تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     30-05-2021

خالی ہاتھ کیسے لڑا جائے گا

چار جنوری 2021ء کو معزز سپریم کورٹ ملک میں تیز اور شفاف احتساب کے لیے تیس نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کے احکامات جاری کر چکی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد‘ جناب جسٹس اعجاز الحسن اور جناب جسٹس منیب اختر پر مبنی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے لاکھڑا پاور پلانٹ کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالتوں کے ججز کی کمی کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت کو تیس نئی احتساب عدالتوں کی جلد از جلد تشکیل کا حکم دیا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ احتساب عدالتوں کے قیام کو کیوں لٹکایا جارہا ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے کہا کہ وزارت خزانہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے منظوری ہوچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ 11 جنوری سے عملے کی بھرتیاں شروع ہوجائیں گی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ہدایات سال 2000ء سے 1226 ریفرنسز کے زیر التوا ہونے سمیت مجموعی طور پر 25 میں سے پانچ احتساب عدالتوں میں اسامیاں خالی ہونے پر مایوسی کے اظہار کے بعد سامنے آئیں۔سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے پورے ملک میں 120 احتساب عدالتیں قائم کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا تھا۔اس منصوبے میں ملک بھر میں اضافی احتساب عدالتوں کے قیام کے لیے انسانی وسائل کی مجموعی ضروریات اور مالی مضمرات شامل تھے۔وزارت قانون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ منصوبہ قانون اور انصاف ڈویژنز کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے پیش کیا جائے گا‘بعد ازاں اکتوبر 2020ء میں وزیر اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی اصولی منظوری دے دی تھی۔ وفاقی وزارت قانون و انصاف ڈویژن کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ مالی مشکلات کے پیش نظر پہلے مرحلے میں 30 نئی احتساب عدالتیں تشکیل دی جائیں گی جبکہ باقی عدالتوں کا قیام مقدمات کے دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے مرحلہ وار عمل میں لایا جائے گا۔یاد رہے کہ اُس وقت ملک بھر میں 24 احتساب عدالتیں کام کر رہی ہیں جو اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ پشاور‘ لاہور‘ ملتان‘ کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر اور کوئٹہ میں ہیں۔
مگر عدالت عظمیٰ کی واضح ہدایات اور حکومت کی جانب سے کوئی عمل درآمد کی یقین دہانی کے باوجود چھ ماہ میں احتساب عدالتوں میں اضافے اور ججز کی تعیناتی کے معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت نہ کی جا سکی۔ احتساب عدالتوں میں مقدمات کے بوجھ کی تازہ صورتحال 24 مئی کے روزنامہ دنیا کی ایک خبر سے واضح ہے۔ملک بھر میں احتساب عدالتوں کی کمی اور احتساب عدالتوں کے ججز کے پاس ہزاروں مقدمات کی منتظر فائلوں اور عوام میں احتساب کے عمل بارے پائے جانے والے سوالات پر مبنی اس خبر نے ملک کے سنجیدہ حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑا دی ۔ خبر کے مطابق نیب کی پانچ عدالتوں میں سے تین عدالتیں ججز سے محروم ہیں۔احتساب عدالتوں سے ٹرانسفر ہونے والے تین ججز کی جگہ پر تاحال ججز کو تعینات نہ کیا جاسکا جس کے باعث ہائی پروفائل کیسز جن میں شہباز شریف ‘حمزہ شہباز‘خواجہ سعد رفیق‘خواجہ سلمان رفیق‘آصف ہاشمی ‘فواد حسن فواد سمیت دیگر اہم ریفرنسز التوا کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ صرف ایک خبر ہی نہیں بلکہ حقیقت بھی ہے کہ احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتیاں نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں اہم ترین مقدمات التوا کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ حکومت اور نیب کے مخالفین کو یہ سوال کرنے کا موقع مل رہاہے کہ احتساب کے عمل سے اب تک کیا بر آمد ہوا ۔ جب ایسے بیانات کو پذیرائی مل رہی ہو تو پھر ماحول کو اپنے حق میں سازگار دیکھتے ہوئے نواز لیگ ‘ پی پی پی اور میڈیا کے ایک مخصوص حلقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ یہ سب سیا سی انجینئرڈ مقدمات ہیں جن سے احتساب کا نام بھی بد نام ہو رہا ہے‘ لیکن جب یہ بہتان اور تمسخر اڑائے جاتے ہیں تو حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف یہ بتانے کی کوشش ہی نہیں کرتی کہ احتساب کی کارکردگی بارے اگر کسی کو حکومتی جماعت کی بات کا یقین نہیں تو قومی اخبارات کے گزشتہ پانچ دنوں کے صفحات ہی اٹھا کر دیکھ لے جن میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ نیب صرف گزشتہ تین برسوں میں‘ یعنی جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے‘ ا س ملک کو لوٹنے والوں سے لوٹے اور ہضم کیے ہوئے 487 ارب روپے ریکور کرا چکی ہے اور یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں‘ لیکن اس کے با وجود نیب کا کہنا ہے کہ مقدمات کی تعداد کے حساب سے احتساب ججز کی تعیناتی بھی کی جائے تو نتائج ا س سے کئی گنا بہتر آ سکتے ہیں۔
چند روز ہوئے ایک ٹی وی چینل پرایک صاحب تحریک انصاف کے ایک ترجمان کو احتساب کے نام پررگڑا دیتے ہوئے ان سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کی حکومت کو تین سال ہونے کو ہیں‘ مہنگائی چھوڑیے کہ اس کا تعلق کورونا کی وجہ سے ڈالر اور بین الاقوامی تجارتی خساروں اور مندیوں سے جوڑا جا سکتا ہے‘ لیکن احتساب کے نعرے پر آپ نے ہم جیسوں کو اپنا گرویدہ بنا کر ووٹ لئے ہیں‘ اس احتساب کی کوئی مثال ہمارے سامنے پیش کر یں‘ کسی سے کی گئی وصولی ہی بتا دیں اور پی ٹی آئی کا وہ ترجمان گنگ ‘ ان صاحب کو دیکھتا جارہا تھا ‘ اس سے میرے سمیت اس وقت لاکھوں سامعین اور ناظرین یہ سمجھنے پر مجبور ہوئے ہوں گے کہ یہی بات مریم اورنگ زیب‘ رانا ثنا اﷲ‘ عطا اللہ تارڑ ‘ شاہد خاقان عباسی اوراحسن اقبال صاحب میڈیا اور تحریک انصاف کے لیڈروں سے اپنی ہر پریس کانفرنس میں پوچھتے چلے آ رہے ہیں۔احتساب عدالتوں کے ججز کی کمی اور پہلے سے تعینات تین جج صاحبان کے ہنگامی بنیادوں پر کئے جانے والے تبادلوں سے حالت یہ ہو چکی ہے کہ نیب کے زیر حراست ملزمان کے مقدمات کو بغیر کسی مزید کارروائی کے ملتوی کیا جا رہا ہے ۔اس وقت نیب کی کل پانچ عدالتوں میں سے تین عدالتیں اپنے ججز سے محروم ہیں اور بد قسمتی کہہ لیجئے کہ احتساب عدالتوں سے ٹرانسفر کئے گئے تین جج صاحبان کی جگہ ابھی تک کوئی جج تعینات نہیں کیا جا سکا۔تاہم جب اپوزیشن یا مسلم لیگ نواز کی لیڈر شپ میڈیا پر وزیر اعظم عمران خان اور نیب پر سوال اٹھاتی ہے تو وہ بھول جاتی ہے کہ سچ یا جھوٹ کا پتہ تو اُسی وقت چل سکے گا جب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کارروائی اپنی قانونی تکمیل تک پہنچے گی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کوئی چھ ماہ سے یہ حکم جاری کر رکھا ہے کہ وفاقی حکومت احتساب عدالت کے لیے مزیدتیس ججز کو تعینات کرے جس کے لیے ظاہر ہے کہ بجٹ کی بھی ضرورت ہو گی۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت تیس احتساب عدالتوں کی منظوری بھی دے چکی ہے لیکن یہ جج کب تعینات کئے جائیں گے؟ مزیدعدالتیں کب بنیں گی؟ اس کے لیے اب کیا قانونی نکات قابل غور رہ گئے ہیں جبکہ سپریم کورٹ ملک سے کرپشن کے خاتمے اور احتساب کا عمل شفاف اور تیز بنانے کے معاملے میں رہنمائی چھ ماہ پہلے ہی کر چکی ہے۔
جب بعض حلقوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ نیب نے اب تک کیا ہی کیا ہے‘ کس کو سزا دی ہے‘ اب تک کتنی لوٹی ہوئی دولت واپس لی گئی ہے تو ان بیانات کے جواب دینے کے لیے حکومت نہ جانے کیوں خاموش ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت بھی نیب کی بھر پور کارکردگی کاا عتراف کرنے میں شاید بخل سے کام لیتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے قریب تین سالہ دور میں نیب نے 484 ارب روپے ریکور کیے ہیں۔اس کے مقابلے میں 1999ء سے 2017ء کے دوران صرف 290 ارب روپے ریکور کیے گئے تھے۔ صرف نیب لاہور کی جانب سے گرفتار کئے گئے43 بد عنوان عنا صر کو احتساب عدالتوں سے سزائیں سنائی جا چکی ہیں ۔ اس سلسلے میں ڈی جی نیب پنجاب اور ان کی ٹیم کی دن رات کی گئی محنت کا اعتراف نہ کرنا بد دیانتی ہو گی۔ انہوں نے تین برسوں میں اس ملک و قوم کے لوٹے ہوئے75 ارب روپے قومی خزانے میں واپس جمع کروائے ہیں۔ نیب لاہور کے تیار کئے گئے مقدمات کی سماعت کے بعد عدالتوں سے سزا یافتہ 43 افراد میں سے طاہر احمد خان کو سزا کے علا وہ45 ہزار پائونڈ جرمانہ کیا گیا‘فیصل کامران اور خرم سے33.1 ملین کی ریکوری کی گئی‘ نذیر احمد خان سے193 ملین روپے ریکور کئے گئے‘ظہیر ناصر‘ اسد کامران‘ حافظ محمد جاوید چیمہ‘ خواجہ محمد تنولی‘ نعیم امداد‘ طارق محمود‘ ابو ذر جعفری‘ شاہد حسن اعوان‘ محمد اعظم چشتی‘ یعقوب لونا‘عامر ندیم اور دوسرے لوگوںسے تین ارب روپے سے زائد کی ریکوری کی گئی۔یہ واضح ہے کہ نیب ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے لیے انتہائی سنجیدگی سے کوششیں کر رہا ہے۔ نیب کی کارکردگی کو معتبر قومی اور بین الاقوامی اداروں نے بھی سراہا ہے اورنیب کو مبینہ بد عنوانیوں سے متعلق موصول ہونے والی شکایات میں اضافہ بھی نیب پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت کی روشنی میں حکومت نیب عدالتوں میں اضافہ کرے اور نیب عدالتوں میں ججز کی خالی نشستوں پر تعیناتیاں کی جائیں۔ قومی احتساب کے ادارے کی اصل کارکردگی ان لوازمات کے بعد ہی سامنے آسکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved