تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     29-05-2021

زبان وبیان… (حصہ دوم)

رَدّ: دال کی تشدید کے ساتھ یہ لفظ ''رَدّ‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: ''انکار، تردید، دلیل توڑنا، لَوٹنا یا لَوٹانا‘‘، آج کل کسی کے موقف کو قبول نہ کرنے کے لیے لفظِ ''مُسْتَرَدّ‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ یہ عربی لفظ ہے اور اس کے اصل معنی ہیں: ''واپس کرنے کو کہنا یا کسی چیز کو واپس چاہنا‘‘۔ الغرض مسترَد کے بجائے ''رَدّ ‘‘ استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طرح بعض لوگ لفظِ '' مَعنٰی‘‘ کو ''مَعْنِیْ‘‘ بولتے ہیں جو غلط ہے۔
اَفراط: ''اَفْراط‘‘، فَرط کی جمع ہے اور فَرَط کے معنی ہیں: ''پیش رو‘‘، یعنی جو پانی کی تلاش میں قافلے سے آگے جاتا ہے، نابالغ بچے کے جنازے کی دعا ہے: ''اے اللہ! اسے ہمارا پیش رو بنا‘‘، یعنی جو ہم سے آگے پہنچ کر قیامت کے دن ہمارے لیے وسیلۂ شفاعت بنے، حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک ناتمام (Premature Delivery) پیدا ہونے والے بچے کے ماں باپ کو جب جہنم میں داخل کیا جائے گا تو وہ اپنے رب سے جھگڑے گا، پس کہا جائے گا: اے اپنے پروردگار سے جھگڑنے والے ناتمام بچے! جا! اپنے ماں باپ کو جنت میں لے جا، تو وہ اپنی ناف کی ناڑ کے ساتھ باندھ کر انہیں کھینچ کر لے جائے گا یہاں تک کہ ان دونوں کو جنت میں داخل کر دے گا‘‘۔ (ابن ماجہ: 1608)۔ بچے کا یہ جھگڑنا سرکشی کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسے اور ناز کی بنا پر ہوتا ہے۔ ''سِقْط‘‘ سے مراد وہ بچہ ہے جو حمل کی کل مدت نو ماہ سے ایک یا زائد دن پہلے پیدا ہونے پر اس میں جان ہو، بعد میں خواہ زندہ رہے یا وفات پا جائے، سو حدیث پاک میں ان چھوٹے بچوں کی نمازِ جنازہ کی دعا میں یہ دعا پڑھی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ماہرینِ معیشت اور میڈیا کے لوگ ''اَفراطِ زَر‘‘ بولتے ہیں، حالانکہ یہ لفظ الف کی زیر کے ساتھ ''اِفرَاطِ زَر‘‘ ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ جب مارکیٹ میں اشیاء کی طلب بڑھ جائے اور رسَد کم ہو جائے تو چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، ''زَر‘‘ کی قوتِ خرید کم ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی ہوتی ہے۔
مَغْوِی: ''اِغوا‘‘ کے معنی ہیں: '' گمراہ کرنا‘‘، ہمارے ہاں کسی بندے کو اِغوا کر لیا جائے تو اُسے ''مُغْوِی‘‘ کہتے ہیں، یہ غلط ہے، کیونکہ ''مُغْوِیْ‘‘ اِغْوَا کرنے والے کو کہتے ہیں اور جسے اِغوا کیا گیا ہو، اُسے ''مَغْوِی‘‘ کہتے ہیں۔
اِدْرَاک: اِدراک کے معنی ہیں: ''سمجھ بوجھ‘‘، آج کل اینکر پرسن اور نیوز ریڈر اکثر ''اَدراک‘‘ بولتے ہیں، جبکہ دَرْک کے معنی ہیں: ''درجہ، طبقہ، نچلی تہہ‘‘ اور اس کی جمع ''اَدْرَاک یا دَرَکات‘‘ ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ''اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ‘‘، ترجمہ: بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النسآء: 145)، اردو میں دَرَک کے معنی ہیں: ''عقل، سمجھ، تمیز، واقفیت، دخل‘‘۔
لَیْتَ وَلَعَلّ: لَیتَ حرفِ تمنّٰی ہے، اِس کے معنیٰ ہیں: کاش کہ، کسی ایسی چیز کے لیے جس کا ملنا بظاہر ممکن نہ ہو اور لَعَلَّ حرفِ ترجِّی ہے، لیکن اردو میں ''لَیْتَ وَلَعَل‘‘ ٹال مٹول اور حیلے بہانے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے، میڈیا پر ایک صاحب ''لَیت و لَعْل‘‘ بول رہے تھے، حالانکہ ''لَعْل‘‘ کے معنیٰ ہیں: ''قیمتی پتھر‘‘۔
دونوں فریقین/ سب فریقین: فریق کے معنی ہیں: ''جتھا، جماعت، زمرہ، طائفہ، فرقہ، ٹولی‘‘، اس کی جمع ہے: ''اَفْرِقَہ، فُرُق، فُرُوْق‘‘، عربی میں اس کی تثنیہ ''فَرِیْقَیْن‘‘ آتی ہے، تثنیہ وہ صیغہ ہے جو دو افراد کے لیے آتا ہے، یہ صرف عربی زبان کا خاصّہ ہے‘ دیگر زبانوں میں واحد کے مقابلے میں صرف جمع ہے۔ ہمارے عرف اور اردو محاورے میں کسی قضیے یا مقدمے یا اختلافی امور میں جو دو افراد ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں، اُن میں سے ہر ایک کو ''فریق‘‘ کہا جاتا ہے اور اُس کے مقابل کو ''فریقِ مخالف‘‘ کہتے ہیں۔ ''فَرِیْقَیْن‘‘ میں دو کے معنی پائے جاتے ہیں، اس لیے ''دونوں فریقین‘‘ میں لفظِ ''دونوں‘‘ زائد ہے اور غیر فصیح ہے، صرف ''فَرِیْقَیْن‘‘ لکھنا اور بولنا چاہیے۔ اردو میں ''سب فریقین‘‘ کے بجائے ''ہر فریق‘‘ بولنا اور لکھنا چاہیے۔ ''تمام فریق‘‘ بھی لکھ سکتے ہیں، اردو میں اس طرح بھی لکھا اور بولا جاتا ہے: ''عدالت نے تمام فریقوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ آپس میں گفت وشنید کر کے مسئلہ حل کریں‘‘۔
رمضانوں: کئی لوگ ''رمضان‘‘ کی جمع بنا کر رمضانوں بولتے ہیں، یہ درست نہیں ہے، اس کا اطلاق واحد‘ جمع دونوں پر ہوتا ہے۔
مشکور: مشکور کے معنی ہیں: ''جس کا شکر ادا کیا جائے‘‘، ہمارے ہاں بولا جاتا ہے: ''میں آپ کا مشکور ہوں‘‘، معنوی اعتبار سے یہ درست نہیں ہے، بلکہ یہ بولنا چاہیے: ''میں آپ کا شکر گزار ہوں یا مُتَشَکِّر ہوں یا ممنون ہوں یا زیرِ بارِ احسان ہوں‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَۃَ وَسَعَی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِکَ کَانَ سَعْیُہُم مَّشْکُوراً‘‘، ترجمہ: ''اور جو آخرت کے اجر کا طلبگار ہوا اور مومن ہوتے ہوئے اس کے لیے شایانِ شان کوشش بھی کی، تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی محنت (اللہ کی بارگاہ میں) مقبول ہو گی‘‘ (الاسراء: 19)، الغرض ''سعیِ مشکور‘‘ سے مراد وہ کوشش ہے جسے اللہ کی بارگاہ میں قبولیت نصیب ہو۔
ناجائز تجاوزات: اکثر خبر ہوتی ہے: ''حکومت ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کے لیے متحرک ہو گئی‘‘، اس میں لفظِ ''ناجائز‘‘ زائد ہے کیونکہ ''تجاوُز‘‘ کے معنی ہیں: ''حد سے بڑھنا‘‘، اسے انگریزی میں ''Enchroachment‘‘ کہتے ہیں۔
صبح کا ناشتا: ''ناشتا‘‘ کے معنی ہیں: ''نہاری، صبح کا تھوڑا سا کھانا‘‘، لہٰذا ''صبح کے کھانے کا معنی‘‘ لفظِ ناشتا میں ملحوظ ہے، اس لیے ''صبح کا‘‘ سابقہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاہُ آتِنَا غَدَائَ نَا لَقَدْ لَقِیْنَا مِن سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبا‘‘، ترجمہ: ''پس جب وہ دونوں (موسیٰ اور یوشع بن نون علیہما السلام) آگے بڑھ گئے تو موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا: ہمارا صبح کا کھانا لائو، بے شک ہمیں اس سفر سے تھکاوٹ پہنچی ہے، (الکہف: 62)‘‘۔ بعض مترجمین نے '' غَدَائَ‘‘ کے معنی ''ناشتا‘‘ کے کیے ہیں جو ہماری نظر میں تسامح ہے، کیونکہ سیرتِ مصطفیﷺ میں دو وقت کے کھانے کا ثبوت ملتا ہے، تیسرے وقت ناشتے کا الگ سے ثبوت نہیں ملتا، اس لیے حکیم سعید بھی کہا کرتے تھے: ''اسلام میں دو وقت کا کھانا ہے‘‘۔ اب عالَم عرب میں بھی ناشتے کا رواج ہوگیا ہے اور اُسے جدید عربی میں ''فَطُوْر‘‘ کہتے ہیں، جبکہ انگریزی میں اسے ''Breakfast‘‘ کہتے ہیں، جس کے معنی ہیں: روزہ توڑنا، یعنی صبح اٹھ کر کچھ نہ کچھ کھا پی لینا۔ الغرض صبح یا دن کے کھانے کو ''غَدَائَ‘‘ کہتے تھے، انگریزی میں اسے ''Lunch‘‘ کہتے ہیں اور رات کے کھانے کو عین کے زبر کے ساتھ ''عَشَائیہ‘‘ کہتے ہیں، بعض لوگ اسے عین کی زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں جو غلط ہے۔ انگریزی میں اسے ''Supper‘‘ یا ''Dinner‘‘ کہتے ہیں۔
بَلَند: باء کی زبر کے ساتھ ''بَلَند ‘‘فارسی کا لفظ ہے، روز مرہ زبان میں اسے اکثر لوگ ''بُلَند‘‘بولتے ہیں، لہٰذا یہ بھی فصیح ہے۔
مَحَبَّت: مَحَبَّت کو اردو بولنے والے خطے میں بالعموم میم کے پیش کے ساتھ ''مُحَبَّت‘‘ بولاجاتا ہے، یہ غلط العام ہے اور صحیح تلفظ میم کے زبر کے ساتھ ''مَحَبَّت‘‘ ہے، قرآن کریم میں ہے: ''وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ‘‘، ترجمہ: ''اور میں نے آپ کے اوپر اپنی طرف سے محبت ڈال دی‘‘ (طٰہٰ: 39)، اسی وزن پر میم کے زبر کے ساتھ ''مَسَرَّت‘‘ ہے،لوگ اِسے بھی مُسَرَّت بولتے ہیں، جو درست نہیں ہے، اسی وزن پر عربی الفاظ، مَضَرَّت (تکلیف) اور مَوَدَّت (محبت) آتے ہیں۔
شَجَاعت: شین کی زبر کے ساتھ عربی لفظ ''شَجَاعَت‘‘ ہے، ہمارے ہاں اردو میں اسے شین کے پیش کے ساتھ بولاجاتا ہے۔
علامہ اقبال کا شعر ہے:؎
خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لا الٰہ الا اللہ
ترجمہ: ''بندے کی خودی، خودداری، خود شناسی اور عزتِ نفس کا راز اللہ تعالیٰ کی توحید پر کامل ایمان اور اُس کے ساتھ حقیقی بندگی کا رشتہ اُستوار کرنے میں ہے، خودی تلوار ہے اور اُس کی دھار لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے، یعنی جس مجاہد کا اللہ کی ذات پر ایمان کامل ہو گا، اُس کی ضرب کاری ہوگی اور جو قوتِ ایمانی سے محروم ہو گا، اُس کی ضرب بے اثر رہے گی‘ کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو گی۔ بعض لوگ اس شعر کے دوسرے مصرعے کو اس طرح پڑھتے ہیں: ''خودی ہے تیغِ فساں‘‘ یعنی تیغ کی غین کے نیچے زیر پڑھ کر اس کی اضافت فساں کی طرف کرتے ہیں جو غلط ہے، بلکہ تیغ پر سکتہ کر کے ''فساں لا الٰہ الا اللہ‘‘ پڑھنا چاہیے، نیز یہ کہ بعض ''ف‘‘ کے زیر کے ساتھ ''فِساں‘‘ پڑھتے ہیں، یہ درست نہیں ہے، یہ لفظ ''ف‘‘کے زبر کے ساتھ ہے۔
وَقِیْعَۃ: واقعات، حالات، خبریں، اس کی جمع وَقَائِعٌ ہے، اخبار نویس اور نامہ نگار کو ''وقائع نگار‘‘ بھی کہتے ہیں۔
مَوَاقِعوں:اصل لفظ ''مَوْقِعْ‘‘ اور اِس کی جمع ''مَوَاقِعٌ‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: کسی چیز کے واقع ہونے کا وقت یا مقام، یعنی یہ ظرفِ زمان و مکان دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، ایک صاحب نے جمع کے صیغہ ''مَوَاقِعٌ‘‘ کو اردو میں مفرد تصور کرتے ہوئے اس کی جمع ''مَوَاقِعوں‘‘ لکھا ہے‘ جو غلط ہے۔
چیلنج انگریزی لفظ ہے، لیکن اسے اردو میں قبول کر کے مُوَرَّد بنا دیا گیا ہے، عربی میں اس کے لیے لفظِ ''تَحَدِّیْ‘‘ آتا ہے، لیکن یہ اردو میں رائج نہیں ہے، اردو لغت میں چیلنج کے معنی لکھے ہیں: ''للکارنا، اعتراض کرنا، تردید کرنا‘‘۔ جدید فارسی والے بھی اسے مُفَرَّسکر کے ''چالش‘‘ بولتے ہیں، اس کے معنی ہیں: ''مقابلے کی دعوت دینا‘‘۔ الغرض بعض انگریزی الفاظ کا مفرد متبادل ہمارے ہاں نہیں ہے، اس لیے انہیں قبول کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
حروفِ مقطَّعات: قرآنِ کریم میں 29 سورتوں کے شروع میں ''حروفِ مقطَّعات‘‘ ہیں، ''تقطیع‘‘ کے معنی ہیں: کسی چیز کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا، ان کو حروفِ مقطَّعات اس لیے کہتے ہیں کہ ہر حرف کا تلفظ الگ الگ ہوتا ہے، ان کو ملا کر ایک لفظ کی شکل میں تلفظ نہیںہوتا، جیسے''الٓم‘‘کو الف لام میم پڑھتے ہیں۔
مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے بارے میں کسی نے لکھا ہے : اُن کی کسی سے بحث چل رہی تھی کہ اردو فصیح ہے یا پنجابی، فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا، انہوں نے سلور کی ایک پلیٹ اٹھاکر زور سے پتھر پر ماری اور کہا: ''میں اس تھالی وچ پنجابی دا چِب پا دتا اے، ہونڑ تُسی اردو دا کُج پا کے دسو‘‘ یعنی میں نے اس میں پنجابی کا ''چب‘‘ ڈال دیا ہے، اب تم اردو کا کچھ ڈال کر بتائو، اُن کا مطلب یہ تھا کہ پنجابی زبان میں ڈینٹ کا متبادل لفظ ''چِب‘‘ موجود ہے، لیکن اردو میں اس کا متبادل کوئی نہیں ہے، اپنے انداز میں انہوں نے پنجابی زبان کی برتری ثابت کی، الغرض ڈینٹ کو مُوَرّد کر کے اردو میں قبول کر لیا گیا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دراصل زبان ابلاغ کے لیے ہوتی ہے، یعنی اپنے معنی و مفہوم اور مافی الضمیر کو مخاطَب تک پہنچانا، اس لیے محض زبان دانی کے شوق میں ایسے ثقیل الفاظ استعمال کرنا جن کا فہم لوگوں کے لیے مشکل ہو جائے، بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved