دل و نظر پر عجیب ہی عالم طاری ہے۔ ہر طرف بے یقینی سی دکھائی دیتی ہے۔ ایمان و ایقان کی دولت تو وہ ہے کہ میسر ہو تو اِسی دنیا میں جنت کا سا سماں پیدا کرنے میں دیر نہ لگائے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو دیکھ کر‘ بلکہ دیکھ کر کیا اُن سے مستفید ہوکر بھی، شرحِ صدر کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ گویا بے برکتی جابجا دام پھیلائے بیٹھی ہے۔ گو مگو کی سی کیفیت ہے کہ دل و دماغ پہ طاری رہتی ہے۔ قدم قدم پر شش و پنج کی کیفیت یعنی ''دو ذہنی‘‘ ساتھ نہیں چھوڑتی۔ یہ ساتھ چھوٹے بھی تو کیسے کہ ہم خود چاہتے ہیں یہ برقرار رہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم جو کچھ سوچتے اور کرتے آئے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ اُس پر فخر کیا جاسکے اور دنیا کو اُس کے بارے میں بتایا جاسکے۔ ہر قوم میں خامیاں اور خرابیاں ہوتی ہیں‘ یہ کوئی انوکھی بات نہیں مگر ہاں! خامیوں اور خرابیوں کا احساس دلوں میں جاگزیں ہو تو تھوڑی بہت تشفی بہرحال ہو جاتی ہے۔ اگر زیاں کا احساس ہی جاتا رہے تو کیا کِیا جائے، کیا امید وابستہ کی جائے۔
نفسی پیچیدگیاں دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں مگر اُن سے نمٹنے کا اہتمام بھی تو کیا جاتا ہے۔ وقت ہمیں اُس موڑ پر لے آیا ہے جہاں ہر طرف الجھنیں ہیں، ذہنی پیچیدگیاں ہیں۔ اِن سے بطریقِ احسن نمٹنے کے لیے لازم ہے کہ ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ اصلاحِ احوال کی فکر کریں۔ فکری ساخت میں پیدا ہونے والی کجی ہمارے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسے میں بہترین حکمتِ عملی یہی ہوسکتی ہے کہ ہم اپنے معاملات درست کرنے کی راہ پر گامزن ہوں اور بڑھتے چلے جانے کی کوشش بھی کریں۔ نفسی الجھنیں معاشرتی معاملات کو مزید پیچیدہ بنادیتی ہیں کیونکہ ذہن الجھ جائے تو رویّے بھی الجھ جاتے ہیں۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ ہماری سوچ ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ سوچ خراب تو ہمارے اعمال خراب۔ خیالات میں تازگی تو اعمال میں بھی راحت و فرحت کا سامان۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اندازِ فکر کو بدلے بغیر اپنے رویّوں میں کوئی حقیقی تبدیلی لاسکتا ہے تو یقین کیجیے کہ وہ اپنے آپ کو محض دھوکا دے رہا ہے، اور کچھ نہیں۔ جس طور کوئی بھی فرد الجھنوں سے آزاد یا مبرا نہیں بالکل اُسی طور کوئی بھی معاشرہ یا ملک بھی مسائل کی گرفت سے مکمل طور پر بچنے میں کامیاب ہوسکا ہے نہ ہوگا۔ ہر معاشرے کو اُس کی نوعیت کے بہ قدر مسائل عطا ہوتے ہیں۔ یہ فطری امر ہے۔ مسائل کو حل نہ کیا جائے تو وہ پیچیدہ تر ہو جاتے ہیں۔ اس کی ذمہ داری متعلقہ فرد یا معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔
ہمارا معاملہ بھی ابتدا ہی سے ٹیڑھا رہا ہے۔ زندگی کو سنجیدگی سے لینے کا رجحان ہمارے ہاں کبھی پروان نہیں چڑھا۔ کچھ لوگ اپنے طور پر زندگی کو پوری توجہ دیتے ہیں اور اِس کا اُنہیں پھل بھی ملتا ہے۔ عمومی سطح پر ہم معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور یوں الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے مگر ایک قوم کی حیثیت سے ہم تبدیل نہیں ہوسکے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ خود کو بدلنے یعنی اصلاحِ احوال پر مائل ہونے کی پوری سنجیدگی سے کوشش ہی نہیں کی گئی۔ آج کی زندگی ہم سے قدم قدم پر بھرپور سنجیدگی اور فکر و عمل کے توازن کا تقاضا کرتی ہے۔ آج کی دنیا میں آپشن نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ معاملات کی بہتری کے لیے جو کچھ ناگزیر ہے وہ کرنا ہی پڑے گا۔ جسے ہم آپشن سمجھتے ہیں وہ دراصل سمجھوتا ہے یعنی ہم کمتر پر راضی ہوتے ہیں۔ اس میں‘ ظاہر ہے کہ‘ ہمارا ہی نقصان ہے۔ ایک دنیا ہے کہ تبدیلی پر مائل ہے اور اپنے لیے بہت سے امکانات کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ اِدھر ہم ہیں کہ اب تک فیصلہ سازی کے مرحلے میں بھی قدم نہیں رکھ پائے۔ بہت سی خرابیاں ہمیں دن رات ہماری مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ہر نئی الجھن ہم سے پوری توجہ چاہتی ہے تاکہ ہم اُس کے تدارک کا سوچیں مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ مسائل سے صرفِ نظر کرنے کا رویّہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ بلی کو سامنے پاکر کبوتر آنکھیں بند کرنے اکتفا کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ ہم نے بھی مسائل کو سامنے پاکر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کا وتیرہ اپنالیا ہے۔ کبوتر کے ذہن میں کیا ہوتا ہے یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ مسائل کو محض نظر انداز کرنے سے نہ اُن کی پیچیدگی ختم ہوگی نہ اُن کا وجود! اِسی کو تو کہتے ہیں آنکھوں دیکھی مکھی نگلنا۔ آج کی دنیا میں بہت سے معاملات ہماری زندگی کا جزو بن کر ہمارے لیے مسائل کھڑے کرتے رہتے ہیں مگر سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لیتے اور یوں خرابیوں کو راہ ملتی چلی جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ شش و پنج کا بھی ہے۔ کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کا بخوبی جائزہ نہ لیا جائے تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ ابتدا کہاں سے کی جائے۔ زندگی کو سنجیدگی سے نہ لینا اب اِس قدر عمومی رویّہ ہے کہ لوگوں نے اس حوالے سے سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ بہتر زندگی کی بنیادی شرائط میں شش و پنج سے نجات پانا بھی نمایاں ہے۔ ہر اُس فرد اور قوم نے ترقی کی ہے جس نے اپنے لیے کوئی راہ منتخب کرنے اور پھر اُس پر گامزن رہنے کی حکمتِ عملی تیار کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ وصف علم سے دوستی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے کچھ سیکھنے کے حوالے سے سنجیدہ ہوتے ہیں تبھی کچھ سوچنے اور کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ شش و پنج میں مبتلا رہنا بھی فطری امر ہے کیونکہ بہت سے معاملات ہمارے ذہن کو الجھنوں سے دوچار رکھتے ہیں۔ فی زمانہ یہ معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔ انسان پر ہر طرف سے معلومات کی شکل میں بمباری ہوتی رہتی ہے۔ غیر ضروری معلومات بھی ہم تک پہنچتی ہیں اور گمراہ کن باتوں کو بھی مفید معلومات کا لیبل لگاکر پیش کیا جاتا ہے۔ ہر انسان کے لیے غیر ضروری باتوں اور لاحاصل معلومات سے بچنا اب ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس چیلنج سے موثر طور پر نمٹنے ہی کی صورت میں ہم اپنے لیے کوئی ایسی راہِ عمل منتخب کر پاتے تو اس پر گامزن رہ کر بہتر زندگی کی طرف بڑھنا ممکن ہو پاتا۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے اپنائی جانے والی سنجیدگی ذہن سازی میں معاون ثابت ہوتی ہے اور یوں ہمارے لیے ناگزیر نوعیت کے فیصلے آسانی سے کرنا ممکن ہو پاتا ہے۔ زندگی کے لیے موزوں ترین راہ کا انتخاب نئی نسل کے لیے واقعی ایک دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔ عملی زندگی کا معقول تجربہ نہ ہونے کے باعث نئی نسل بہت سے معاملات میں الجھ جاتی ہے اور قدم قدم پر ہچکچاہٹ کا شکار ہونے لگتی ہے۔ اس مرحلے میں اُسے رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ مناسب انداز سے کوچنگ کی صورت میں وہ ڈھنگ سے جینے کے اطوار سیکھنے میں کامیاب ہو پاتی ہے۔ اپنے طور پر بہت کچھ طے کرنے کی دُھن میں نئی نسل بیشتر معاملات میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔
دورِ جدید کے تقاضے نبھانے کے لیے لازم ہے کہ عصری تعلیم کا حق ادا کیا جائے۔ محض معلومات حاصل کرتے رہنے سے زندگی کا معیار بلند نہیں ہوتا۔ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ معیاری طریق سے تعلیم حاصل کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تربیت بھی یقینی بنائی جائے۔ قدم قدم پر ہچکچاہٹ سے دوچار رہنے کی کیفیت راتوں رات ختم نہیں کی جاسکتی۔ اِس کے لیے تیاری کرنا پڑتی ہے جو ماحول کی تفہیم سے مشروط ہے۔ اپنے ماحول کے تمام پہلوؤں کو سمجھے بغیر شش و پنج کی کیفیت سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔ یہ عمل نجی یا انفرادی سطح پر غیر معمولی سنجیدگی سے مزین تگ و دَو کا طالب ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات الجھتے ہی جارہے ہیں۔ ایسے میں ہچکچاہٹ کو شکست دینے کے لیے بھرپور تیاری لازم ہے۔ یہ سب کچھ ہم سے بھرپور انہماک و ارتکاز چاہتا ہے۔ یہ آپشن کا نہیں، ناگزیریت کا معاملہ ہے۔