جس طرح کالم نگاروں کو کالم کا پیٹ بھرنے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اسی طرح رپورٹرز بھی اخبار کا پیٹ بھرنے کے لیے دن بھر خبروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور کئی بار خبر کی تلاش میں انہیں ایسی اطلاع ملتی ہے جو ان کے خیال میں 'بڑی خبر‘ یا سکوپ ہوتا ہے، لیکن اخبار چھپنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ بڑی خبر یا سکوپ نہیں تھا بلکہ کوئی کاریگر انہیں چونا لگا گیا۔ جب کالم لکھنے بیٹھا تو موضوعات کی تلاش میں اخبارات کھنگالے۔ ایک خبر کی سنسنی بھری شہ سرخی پر نظر جم گئی 'نون لیگ، بیانیہ کس کا چلے گا؟ پارٹی پر کنٹرول کی جنگ شروع‘۔ شہ سرخی دیکھ کر ایک بار تو مجھے بھی لگا شاید نون لیگ میں کوئی گھمسان کا رن پڑ گیا ہے۔ خبر کا متن دیکھا اور پھر دیگر اخبارات میں بھی اسی سے ملتی جلتی خبریں نظر سے گزریں تو سمجھ آگئی کہ کسی نے کاریگری دکھائی ہے۔
مسلم لیگ (ن) میں اختلاف کی خواہش نما خبروں کے متن کے مطابق 'پارٹی میں واضح طور پر دو گروپس ہیں، ایک مریم نواز کا گروپ ہے جو نواز شریف کا بیانیہ آگے لے کر چلنے کا حامی ہے‘ دوسرا شہباز شریف گروپ ہے جو چاہتا ہے کہ ٹکراؤ سے پرہیز اور مفاہمت سے کام لیتے ہوئے 2023ء کا الیکشن جیتنے پر فوکس کیا جائے۔ نون لیگ کی سینئر قیادت چاہتی ہے کہ نواز شریف اس حوالے سے واضح فیصلہ لیں‘۔ اس خبر کے تجزیے سے پہلے ایک وضاحت لازمی ہے کہ میں مسلم لیگ (ن) کا رکن ہوں نہ اس کا ترجمان۔ صحافیوں اور تجزیہ کاروں پر، اپنی پسند اور مرضی کے خلاف رائے سن کر، مختلف طرح کے الزام لگانے والے دراصل اس فرق کو سمجھ نہیں سکتے کہ صحافی غیر جانبدار نہیں ہوتا بلکہ غیر وابستہ ہوتا ہے۔ سچ اور زمینی حقیقت بیان کرنا اور اطلاعات کا کسی وابستگی کے بغیر جائزہ لینا ہی صحافی کا اصل کام ہے۔
اخبارات میں دوسری اہم خبر مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کا انٹرویو تھا‘ جو دنیا ٹی وی کو دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر کنٹرول کی جنگ کی خبر نما اطلاعات کے ساتھ اس انٹرویو کو غور سے پڑھیں تو کنٹرول کی جنگ کا تمام تاثر زائل ہو جاتا ہے۔ شریف برادران میں اختلافات کی خواہش ان کے تمام سیاسی حریف رکھتے ہیں اور اختلافات کے لیے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بھرپور کوشش اور رابطے بھی کئے۔ اس کے بعد بھی کچھ لوگ ان کوششوں کو جاری رکھے رہے لیکن دو عشروں سے اس خواہش نما خبر کو سچ ہوتے نہیں دیکھ پائے۔ سیاسی حکمت عملی پر رائے میں فرق اختلاف نہیں ہوتا‘ ایک صحت مند بحث ہوتی ہے۔ اختلاف‘ پارٹی پالیسی اور موقف سے انحراف کو سمجھا جانا چاہیے اور شہباز شریف کی طرف سے آج تک ایسا رویہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
شہباز شریف کے انٹرویو کے دو جملوں کو بہت اچھالا جا رہا ہے 'قومی مفاد کے لئے نواز شریف کے پاؤں بھی پکڑنے پڑے تو پکڑوں گا‘ اور 'مریم نواز سیاست دان ہیں انہیں گرومنگ کی ضرورت ہے، مریم نواز کے والد بیٹھے ہیں وہ انہیں گروم کریں گے‘۔ جب سیاق و سباق سے ہٹ کر ان جملوں کو پرکھنے کی کوشش کی جائے گی تو ان میں معانی کا ایک جہان بھی مل سکتا ہے اور من مرضی کا نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے۔
شہباز شریف نے جب اپنے بڑے بھائی کا ذکر کیا تو انہیں والد کا درجہ دیتے ہوئے مکمل بات اس طرح کی 'اگر ہم طے کر لیں نیو سوشل آرڈر‘ اس میں فری اینڈ فیئر الیکشن، تمام ادارے اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں، عدلیہ آزاد ہو‘ کشمیر، فارن پالیسی‘ افغانستان‘ ان تمام ایشوز کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہے تو جتنے بھی متعلقہ ادارے ہیں ان کے ساتھ باہمی مشاورت کر کے روڈ میپ تیار کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے نواز شریف بالکل تیار ہیں‘۔ اب کوئی بتائے کہ اختلاف کہاں ہے؟ نئے سوشل آرڈر اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات وہی بنیادی مطالبہ ہے جو نواز شریف کا ہے۔ مریم نواز کے بارے میں بھی شہباز شریف کی رائے ایک مشفق بزرگ کی ہے اس سے زیادہ میں اس پر کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا۔
مسلم لیگ (ن) میں 'کنٹرول کی جنگ‘ کا بیانیہ بنانے کی کاریگری کرنے والوں سے شہباز شریف بے خبر نہیں ہو سکتے‘ اور میری رائے ہے کہ شہباز شریف بھی یہ انٹرویو دینے کے لیے آمادہ ہی اس لیے ہوئے ہوں گے کہ وہ کاریگروں کے ساتھ ساتھ کھیل کے تمام فریقوں کو پیغام دے سکیں۔ شہباز شریف نے مستقبل کی حکمت عملی اور روڈ میپ دیا ہے۔ اس میں بھی نواز شریف صاحب کی ان پٹ شامل ہو گی۔ میری رائے میں نواز شریف نے میاں شہباز شریف کی صورت میں اپنا 'اوپننگ بیٹسمین‘ میدان میں اتار دیا ہے اور کھیل کی پوری حکمت عملی وہ خود تیار کر رہے ہیں‘ جس کی تصدیق خود میاں شہباز شریف نے بھی کی اور کہا کہ وہ لندن میں علاج کے علاوہ بڑے بھائی سے سیاسی امور پر بات کرنے کے بھی خواہاں تھے۔
نواز شریف کے اوپننگ بیٹسمین میاں شہباز شریف نے اس انٹرویو کی صورت میں میچ کا آغاز کیا اور حکومت کو چارج شیٹ بھی کیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے بجٹ میں ان کو بے نقاب کرنا ہے اور قومی چیلنجز ہیں، مجھے خوف آتا ہے جب ہم مدینہ کی ریاست کی بات کرتے ہیں‘ وہ ایک ایسا نظام تھا جس پر عمل کرے تو انسان دین اور دنیا دونوں کما لے۔ ان کو احتیاط کے ساتھ ریاست مدینہ کا نام لینا چاہیے۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے غریبوں اور بچوں کے لئے مفت ادویات، ایکس ریز، سی ٹی سکین بند کر دیتے ہیں؟ حکومت نے ایک مجرمانہ غفلت دکھائی، سی پیک پر تاخیر سے کام لیا جا رہا ہے، یہ منصوبہ اب کھٹائی میں پڑ گیا ہے، اسے درست انداز میں ہینڈل نہیں کیا گیا۔ کئی منصوبے چین مان گیا تھا‘ لیکن منظور کیے ہوئے منصوبے کھٹائی میں پڑ گئے۔ افسوس کی بات ہے کہ افغانستان کی کرنسی ہم سے پاور فل ہے، پارلیمنٹ کو تالا لگا دیا گیا، آئین میں ترامیم آرڈیننس سے کی جا رہی ہیں، اس طرح پاکستان آگے نہیں بڑھے گا، ان منصوبوں پر تختیاں لگا رہے ہیں جو ہم نے مکمل کرنے تھے یا مکمل کیے، دن رات جھوٹ بولتے ہیں، یو ٹرن لیتے ہیں، چینی پر سبسڈی دی اور ایکسپورٹ کی اجازت، پھر اربوں کا زر مبادلہ دے کر امپورٹ کی، گندم کے ساتھ جو ہوا، رمضان بازاروں میں قطاریں لگی ہوئی تھیں۔
شہباز شریف نے پاکستان کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر درپیش چیلنجوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج نکل رہی ہیں، اگر اشرف غنی اور طالبان میں مذاکرات کسی وجہ سے ختم ہوتے ہیں تو یہ افغانستان اور پاکستان کیلئے خطرناک ہو گا، ہم تمام معاملات میں اکٹھے ہو سکتے ہیں، اس کے بغیر گزارہ نہیں، بھارت جی 20 کا ممبر ہے، مجھے اس سے بڑی تکلیف ہے کہ ہم کیوں نہیں ہیں۔ پاکستان نے لیڈ کرنا تھا۔
شریف بردران کے درمیان اختلافات کی خواہش نما خبر اور تجزیہ دینے والوں نے غور نہیں کیا کہ شہباز شریف نے موجودہ حکومت کو سلیکٹڈ کہا اور نواز شریف کے بیانیے کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے مستقبل کے خدشات پر بھی بات کی۔ ان کا موقف ہے کہ الیکٹرانک مشینیں لا کر یہ بیوقوف نہیں بنا سکتے، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے کسی کو انکار نہیں لیکن مشینیں لا کر آر ٹی ایس کی یاد نہیں دلائی جا سکتی۔ شہباز شریف صاحب کی گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے نئے میچ میں بہترین انداز سے اوپن کیا ہے اور کھیل میں انہیں پارٹی لیڈر کا مکمل اعتماد اور رہنمائی حاصل ہے۔