تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     01-06-2021

مفاہمت یا مزاحمت

مفاہمت یا مزاحمت؟ اس سہ حرفی سوال کے ساتھ مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم دونوں کا مستقبل جڑا ہوا ہے۔ میاں شہباز شریف کا آج سے نہیں گزشتہ دو دہائیوں سے مفاہمتی بیانیہ ہے جبکہ اُن کے برادرِ اکبر میاں نواز شریف بار بار برسراقتدار آکر خود کو مفاہمت سے بیزار محسوس کرنے لگتے ہیں اور دیر یا سویر وہ مزاحمت پر اُتر آتے ہیں۔ میاں شہباز شریف ایک بار پھر مفاہمت کے بیانیے کی پرجوش وکالت کرتے سنائی اور دکھائی دے رہے ہیں اور اسی بیانیے پر مہر ِتصدیق ثبت کرانے کیلئے وہ لندن جاکر اپنے برادرِ بزرگ کے پائوں پکڑنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ وہ تو لندن کیلئے مائل بہ پرواز تھے مگر عین آخری وقت میں اس برادرانہ مفاہمت سے خوفزدہ عناصر نے اُن کے پر کاٹ دیے۔ البتہ پر کاٹنے والوں کو شاید خبر نہیں کہ جذبۂ جنوں موجزن ہو تو نئے بال پر آنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران شہباز شریف اور اُن کی بھتیجی مریم نواز کے بیانیے کا اختلاف کھل کر سامنے آیا ہے۔ شہباز شریف مفاہمت کے علمبردار ہیں جبکہ مریم نواز سمجھتی ہیں کہ مزاحمت کے بغیر مفاہمت کے دروازے نہیں کھلتے۔ گویا چچا بھتیجی کی منزل ایک ہے مگر راستے مختلف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب میاں نواز شریف ملک سے باہر تھے‘ شہباز شریف اور حمزہ شہباز پسِ دیوارِ زنداں تھے اس وقت مریم نواز نے نہایت بہادری اور جانفشانی کے ساتھ پارٹی کی بھرپور قیادت کی۔ وہ بڑے بڑے عوامی جلسوں میں پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کی ترجمان اور اُن کے مزاحمتی بیانیے کی حقیقی عکاس کے طور پر جلوہ گر ہوئیں۔ عوام نے اُن کی جارحانہ خطابت کو زبردست پذیرائی بخشی اور یوں اُن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور انہیں مسلم لیگ (ن) کا قائد تسلیم کر لیا گیا۔ اس دوران جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے اُن میں سوائے ایک دو کے مسلم لیگ کو کامیابی ملی۔ مریم نواز اس کامیابی کو اپنے مزاحمتی بیانیے کا اعجاز سمجھتی ہیں۔
میاں نواز شریف کی صاحبزادی نے پی ڈی ایم کے فورم پر بھی اپنی قیادت کا لوہا منوایا۔ وہ ہر سربراہی اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کرتیں اور نپی تلی مگر دوٹوک گفتگو کرتیں۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کے ذریعے ہی انہوں نے اپنی حریف پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ دیرینہ تلخیوں کو فراموش کر دیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی اس پیشرفت کا نہایت پرتپاک خیرمقدم کیا۔ مریم اور بلاول گرم جوشی کے ساتھ سیاسی ملاقاتیں کرنے لگے۔ یوں ماضی کی حریف پارٹیاں نوجوان قیادتوں کے ذریعے حکومت کے خلاف حلیف بن کر سامنے آئیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے یک جان دو قالب ہونے سے پی ڈی ایم اپنے مزاحمتی ایجنڈے کیلئے زیادہ پرجوش پیش قدمی کرنے لگیں۔ پیپلز پارٹی نے اکثر ضمنی انتخابات میں نہایت اخلاص کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کو ووٹ دیے۔ جواباً سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کی اسلام آباد سے کامیابی کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور یوں انہونی ہوکر رہی اور یوسف رضا گیلانی حکومتی نمائندے سابق مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو شکست دے کر سینیٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔
اس مثالی اتحاد کی برکت سے پی ڈی ایم کو زبردست کامیابی نصیب ہوئی اور یہاں سے ہی پی ڈی ایم کی بدنصیبی کا بھی آغاز ہوگیا۔ اتحاد کے ذرائع کے مطابق یہ طے ہوا تھا کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مسلم لیگ (ن) کا ہوگا۔ وہاں بھی پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے نیک نیتی کے ساتھ یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے کیلئے ووٹ دیے۔ انہیں اکثریت بھی حاصل ہوگئی مگر کسی فنی نکتے کا سہارا لے کر اُن کے کچھ ووٹ مسترد کر دیے گئے۔ یہاں یوسف رضا گیلانی کسی دام ہم رنگ زمیں میں پھنس گئے اور انہوں نے سرکاری جماعتوں سے حمایت حاصل کرکے قائدِ حزبِ اختلاف کا منصب حاصل کر لیا اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کیے گئے عہدوپیمان کو توڑ دیا۔ اس وعدہ خلافی کے بارے میں پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی سے وضاحت طلب کی۔ اسی طرح اے این پی سے بھی وضاحت مانگی گئی تھی کیونکہ اس نے بھی پی ڈی ایم کی پالیسی کے خلاف سینیٹ میں ووٹ دیے تھے۔ مولانا عبدالغفور حیدری کے ڈپٹی چیئرمین منتخب نہ ہونے کو بھی مولانا فضل الرحمن اسی وعدہ خلافی کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔ ان پارٹیوں نے اعتراف یا خاموش وضاحت کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ لفظی جنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کمزور ہوگئی اور حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
میں نے میاں نواز شریف کے ایک قریبی حلقے سے (ن) لیگ کے بیانیوں کی موجودہ جنگ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جس کو میاں صاحب آئینی مطالبہ اور آپ مزاحمتی بیانیہ کہتے ہیں اس پر میاں صاحب اب بھی قائم ہیں۔ میاں نواز شریف تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود میں خودمختاری کے ساتھ آزادانہ دیکھنے کے آرزومند ہوتے ہیں مگر جب عملاً ایسا نہیں ہوتا تو پھر معاملہ بگڑ جاتا ہے۔ نظری اور آئینی لحاظ سے بڑے میاں صاحب کا موقف درست ہے مگر وہ ہر بار اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ برسوں سے رائج شراکتِ اقتدار کے کلچر کو یوں چٹکی بجاتے نہیں بدلا جا سکتا۔ انہیں غالباً ادراک نہیں کہ یہ کلچر بدلا تو جا سکتا ہے مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔
میاں صاحب کی جماعت ایلیکٹ ایبلز کی انتخابی پارٹی ہے یہ کوئی مزاحمتی و انقلابی پارٹی نہیں البتہ میاں صاحب نہایت خوش قسمت آدمی ہیں کہ وہ ہر بار دعوتِ مبارزت دے کر خود بچ نکلتے ہیں۔ اسی طرح میاں صاحب کو یقینا یہ بھی معلوم ہو گا کہ اُن کی پارٹی کے اندر حقیقی جمہوریت ہے اور نہ ہی شورائیت۔ پارٹی کے بڑے بڑے فیصلے آزادانہ مشاورت سے نہیں بلکہ میاں صاحب کے وقتی میلانِ طبع کے مطابق وجود میں آتے ہیں۔ میاں صاحب کی اس حقیقت تک بھی رسائی ہونی چاہئے کہ اُن کا بیانیہ اسی وقت باثمر ہوگا جب وہ اپنے بیانیے کی روشنی میں اپنی پارٹی کا منشور مرتب کریں گے اور کارکنوں کی فکری و سیاسی تربیت کا کوئی پروگرام وضع کریں گے۔ میاں نواز شریف کے برعکس اُن کے برادرِ اصغر میاں شہباز شریف کی نظر ہمیشہ زمینی حقائق پر رہی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پاوربیس پنجاب کے اکثر ووٹر بزنس کلاس اور نیم متوسط کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ دل و جان سے دائیں بازو کی اس جماعت کو ووٹ دیتے ہیں۔
اپنے قریبی حلقوں کو میاں شہباز شریف بتاتے ہیں کہ عمران خان اور وزیراعلیٰ بزدار کی مہربانی سے اب غریب بھی پہلے سے کہیں بڑھ چڑھ کر مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے کیلئے بے قرار ہیں۔ وہ آہیں بھرتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے پرانے پاکستان کو یاد کرتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اُن کیلئے 2023ء کا انتخاب ایک سنہری موقع ہے‘ کسی مزاحمتی بیانیے کی بنا پر یہ موقع کھو دیا تو یہ بہت بڑی محرومی ہوگی۔ اگرچہ میاں شہباز شریف نے یہ نہیں بتایا کہ اُن کے پاس میاں نواز شریف کے پائوں پکڑنے کے علاوہ اپنے اپنے بیانیے پر قائل کرنے کیلئے کسی حلقے کی طرف سے کوئی یقین دہانی بھی موجود ہے یا نہیں۔ میاں نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کو حقیقت آشنا کرنے میں فیئر اینڈ فری الیکشن کی یقین دہانی بہت کارگر ثابت ہوگی۔
میاں نواز شریف کی سوچ اور اپروچ تخیلاتی و نظری ہے جبکہ میاں شہباز شریف کی سوچ و اپروچ حقیقت پسندی اور سیاسی حقائق پر مبنی ہے۔ اُن کی نظر اگلے عام انتخابات پر ہے جس میں کوئی مزاحمتی بیانیہ آڑے نہ آپڑا تو مسلم لیگ (ن) کی بھرپور کامیابی واضح ہے۔ یہی حقیقت وہ اپنے برادرِ بزرگ سے منوانے لندن جانا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں جانے دیا گیا تو...!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved