فوجی بوٹوں کی چاپ مسلسل سنائی دے رہی تھی اور وہی ہوا۔مصر میں صدر مرسی کا تختہ الٹے جانے پر پاکستانی میڈیا میں اب دو طرح کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں ۔ خود مصر میں شہنائی ہے اور ماتم بھی۔ خدا کی مخلوق باہم دست و گریباں ہے ۔ ظالم اور مظلوم، حق او رباطل،گرد ایسی ہے کہ کوئی پہچانا نہیں جاتا۔افسوس ،عالمِ اسلام کی بیشتر مذہبی سیاسی جماعتیں فقط عشق کی قائل ہیں۔ بے باک مگر مصلحت دشمن۔ خرد حقیقتِ چالاک و چست و مستِ خرام جنوں صداقتِ بے باک و مصلحت دشمن پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت اسلام سے محبت کرتی ہے ۔ روکھی سوکھی کھانے کے لیے شب و روز جو ایڑیاں رگڑتے ہیں ، غمِ روزگار نے جنہیں پست و پامال کر رکھا ہے ، مصر میں اخوان المسلمین کی کامیابی پر وہ بھی سینہ پھلائے پھرتے تھے ۔ گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا یہ جذبہ خوب ہے ۔ کامیابی مگر درکار ہے تو جذبات کو ایک طرف رکھنا ہوگا۔ اسلام کا علمبردار ہونا کافی نہیں ۔ سو ارب گلیکسیز ، سات آسمان اورزندگی سے جگمگاتے سات سیارے تخلیق کرنے والے رب نے جب عقل پیدا کی تو فخرسے یہ فرمایا: جو بھی کسی کو دوں گا، تیرے سبب اور جو بھی کسی سے لوں گا، تیری وجہ سے۔ صدر مرسی سے اب اس نے اقتدار لے لیا ہے ۔ آخر کیوں ؟ سچ تو یہ ہے کہ تضادات بہت بڑے تھے ۔فلسطین کے ساتھ سرحد کھولنے ، شامی حکومت سے تعلقات ختم کرنے اور باغیوں کی حوصلہ افزائی سے کیا ظاہر ہوتاہے ؟ شامی حکومت کے شانہ بشانہ لڑنے اور ایرانی بنیادیں رکھنے والی حزب اللہ کو وہ شام سے نکل جانے کا حکم دے رہے تھے ۔خطے میں ایسا بالادست کردار ادا کرنے کے لیے ایک مستحکم اور مضبوط معیشت اوّلین شرط تھی لیکن پاکستان ہی کی طر ح وہ آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مجبور تھے ۔ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور ایران میں غیر جانبدار ممالک کے اجلاس میں شرکت سے وہ مغرب کو ایک واضح پیغام دے رہے تھے۔ وہی مغربی ممالک ، جن کی طاقتور معیشتوں نے آئی ایم ایف قائم کر رکھا ہے ۔جواباً عالمی مالیاتی ادارے نے مصری معیشت تباہ او رصدر مرسی کو نامقبول کر دینے والی شرائط عائد کیں تو حیرانی کیسی ؟ اسرائیل خطے کا اہم ترین ملک کیسے بنا؛حتیٰ کہ عالمی طاقت امریکہ کے فیصلوں پہ وہ اثر انداز ہونے لگا۔ بڑے مالیاتی اداروں اور میڈیا پر تسلّط ، خوفناک جنگی اور ایٹمی صلاحیت۔معزول مصری صدر کی نیک خواہشات پہ کسی کو شبہ نہیں لیکن فقط آرزو پالنے سے کیا حاصل ؟ یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں ــ\"ناگزیر\"لیڈر بھی بہت سے مسائل کی جڑ ہیں ۔ 1970ء کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے پیپلز پارٹی سے دو گنا نشستیں جیتی تھیں لیکن بھٹو ناگزیر تھے اور یحییٰ خان بھی ۔بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔ شام میں ایک لاکھ افراد قتل ہو چکے ۔اپنی علیحدگی کے اعلان کے ساتھ بشار الاسد ایک منصفانہ الیکشن کا اعلان کردیں تو صبح امن قائم ہو سکتاہے ۔ بشار الاسد مگر ناگزیر ہیں ۔ صدر مرسی کتنے ہی دردمنداور مخلص ہوں ، وہ متنازعہ ہو چکے تھے۔ بروقت صدارتی الیکشن کا اعلان کر تے ہوئے کسی نئے چہرے کے ساتھ اخوان المسلمین میدان میں اترتی تو فوجی مداخلت روکنا سوفیصد ممکن تھا۔یہاں مگر صدر مرسی ناگزیر تھے ۔ صدر مرسی کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ جبر نہیں ،معاشرہ تعلیم سے سنوارا جاتاہے ۔ عالمی قوتوں کو آنکھیں دکھانے سے پہلے مضبوط معیشت اٹھائی جاتی ہے ، ادارے تعمیر کیے جاتے ہیں اور قوم کو ایک لڑی میں پرویا جاتا ہے ۔حضرت محمد ؐ نے فرمایا تھا: دانا وہ ہے ،جو اپنے زمانے سے واقف ہو۔ فوج ، عدالت اور حریف سیاسی و مذہبی جماعتیں ہی نہیں ، دگرگوں معیشت، امریکہ اور مغربی ممالک ، خطے کا سب سے خطرناک کھلاڑی اسرائیل اور عالمی مالیاتی ادارے ،یہ سب اخوان المسلمین کے مخالف فریق تھے ۔ ایک لمحے کے لیے باقی سب بھول جائیے ،کیا مسلسل 60 برس اقتدار پہ قابض رہنے والی فوج پہ صدر مرسی کی نظر تھی؟ کیا وہ جانتے تھے کہ احتجاج طول پکڑ گیا تو لازماًفوج وار کرے گی ؟ وہی فوج ، جس سے اٹھنے والے جمال عبدالناصر کو 1954ء میں اخوان نے قتل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ مہم جُو فوج کو اس کے آئینی کردار تک محدود کرنے کا ایک ہی راستہ ہے ۔ اخلاقی بالاتری اور مکمل عوامی تائید کے ذریعے اسے واپس دھکیل دینا چاہیے ۔امن و امان ، معاشی ترقی ، متوازن خارجہ پالیسی اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کے بغیر عوامی تائید کیونکر میسر آئے ؟ رجب طیب ایردوان کے ترکی سے بہتر مثال ممکن نہیں ۔ مصر کا مسئلہ اور بھی گھمبیر تھا کہ وہاں فوجی غلبہ غیر معمولی ہے۔اب اخوان کے حامی اور مخالف ایک دوسرے کو نوچ رہے ہیں ۔ شاید پھر سے وہ ابھر آئے ۔ ایسا ہو اتو بہرصورت اسے اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی ۔ اقتدار سے محرومی شاید اخوان المسلمین کے لیے ایسی نقصان دہ نہ ہو ، جتنی ناکام حکومت ۔ حوالے کے لیے پیپلز پارٹی ملاحظہ ہو ۔ ایٹمی پروگرام کے معاملے میں ایران مغرب کے مقابل ڈٹ گیا ہے لیکن مصر کے برعکس فنا کے خوف نے ایرانی قوم کو یکجا کر رکھا ہے ۔ سچ تویہ ہے کہ ایران نہایت چالاکی کے ساتھ خطے میں سرگرم ہے ۔ مثلاً شدید اختلافات کے باوجود عراق اور افغانستان میں کیا اس نے امریکی مزاحمت کی ہے یا حمایت؟ شام میں بشار الاسد کی ساری تگ و دو اقتدار کی ہے ۔ تیس برس تک برسرِ اقتدار رہنے والے اپنے والدکی مقدس حیات سے انہوںنے ایک واحد سبق یہ سیکھا ہے کہ بہرصورت اقتدار سے چمٹے رہنا چاہیے ۔ انہیں تو فقط 12برس ہوئے ہیں ، لیبیا میں تو پاکستان کے بہت سے بھوکوں کا پیٹ بھرنے والے معمّر قذافی نے 42 برس حکومت فرمائی تھی۔ افغانستان، عراق، فلسطین، لیبیا ، مصر ، شام ، دل دکھتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ بیشتر مسلم ممالک کی حالت پتلی ہے ۔اسرائیل جیسی خطرناک ایٹمی اور فوجی قوت کی موجودگی میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال اور بھی خوفناک ہے ۔دوسری طرف مغرب مسلسل جاگ رہا ہے۔ ریاست کے تمام ادارے اس نے مضبوط بنیادوں پر تعمیر کر لیے۔ تعلیم اور تحقیق میں وہ ہمہ وقت مصروف ہے ۔ دنیا کے بنتے بگڑتے سیاسی حالات، ہر انقلاب اور ہر تحریک پہ اس کی نظر ہے اور اس کے بطن سے اپنے من پسند نتائج پیدا کرنے کے لیے پوری طرح وہ متحرک ۔ ہمیں بھی جاگ اٹھنا چاہیے ۔ ایک پر امن جمہوری جدوجہد سے اداروں کی تشکیل اور غلط فیصلے کرنے والے حکمرانوں کا کڑا احتساب ۔اور کوئی راستہ نہیں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved