تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-05-2021

ایک فون کال اور اڑتی ہوئی خبر

آدھی رات کو فون کی گھنٹی بجنے لگ گئی۔ حسب عادت میں نے دوسری گھنٹی پر فون اٹھانے کے بجائے خلافِ معمول توقف کیا کہ شاید دوسری طرف سے فون بند ہو جائے مگر گھنٹی لگاتار بجتی رہی۔ میں نے فون اٹھا کر دیکھا‘ وہ ایک بہت ہی عزیز اور فرینک دوست کا فون تھا۔ میں نے فون اٹھا کر اُس سے سلام دعا کی اور پھر اسے دو چار گالیاں دے کر کہا کہ تمہیں تو علم ہے کہ میں ادھر امریکہ میں ہوں اور یہاں اس وقت رات کے قریب اڑھائی تین بجے کا وقت ہے اور تمہیں فون کرنے کی سوجھی ہے‘ دو چار گھنٹے انتظار کر لیتے تو کیا قیامت آ جاتی؟ وہ آگے سے بے شرموں کی طرح ہنستے ہوئے کہنے لگا: اب اور قیامت کیا آنی ہے بھلا؟ آج تمہارا کالم پڑھا‘ جس میں تم نے شاہ محمود قریشی کی تعریف کی ہے اور شاباش بھی دی ہے۔ اس سے بڑھ کر بھلا قربِ قیامت کی اور کیا نشانی ہو سکتی ہے؟ پھر مجھ سے نہایت ہی رازدارانہ لہجے میں پوچھنے لگا: ویکسین کی دوسری ڈوز کب لگوائی ہے؟ میں نے پوچھا: خیر تو ہے؟ میں نے تین دن قبل ویکسین کی دوسری ڈوز لگوائی ہے۔ آگے سے کہنے لگا: میرا خیال درست ہی نکلا ہے۔ میں نے پوچھا: کس خیال کی بات کر رہے ہو؟ آگے سے نہایت بے شرمی سے کہنے لگا: یہ جو تم نے کالم میں شاہ محمود قریشی کی تعریف و توصیف کی تھی مجھے یقین تھا کہ یہ کورونا ویکسین کے ری ایکشن کا نتیجہ ہی ہو گا ورنہ تم سے اس بات کی امید کیسے ممکن تھی۔ میں نے اس دوست کو کہا کہ میری خدانخواستہ قریشی صاحب سے نہ کوئی ذاتی دشمنی ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پرخاش‘ تو پھر بھلا میں ان کی اس شاندار کارکردگی پر ان کی تعریف کیوں نہ کرتا؟ ان کے خلاف اتنا کچھ لکھا ہے تو بھلا اچھے کام پر تعریف میں کیوں بخل سے کام لیتا؟ وہ دوست کہنے لگا: اپنی اس کارکردگی کے بعد قریشی صاحب ویسے ہی نہیں سنبھالے جا رہے تھے اوپر سے تم نے بھی ان کی تعریف کر دی ہے۔ جب سے وہ واپس پاکستان آئے ہیں ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ اب ایسے کالم انہیں زمین پر کب ٹکنے دیں گے؟ وہ اسلام آباد پہنچنے والے تھے تو ان کے صاحبزادے زین قریشی اور ان کے بھانجے ظہور حسین قر یشی‘ جو دونوں رکنِ قومی اسمبلی ہیں‘ نے ملتان میں اور ادھر اُدھر ملنے جلنے والوں اور سیاسی اتحادیوں کو فون کر کے قریشی صاحب کے اسلام آباد میں فقیدالمثال استقبال کیلئے اکٹھا کرنے کی بھرپور کوشش کی اور الحمدللہ اس سلسلے میں ساٹھ ستر لوگوں کو اسلام آباد میں اکٹھا بھی کر لیا تھا۔ اب قریشی صاحب ملتان آنے کے لئے اس کوشش میں ہیں کہ ان کے لئے کسی طرح ایک خصوصی طیارے کا بندوبست کیا جائے تا کہ وہ فاتح کی حیثیت سے نہایت ہی شان و شوکت سے ملتان آئیں اور اپنے مخالفین کے سینے پر مونگ دل سکیں۔
میں نے حیرانی سے پوچھا: بھلا ان کے مخالفین اب کون باقی رہ گئے ہیں؟ وہ دوست ہنس کر کہنے لگا: تمہیں تو علم ہی ہے کہ قریشی صاحب لوگوں کو خواہ مخواہ اپنا دشمن سمجھنے لگ جاتے ہیں ‘یہ بات درست ہے کہ جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف سے رخصتی کے باعث ان کے لئے سیاسی میدان میں مقامی طور پر کوئی مقابلہ نہیں۔ مزید یہ کہ اب جہانگیر ترین بھی ایک انگریزی محاورے کے مطابق Hot Waters میں ہیں اور ملتان کی تقریباً ساری منتخب سیاسی قیادت ان کے سامنے سرنگوں ہو چکی ہے‘ حتیٰ کہ تمہارے دوست بیرسٹر وسیم خان بادوزئی‘ جن کی شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کے ٹکٹ کے لئے مخالفت کی تھی اور وہ ان کی بھرپور مخالفت کے باوجود ایم پی اے کی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے‘ اب ان کے ''دھواں دھار‘‘ قسم کے سپورٹر ہیں اور ملتان میں شاہ محمود قریشی کے اعزاز میں ایک تقریب کا بندوبست کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی کے دل سے غیر محفوظ ہونے کا وہم نہیں نکل پا رہا۔ وہ امریکہ میں بھی‘ جہاں وہ عالمی ادارے میں پاکستان کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کرنے گئے تھے‘ جہانگیر ترین کے بارے میں اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہے اور عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کرنے کے بعد اپنے قد و قامت بے خبر ہوا میں تلوار چلاتے رہے۔
میں نے اپنے اس دوست کو کہا کہ تم بہرحال میری نیند کا تو ستیاناس کر ہی چکے ہو لیکن آخر ایسی کیا ایمرجنسی آن پڑی تھی کہ رات کو مجھے اُٹھا دیا؟ آگے سے ڈھٹائی سے کہنے لگا: تم نے تعریف بھرا کالم لکھ کر شاہ محمود قریشی کے فخر و انبساط سے پھولے ہوئے غبارے میں مزید ہوا بھری ہے‘ اس لیے بطورِ سزا تمہیں آدمی رات کو اُٹھا کر میں تمہاری اس حرکت کا بدلہ لے رہا ہوں۔ پھر کہنے لگا: ادھر ملتان سے کئی لوگ ان کو مبارکباد دینے کے لئے اسلام آباد گئے تھے۔ قریشی صاحب نے انہیں فارن آفس میں بلا کر بڑی آؤ بھگت کی۔ میں نے اسے درمیان میں ٹوکتے ہوئے پوچھا: کیا تم بھی ان لوگوں میں شامل تھے؟ وہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا: میں تمہیں یہ نہیں بتاؤں گا کہ میں ان آؤ بھگت کروانے والوں میں شامل تھا یا نہیں تھا‘ لیکن تم تفتیش کرنے کے بجائے بات سنو اور مزے کرو۔ قریشی صاحب نے امریکہ سے اسلام آباد پہنچنے سے قبل بھی اپنے استقبال کا بندوبست کروایا اور اب ملتان میں بھی اپنے فقیدالمثال استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور اصرار کر رہے ہیں کہ انہیں ملتان جانے کے لئے خصوصی طیارہ فراہم کیا جائے۔ وہ عام فلائٹ یا بذریعہ سڑک ملتان آنے پر راضی نہیں ہیں۔ وہ پہلے سے ہی ہوا میں اُڑ رہے تھے‘ تم جیسے لوگوں نے ان کی تعریف کر کے ان کو اور اونچی ہواؤں میں پہنچا دیا ہے۔ مجھے اچھی طرح علم تھا کہ اس وقت امریکہ میں کیا وقت ہوا ہے اور میں نے تمہیں صرف اسی وجہ سے بے وقت تنگ کیا ہے کہ تمہیں اس حرکت کی سزا دی جا سکے۔ یہ کہہ کر میرے اس دوست نے فون بند کر دیا۔
اب آپ بتائیں بھلا ایسے دوستوں کا کیا کیا جا سکتا ہے؟ میں کئی دفعہ اپنے دوستوں کو یہ بتا چکا ہوں کہ بحیثیت لکھاری‘ میری نہ کسی سے دشمنی ہے اور نہ دوستی۔ آج اچھا کام کیا تو اس کی تعریف کر دی۔ کل خراب کارکردگی دکھائی تو اس پر تنقید کر دی۔ بھلا اس میں خرابی کیا ہے؟ کالم روزانہ کی بنیاد پر لکھا جاتا ہے اور کارکردگی روزانہ کی بنیاد پر نہ بھی پرکھی جائے تب بھی اس میں توازن تو ہونا چاہیے۔ میرے دوست کی باتیں اپنی جگہ‘ لیکن میں اپنے گزشتہ کالم کی آخری سطور کے حوالے سے اب بھی اپنے نقطہ نظر پر قائم ہوں اور شاہ محمود قریشی کی بطور وزیر خارجہ دورہ امریکہ کی کارکردگی سے نہ صرف بہت زیادہ مطمئن ہوں‘ بلکہ خوش بھی ہوں۔
جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا کہ یہ اب تک کی صورتحال ہے۔ آگے کیا ہوتا ہے‘ یہ ابھی پردہ غائب میں ہے۔ پاکستان میں امریکی اڈوں کے قیام کے بارے میں اڑنے والی افواہوں میں کیا حقیقت ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے‘ یہ وقت کے ساتھ سامنے آ جائے گا اور جو بات آج پوشیدہ ہے کل بہرصورت آشکار ہو جائے گی۔ خدا نہ کرے کہ ہم دوبارہ وہ حماقتیں کرنے لگ جائیں جس سے ہم ابھی تک اپنی جان پوری طرح نہیں چھڑوا سکے اور اس کو عشروں سے بھگت رہے ہیں۔ ایک طرف اڈوں کی فراہمی کی افواہ ہے تو دوسری طرف حکومت اس کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دے رہی ہے‘ مگر بقول ایک دوست کے دھواں وہیں سے اُٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہوتی ہے اور ہمارا سابقہ ریکارڈ یہی ثابت کرتا ہے کہ ہماری حکومتیں (اس کارنامے سے کوئی حکومت بھی مبرّا نہیں) جس بات کی جتنی شدومد سے تردید کرتی ہیں وہ بات اتنی ہی زیادہ اور سچائی کے ساتھ درست ثابت ہو جاتی ہے۔ اللہ خیر کرے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved