیا سلوک کیا جائے؟ برٹش گورنمنٹ نے اسے نادہندگان کو گرفتار کرنے کا اختیار تفویض کر دیا، بعد میں گرفتار شدگان کو ٹھکانے لگانے کیلئے انہیں پہلے مرحلہ میں ایک ماہ‘ پھر دو ماہ اور پھر تین ماہ تک جیل میں قید رکھنے کی اتھارٹی دی گئی ، یوں 1857ء تک سو سالوں پہ محیط تجربات کی روشنی میں بتدریج ڈپٹی کلکٹر کے ادارے کو کم و بیش 120 اختیارات تفویض کرکے ڈپٹی کمشنر کا شاہکار انسٹیٹیوشن استوار کیا گیا جس نے پوری فعالیت سے یہاں جدید خطوط پہ مؤثرگورننس تشکیل دینے میں کردار ادا کیا۔ اسی بنیادی ادارے نے سوسائٹی کے مذہبی اور نسلی تضادات میں توازن قائم رکھنے کے علاوہ ہندوستان بھر میں قانون کی عملداری بھی یقینی بنائی۔ انگریزوں نے یہاں بندوبستِ اراضی کے ساتھ ہی ٹوڈرمل کے بنائے ہوئے پٹوار نظام میں اصلاحات کرکے سول اور فوجداری نظامِ عدل کی اساس رکھی۔ انگریز دور میں پٹواری کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے حلقے میں پیدا ہونے والے بچوں اور مرنے والوں کا ریکارڈ مرتب کرے، زرعی پیدوار کے تخمینے کے علاوہ مویشیوں کی تعداد، ان میں پائے جانے والی امراض اور افزائش نسل میں کمی بیشی کا حساب کتاب رکھے۔ پٹواری حلقے سے نقل مکانی اورنئی آباد کاری کا ریکارڈ بھی مرتب کرتا تھا جس سے گورنمنٹ کو ہر ضلع سے جامع ڈیٹا میسر ہو جاتا تھا۔ اسی طرح گائوں اور محلے کی نمبرداری اور چوکیداری سسٹم کو پولیس کے ساتھ مربوط کرکے فوجداری نظامِ عدل کی بنیاد استوار کی گئی۔ چوری کی پہلی واقعاتی شہادت چوکیدار کی تھی اور پولیس تفتیش کے دوران مالِ مقدمہ اور آلۂ قتل کی برآمدگی کا مستند گواہ نمبر دار ہوتا تھا۔ یوں وہ کریمنل جسٹس سسٹم جس کی ابتدا ایف آئی آر سے ہوئی‘ نمبردار اور چوکیدار کی گواہی سے مربوط ہو جاتا اور جج کو نتیجے تک پہنچنے میں آسانی ہوتی۔ جب سے نمبرداری اور چوکیداری سسٹم ختم ہوا ہے‘ فوجداری نظام عدل کی بنیادیں کمزور ہو گئی ہیں۔ ہمارے حکمران کوئی متبادل بھی پیش نہ کر سکے۔ اسی طرح ایس ایچ او جو اپنے تھانے کی حدود میں موجود سوسائٹی کا کسٹوڈین تھا‘ وہ دورانِ گشت جہاں کہیں سرکاری عمارت کی دیوار گری، سڑک ٹوٹی اور درخت کٹا ہوا دیکھتا تو روزنامچہ واقعاتی لکھ کے ایس پی کو مطلع کرتا۔ ایس پی اپنی توثیق کے ساتھ روزنامچے کو متعلقہ ڈیپارٹمنٹ بھجواکے انہیں اصلاحِ احوال کا پابند بنا دیتا لیکن اب پٹواری اور تھانیدار سمیت کوئی اہلکارمعاشرے کو منظم رکھنے کی ذمہ داری نبھاتا ہے نہ حکمران ایسی بنیادی سروسز کا تقاضا کرتے ہیں۔ گویا اب ریاست کا اجتماعی وجود قانونی عمل کے ذریعے سماج کی تشکیل کا فرض فراموش کر بیٹھا ہے جس کے نتیجے میں قومی امانتوں کا تحفظ اور لوگوں کے شہری حقوق کمپرومائز ہو گئے ہیں۔ اس معاشرتی زوال نے خود عمالِ ریاست کی اتھارٹی کو بھی ضعف پہنچایا لہٰذااب لامحدود اختیارات اور وسائل کے باوجود کوئی سرکاری ادارہ امنِ عامہ ، معاشرتی نظم و ضبط اورقانون کی عملداری قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔
ضلع اور تحصیل کی سطح پر صحت مند تجارتی عمل کو ریگولیٹ کرنے کیلئے گراں فروشی، ملاوٹ اور ناپ تول کے نظام کی نگرانی کرنے والے درجنوں اداروں کی موجودگی کے باوجودشہریوں کو معیاری اشیائے ضروریہ کی ارزاں نرخوں پر فراہمی ممکن نہیں۔ بلاشبہ صحت مند تجارتی عمل کے فوائد ایک طبقے تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اس کے ثمرات سے پورا معاشرہ بہرہ ور ہوتا ہے۔ اگر ہم غور سے دیکھیں تو ملک میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہر مملکت کے انتظامی کنٹرول سے باہر نکلتے جا رہے ہیں۔ پولیس فورس کے علاوہ سروسز فراہم کرنے والے شعبہ جات‘ جن میں صحت، آبنوشی اور آبپاشی سمیت نقل و حمل کا سٹرکچر استوار کرنے والے سرکاری ادارے شامل ہیں‘ سرعت کے ساتھ پھیلتے ہوئے انسانوں کے جنگل کو خوبصورت گلستان کی صورت میں نہیں ڈھال سکے۔ خود فیس آف دی گورنمنٹ کی حیثیت رکھنے والی انتظامی اتھارٹی، ڈپٹی کمشنر کی گرفت سوسائٹی پہ ختم ہو گئی ہے۔ اگرچہ بظاہر ہم افسر شاہی کی بدعنوانی کو اس ناکامی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں لیکن سیاستدان‘ جن کا نصب العین سماج کو منظم کرنا تھا‘ وہ بھی اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہے ہیں؛ چنانچہ مستقبل قریب میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادیوں کا غیر محدود پھیلائوکسی کنٹرول میں نہیں رہے گا۔ بڑے شہروں خاص طور پر کراچی میں پچھلے ستّر سالوں میں جس تیزی سے آبادی بڑھی ہے‘ اُسی رفتار سے وہاں شہری سہولتوں کی فراہمی ممکن نہیں بنائی جا سکی، جس سے میٹروپولیٹن سٹی کا بڑا حصہ گورنمنٹ کے مؤثرکنٹرول سے نکل گیا۔ پینے کے پانی کی فراہمی اور بجلی سپلائی کرنے والا بنیادی ڈھانچہ ناکافی ہونے کی وجہ سے وہاں آبادی کا کثیر حصہ پینے کا صاف پانی مہنگے داموں خریدنے اور بجلی چوری کرنے کے علاوہ الیکٹریسٹی کے ایسے فرسودہ نظام کا یرغمال ہے جو ہر سال سینکڑوں صارفین کی جان لے لیتا ہے۔
اسی طرح اندرونِ سندھ کے چھوٹے شہروں میں صفائی، پینے کا صاف پانی، ہسپتال، سکول اور سڑکیں شہری آبادیوں کی ضروریات پورا نہیں کرتیں؛ اگرچہ نسبتاً کم آبادی والے شہروں کو بہ آسانی منظم کیا جا سکتا تھا لیکن گورنمنٹ کا اجتماعی ڈھانچہ سماج کو ریگولیٹ کرنے کی اہلیت کھو بیٹھا ہے۔ ہرچند کہ لاہور میں میاں برادران نے غیرمعمولی ترقیاتی کام کرائے لیکن صوبے بھر کے دیگر شہروں سے جس تیزی کے ساتھ نقل مکانی کرکے لوگ لاہور پہنچتے ہیں‘ اس سے وسیع سہولتوں کا حامل یہ شہر بھی ڈوبتا جا رہا ہے۔ ہمہ وقت ٹریفک جام کے علاوہ جرائم میں اضافہ، صفائی کا فقدان اور معیاری غذا کی عدم فراہمی لاہوری سماج کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ہمارے ہاں سماجیات کے موضوع پہ کام نہیں ہوا، بدقسمتی سے اہل علم خاص طور پر سوشل سائنٹسٹ کو یہاں پنپنے کی اجازت نہیں ملی، اس لئے اس سماجی ایشوز پہ کھلی بحث نہیں ہو سکی جس سے سماجی شعور کی آبیاری ہوتی۔ پچھلے بیس سالوں میں ملک کے تین صوبوں میں ابھرنے والی دہشت گردی کی مہیب لہروں نے سندھ اور بلوچستان کے علاوہ خیبر پختونخوا کے ہزاروں گھرانوں کو اسلام آباد کی جانب دھکیلا ہے۔ دارالحکومت کی طرف اُمنڈنے والے آبادی کے ریلے کو ریگولیٹ کرنے کا کسی کے پاس وقت تھا نہ سکت تھی جس سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے اردگرد نئی رہائشی کالونیوں کا ایسا لامحدود کاروبار شروع ہوا، جس کے محرک خود اعلیٰ افسران اور مقتدر سیاستدان تھے؛ چنانچہ اس دھندے کو قانونی ضوابط کے نیٹ ورک میں رکھنا ناممکن ہوتا چلا گیا۔ جائیداد کی خرید و فروخت کی آڑ میں سفید پوش مجرموں کے کئی منظم گروہ بھی سرگرم ہو گئے جو عام شہریوں کے علاوہ بیرونِ ملک محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کی جمع پونجی لوٹ لیتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں مردم شماری کا مقصد آبادی کے تناسب سے قومی وسائل کی تقسیم ہے لیکن یہاں اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی اور لاہور میں کروڑوں ایسے لوگ مستقل آباد ہیں مردم شماری میں جن کا ریکارڈ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں درج کیا گیا ہے۔ گویا وہ قومی وسائل سے حصہ تو اپنے آبائی شہروں میں وصول کرتے ہیں لیکن عمر بھر ان شہروں کے وسائل خر چ کرتے ہیں جہاں ان کی مستقل موجودگی شمار نہیں ہوتی۔ یہ تضادات بھی بڑے شہروں کے سماجی ڈھانچے کو غیرمتوازن کرتے ہیں۔ بڑے شہروں کے علاوہ ملک کے دورافتادہ اضلاع میں بھی آبادی کا پھیلائو خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان‘ جس میں ہم بستے ہیں‘ وہاں سرکلر روڈ کی اندرونی طرف ہونے والی تعمیرات نے علاقہ مکینوں کی زندگی تلخ بنا دی ہے۔ اگر بڑے پلازوں کے تعمیراتی نقشوں میں عقبی حصے میں لازمی طور پر چار‘ پانچ فٹ کا کاریڈور رکھا جاتا تو ان پلازوں کے ایئرکنڈیشن پلانٹ کے آئوٹ ڈور یونٹس اور سیوریج لائنیں اپنی حدود کے اندر بنتیں لیکن بدقسمتی سے یہاں درجنوں کمرشل پلازے ایسے ہیں جنہوں نے عقب کی شارع عام گلیوں میں بور کر کے واٹر پمپ لگانے کے علاوہ آئوٹ ڈور یونٹس اور سیوریج کے ٹینک تک تنگ گلیوں میں بنا کے ایک طرف ٹریفک کے نظام میں رکاوٹ ڈالی تو دوسری جانب ایئرکنڈیشنر سے نکلنے والی گرم ہوا سے گلی محلوں میں بسنے والے افراد کی زندگی جہنم بنا دی۔ شومئی قسمت نقشہ پاس کرنے والی اتھارٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ ضلعی انتظامیہ بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تماشا دیکھ رہی ہے۔