حکومت ِپاکستان نے نئے مالی سال کا بجٹ تیار کر لیا ہے اور منظوری کے لیے آئی ایم ایف کو بھیج دیا گیا ہے۔ اس بجٹ میں عوام کے لیے کیا ہے اس پر آگے چل کر لکھتا ہوں فی الحال ایک نظر نئے سیکرٹری خزانہ پر ڈال لیتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے تین سال میں پانچ سیکرٹری خزانہ تعینات کئے ہیں۔ جس حساب سے موجودہ دور میں بیورو کریسی کے تقررو تبادلے ہوئے ہیں اس میں یہ خبر زیادہ حیران کن نہیں لگتی لیکن سرکار کی غیر سنجیدگی دیکھیں کہ بجٹ پیش ہونے سے دو ہفتے قبل سیکرٹری خزانہ کو بدل دیا گیا ہے۔ کامران افضل کی جگہ یوسف خان کو یہ عہدہ سونپا گیا ہے۔ یوسف خان کو ایک مہینہ پہلے ہی گریڈ اکیس میں ترقی دی گئی تھی۔ یہ غالباً پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ گریڈ اکیس کے کسی افسر کو فنانس سیکرٹری لگایا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق اس تقرری میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے آمدن ڈاکٹر وقار مسعود کی تجویز شامل تھی۔ یاد رہے کہ تقریباً پونے تین سالوں میں چار وزرائے خزانہ تعینات کیے گئے ہیں۔ شوکت ترین صاحب بھی چھ ماہ کے لیے وزیر ہیں‘ اس کے بعد انہیں پارلیمنٹ کا ممبر بنانا ضروری ہے۔ اگر حفیظ شیخ صاحب کی طرح یہ بھی منتخب نہ ہو سکے تو پانچواں وزیرخزانہ ڈھونڈنا پڑے گا۔ حکومت گلہ کرتی دکھائی دیتی ہے کہ معیشت عدم استحکام کا شکار ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشی ٹیم ہی عدم تحفظ کا شکار ہو اور پالیسی بنانے والوں کے تبادلے برق رفتاری سے کیے جائیں تومعیشت بھی مستقل مزاج نہیں رہ سکتی۔ معاشی ٹیم اور کرکٹ کی ٹیم میں فرق ہوتا ہے‘ اسے جتنی جلدی سمجھ لیں گے‘ اتنا ہی بہتر ہو گا۔ آئیے اب بجٹ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
شوکت ترین صاحب نے وزیرخزانہ بننے کے بعد پاکستان بزنس کونسل سے ملاقات میں کچھ وعدے کیے تھے جنہیں نئے بجٹ میں پورا کیا جانا تھا۔ سب سے پہلا وعدہ سیل پر ایک اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس کو کم کرنا تھا۔ بزنس کمیونٹی کا موقف تھا کہ اگر ٹیکس لگانا ہے تو منافع پر لگائیں‘ اگر ہم نے کچھ کمایا ہی نہیں تو ٹیکس کہاں سے دیں گے؟ ایف بی آر نے یہ آسان طریقہ ڈھونڈ رکھا ہے کہ محنت نہ کرنی پڑے اور ٹارگٹ بھی پورا ہوتا رہے۔ اگر اسی طرح جبری ٹیکس اکٹھا کرنا ہے تو ایف بی آر کی فوج کیوں رکھی گئی ہے‘ یہ کام تو چند کلرکوں سے بھی کروایا جا سکتا ہے۔ ترین صاحب نے وعدہ تو کر لیا تھا لیکن جو بجٹ بنا کر آئی ایم ایف کو بھیجا گیا ہے اس میں ایسے کسی ریلیف کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے دو ماہ قبل ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 65B‘65E‘65D کے تحت ٹیکس چھوٹ ختم کر دی تھی۔ 65E اور 65D تو 30 جون 2021ء کو ختم ہوں گی لیکن 65B کو وقت سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔ غیر ذمہ داری کی انتہا ملاحظہ کیجیے کہ پہلے آپ نے ان قوانین کے تحت نئے کاروبار کرنے والوں کو پانچ سال تک ٹیکس چھوٹ دینے اعلان کیا‘ کاروباری حضرات نے آپ کے وعدوں پر یقین کیا‘ سینکڑوں کمپنیاں بنائیں‘ان کے نام پر اربوں روپے کا مال منگوا لیا اور پھر اچانک آپ نے ٹیکس چھوٹ کی رعایت واپس لے لی۔ میں یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ ان سکیموں کے تحت فوراً ٹیکس ریلیف نہیں مل جاتا‘ پہلے کمپنیاں مال منگواتی ہیں‘ آپریشن شروع کرتی ہیں اور سال بعد جب ٹیکس ریٹرن فائل کرتی ہیں تو ٹیکس چھوٹ حاصل کی جاتی ہے۔ اب سینکڑوں کمپنیوں نے اپنے پانچ سال کی منصوبہ بندی حکومت پر بھروسا کر کے کر لی اور حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں انہیں آسمان سے زمین پر لا کے کھڑا کر دیا۔ اب مجبوراً انہیں کاروبار کرنا پڑے گا‘ ٹیکس چھوٹ نہ ملنے کی وجہ سے اشیا کی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی جس سے ایک طرف سیل کم ہو گی اور دوسری طرف مہنگائی بڑھے گی‘ بلکہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ کمپنیاں مال مارکیٹ میں اونے پونے بیچ کر اس سے جان چھڑائیں گی۔ شوکت ترین صاحب نے بجٹ میں ان قوانین کو بحال کروانے کا وعدہ کیا تھا لیکن عین موقع آکر مکر گئے ہیں۔
بجٹ کے حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت نے ٹیکس ہدف پانچ اعشاریہ آٹھ کھرب روپے طے کر لیا ہے جو کہ آئی ایم ایف کے طے کردہ ہدف سے 163 ارب روپے کم ہے‘ لیکن یہ آدھی خوشی ہے کیونکہ ہم نے تو کم کر لیا ہے‘ آئی ایم ایف نے ابھی رضامندی ظاہر نہیں کی ۔ اس کے علاوہ 350 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کا منصوبہ بھی تیار کر کے بھیج دیا گیا ہے۔ ان میں وہ 81ارب روپے کے ٹیکسز بھی شامل ہیں جو حالیہ مِنی بجٹ کے تحت لگائے گئے تھے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ شوکت ترین صاحب نے نئے بجٹ میں جو ٹیکسز لگائے ہیں وہ حفیظ شیخ صاحب کے آئی ایم ایف سے طے کیے گئے معاہدوں کا نصف ہیں۔ تنخواہوں پر ٹیکس ریٹ نہیں بڑھایا جا رہا لیکن ٹیکس سلیب کم کر دی جائے گی جس سے زیادہ تنخواہ لینے والے افراد پر ٹیکس کی شرح بڑھ جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا جبکہ حفیظ شیخ صاحب نے آئی ایم ایف سے تنخواہ دار طبقے پر 24 ارب روپے کے اضافی بوجھ کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ سیلز ٹیکس کے حوالے سے 190 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جائیں گے جو کہ آئی ایم ایف کے چھ ارب روپے کے پیکیج کی بحالی کے وقت طے کیے گئے معاہدوں کا نصف ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف انہیں قبول کرے گی یا نہیں؟
شوکت ترین صاحب نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا جبکہ دوسری طرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے اکتوبر 2021ء تک بجلی کے ریٹ طے کر لیے گئے ہیں۔ حکومت نے اگلے سال کے لیے شرح نمو پانچ اعشاریہ دو فیصد طے کی ہے لیکن ماہرین کو یہاں اعتراض ہے کہ پہلے 3.94 فیصد شرح نمو پر اٹھائے گئے اعتراضات کا تو کوئی جواب دیں۔ اگر آپ مشکوک اعدادوشمار پیش کرتے رہیں گے تو جلد ہی اس غبارے میں سے ہوا نکل جائے گی۔ مہنگائی کی شرح آٹھ فیصد تک لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن یہ کیسے ہو گا؟ اس حوالے سے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ بندی موجود نہیں ہے۔یاد رہے کہ موجودہ مالی سال میں مہنگائی ڈبل ڈیجٹ میں پہنچ گئی ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مہنگائی کے اعدادوشمار ہمیشہ وزرات خزانہ کے تخمینے سے زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں۔ اگر اس بنیاد پر دیکھا جائے تو مہنگائی کی شرح بڑھنے کی توقع زیادہ ہے۔
میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بجٹ سے زیادہ امیدیں لگانا عبث ہے۔ پاکستان میں کوئی ایسی ترقی تو ہوئی نہیں جس کا عکس بجٹ میں نظر آئے۔ ترقی پذیر ممالک میں بجٹ عوام پر صرف ٹیکس لگانے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ بلکہ اب تو روایت ہی بدل گئی ہے‘ پہلے سال میں ایک بجٹ آتا تھا لیکن اب سال میں چار مِنی بجٹ بھی آجاتے ہیں‘ جس نے تنخواہ دار طبقے کے ساتھ کاروباری طبقے کو بھی اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کمپنیاں مستقل پالیسیز ہی نہیں بنا پاتیں‘ یہی وجہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری ملک میں نہیں آ رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ جو تبدیلیاں کرنی ہیں وہ ایک ہی بجٹ میں کر کے عوام کے سامنے رکھ دی جائیں اور ایک سال تک اس میں کوئی نئی پالیسی شامل نہ کی جائے۔ اس سے ٹیکس تو شاید کم نہ ہو لیکن کاروباری لوگوں کے لیے آسانی ضرور پیدا ہو سکے گی۔