تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     31-05-2021

اگر بم نہ پھٹا…

مدر اَرتھ کی معلوم تاریخ میں انسانی ہاتھوں سے تیار کردہ انسانیت کی تباہی کے سب سے بڑے شو آف پاور کا نام ''Little Boy‘‘ رکھا گیا۔ یہ چھ اگست 1945ء کی سیاہ تاریخ تھی۔ اُس روز صبح آٹھ بج کر 15 منٹ پر جب شہر کے لوگ بے خبر اپنے کاموں میں مصروف تھے تو Hiroshima کے ان خالی ہاتھ بے گناہ شہریوں پر 31 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے والے ایک امریکی جہاز نے ایٹم بم گرایا تھا۔Hiroshima کی مکمل تباہی کے تقریباً 72 گھنٹے بعد ''Fat Man‘‘ نام کا ایک ایسا ہی ایٹم بم Kokura جزیرے پر گرانے کیلئے یو ایس ایئر فورس کو بھیجا گیا لیکن اس جزیرے پر آباد انسانوں کو قدرت نے بادلوں کی موٹی تہہ میں ڈھانپ کر تاریخ کی سب سے بڑی بربادی سے بچا لیا مگر اس کا نتیجہ ایک دوسرے جاپانی جزیرے Nagasaki کی بربادی کی صورت میں نکل آیا‘ جہاں ایٹم بم نے ہر ذی روح کا نام و نشان مٹا ڈالا۔ اگر ہم نیوکلیئر Explosive ڈیوائس‘ جسے حرفِ عام میں ایٹم بم کہا جاتا ہے‘ کی رپورٹ شدہ معلوم تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے نیوکلیئر پراجیکٹ پر امریکہ سے بہت پہلے جرمنی کے نازی لیڈر ایڈولف ہٹلر نے کام شروع کرارکھا تھا۔
پچھلی صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے میں شروع ہونے والی اس تاریخ کا دوسرا باب مختلف اسلامی ممالک کی طرف سے نیوکلیئر صلاحیت حاصل کرنے کی کوششوں سے تعلق رکھتا ہے۔ عراق کے اندر گھس کر آپریشن بابل کے ذریعے ویسٹرن ممالک کی سپورٹ کے سہارے پر اسرائیل نے عراق کی ایٹمی تنصیبات اور نیوکلیئر پلانٹ پر تباہ کن حملہ کیا۔ مڈل ایسٹ کے بعد افریقہ کے ایک اہم مسلم ملک لیبیا کے شہید لیڈر کرنل معمر قذافی کی جانب سے نیوکلیئر صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش میں جو بربادی طرابلس سے تریپولی تک برپا ہوئی وہ بھی تاریخ کا ایک بلیک چیپٹر ہے۔ ایران تسلسل کے ساتھ اس راہ پر بد ترین عالمی دبائو اور پابندیوں کا شکار ہے۔
1970ء کے عشرے میں پاکستان کے اٹامک انرجی کمیشن نے پُرامن مقاصد کیلئے فرانس سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی متعدد کوششیں کیں جن کو کبھی At Source اور کبھی راستے میں سبوتاژ کر دیا گیا‘ مگر پاکستان کی ریاست نے اپنے تحفظ کیلئے Minimum Deterrence کی دفاعی صلاحیت حاصل کرنے کی کوششوں کو مسلسل جاری رکھا۔ ایسی کوششوں کے حوالے سے یو ایس اے میں ایک فلم بھی بنائی گئی جس کا نام ''Buying The Bomb‘‘ رکھا گیا۔ اس کا مرکزی کردار کراچی کی میمن برادری کے ایک بہت باعزت گھرانے کے نوجوان تاجر تھے جو ماشاء اللہ اب بھی حیات ہیں اور ان کے نام کا ایک حصہ مسٹر Vaid ہے۔ انہیں یو ایس اے میں کئی سال حراست میں بھی رکھا گیا۔ یہ تاجر ٹیلی میڈیسن کے مسلم بانی سمجھے جاتے ہیں۔ آج کل وہ ایک بڑی فلاحی تنظیم سے بھی وابستہ ہیں۔ پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع Ras Koh Hills کو ایٹمی دھماکوں کیلئے منتخب کیا اور پھر 28 مئی 1998ء کو جمعرات کے روز پاکستان کے ریاستی میڈیا نے ان دھماکوں اور ان کے بعد Ras Koh Hills کی شعلہ نمائی ساری دنیا میں دکھا کر ایٹمی صلاحیت حاصل کرلینے کا برملا اعلان کردیا۔
اُن دنوں پاکستان میں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر نواز شریف صاحب براجمان تھے‘ اس لئے ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) المعروف پی ایم ایل این ہر سال مئی کے آخری ہفتے میں نواز شریف کو ایٹم بم کا بانی ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں لگی رہتی ہے۔ اسی حوالے سے 23 سال گزرنے کے بعد اس سال 28 مئی کو بھی ایسا ہی ہوا۔ اس جماعت کے بعض لیڈر صاحبان نے 28 مئی کو نواز شریف کی سیاست سے جوڑتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان میں ایٹم بم کے بانی کو ایٹم بم بنانے کے جرم میں حکومت سے نکال دیا گیا‘ جس کے جواب میں بہت سے حلقوں نے فوراً یاددہانی کی جواب آں غزل پیش کرتے ہوئے کہا کہ جناب نواز شریف کو ایٹم بم بنانے کے جرم میں نہیں بلکہ کرپشن سے جائیدادیں بنانے کے جرم میں نکالا گیا ہے۔ یہ بحث کیوں نکالا کا ایٹمی ورژن ہے‘ جسے ایک اہم‘ دلچسپ اور سیاسی موضوع بنا دیا گیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے متحارب سیاسی گروپوں کی رائے سے ہٹ کر کسی غیر سیاسی اور غیر پاکستانی سورس سے کنفرم کیا جائے کہ کیا واقعی ایٹم بم نواز شریف نے ہی بنایا تھا؟ اورنج ٹرین بنانے والے چھوٹے بھائی شہباز شریف صاحب کی طرح۔ اگرچہ اس موضوع پر مرحوم مجید نظامی صاحب کی رپورٹ شدہ رائے نواز دور کے سابق سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب صاحب کی کتاب اور مزید بہت سی طبع شدہ کہانیاں اپنے ہاں بھی موجود ہیں جن میں سے ایک کہانی کا ذکر آخر میں کریں گے لیکن ان سب کا کوئی نہ کوئی سیاسی اینگل نکالا جا سکتا ہے‘ اس لئے بہتر ہوگا کہ ہم کہیں سے تھرڈ پارٹی آزاد‘ مگر باخبر سورس میں اس کا جواب تلاش کریں۔
یہ سورس ہم سب کیلئے کتاب ''Engaging India: Diplomacy, Democracy, and the Bomb‘‘ کے نام سے موجود ہے جو 2004ء میں شائع ہوئی‘ جسے Brookings Institution نے شائع کیا۔ کتاب کے مصنف مسٹر Strobe Talbott ہیں۔ وہ امریکہ کے ڈپٹی سیکرٹری آ ف سٹیٹ تھے اور مڈل ایسٹ‘ پاکستان اور افغانستان کے حکمرانوں سے رابطے میں رہنا ان کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔ کتاب کے صفحہ نمبر 52 تا 72 چیپٹر کا عنوان ہے ''The Mountain Turns White‘‘۔ صفحہ 63‘64 پر پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے ٹاپ امریکن آفیشل‘ جن میں مسٹر Strobe Talbott خود اور یوایس سنٹرل کمانڈ کے انچارج یو ایس Marine فور سٹار جنرل Anthony Zinni شامل تھے‘ کی نواز شریف سے ملاقات کا احوال لکھاہے‘ جو پی ایم ہائوس میں ہوئی۔ ''اس موقع پر نواز شریف تقریباً فالج زدہ حد تک تھکاوٹ شدہ نظر آئے‘ پریشانی اور خوف کا شکار۔ بالکل ویسے ہی جس طرح صدر کلنٹن نے انہیں فون کال کے دوران محسوس کیا تھا۔ ہاتھوں کو ملتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ دھماکے کیلئے تیار نہیں۔ نواز شریف باربار ہمیں اس بات کی یقین دہانی کراتے رہے۔ یہ بھی کہ اگر ایٹمی دھماکے کا فیصلہ ان کی اپنی ججمنٹ پر ہو تو وہ نیوکلیئر ٹیسٹ نہیں کریں گے۔ ان کی پوزیشن پریشان کن تھی۔ کہنے لگے: میری حکومت Tit for Tat ایکسچینج کی پالیسی اختیار نہیں کرنا چاہتی۔ جن انڈین لیڈروں نے دھماکہ کیا وہ پاگل آدمی ہیں۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ وہ پاگل پن سے ان پاگلوں کا راستہ نہیں اختیار کرنا چاہتے‘‘۔ اسی کتاب میں بھارت کی جانب سے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کا باب بھی ''The lost Half Century‘‘ کے نام سے شامل ہے۔ پوکھران انڈین ایٹم گھر کی کہانی بھی دلچسپ ہے جس کا کافی حصہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی ڈپلومیسی کی جدوجہد پر مبنی ہے۔
ایک کہانی جو چاغی دھماکے کے چشم دید گواہ بتاتے ہیں‘ یہ ہے کہ چیف ایگزیکٹو مسلسل اس اندیشے کا اظہار کرتے رہے کہ اگر بم نہ پھٹا تو پھر کیا ہوگا۔ یہ بات عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ بہت سے کولڈ ٹیسٹ کرنے کے بعد چاغی پہاڑ کے اندر نیوکلیئر ڈیوائس کا دھماکہ ہوا۔ اس کے بانی وہ اَن سَنگ ہیروز ہیں جن میں دھماکے سے پہلے چاغی کا ایئر ڈیفنس کرنے والوں کی ویڈیو اب سامنے آئی۔ شکر ہے چاغی کا ٹھیکہ کسی سیاسی ٹھیکے دار کے پاس نہیں تھا بلکہ یہ سارا سسٹم محفوظ اور پروفیشنل ہاتھوں میں تھا اور ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved