تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     10-07-2013

دشمن یا بھائی؟

دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے پارلیمنٹ نے قراردادیں بھی پاس کیں اور سرکاری اور غیرسرکاری آل پارٹیز کانفرنسیں بھی ہوئیں لیکن نتیجہ وہی‘ ڈھاک کے تین پات۔سوال یہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنسوں اور تمام ایجنسیوں کی بریفنگز کے بعد کیا ہم دہشت گردی کے خلاف کوئی متفقہ حکمت عملی تیار کر سکے؟اگر اتنی اعلیٰ سطحی کانفرنسوں اور پارلیمنٹ میں بحث و تمحیص اور معلومات کے تبادلوں کے باوجود ‘ ابھی تک یہی طے نہیں کیا جا سکا کہ خطرہ کیا ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟ اور دشمن کون ہے؟ تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ ایک ملک 11 سال سے ایک اندھی لڑائی لڑنے میں مصروف ہے اور وہ دشمن کو نشانے پر تو کیا لے گا؟ اس کا تعین بھی نہیں کرسکا۔ ہماری فوج اس جنگ میں دلجمعی سے مصروف ہے اور ہمارے سیاستدان اس دشمن کے ساتھ مذاکرات کے اعلانات کر رہے ہیں۔ بڑے ادب سے سوال کروں گا کہ ایک جوان اور افسر مورچے میں بیٹھاغیرمتوقع حملوں سے بچائوکی ہمہ وقت تیاریوں میں مصروف ہے۔ اسے پتہ نہیں کہ دشمن کب اور کس طرف سے آ کے حملہ کرے گا ؟ اور ادھر وہ اپنے ریڈیو پر خبریں سنتا ہے یا اخبار پڑھتا ہے کہ جس دشمن کی گولی کا وہ نشانہ بن رہا ہے‘ اس کے اپنے قومی لیڈر‘ اس کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہے ہیں‘ تو وہ جنگ لڑے گا یا امن مذاکرات کے نتائج کا انتظار کرے گا؟ اس کو یکسوئی کیسے ملے گی؟ دنیا میں کہیں بھی ایسی جنگ لڑی گئی جہاں لڑنے والے فوجی کو یہی پتہ نہ ہو کہ جو اس پر حملے کر رہا ہے‘ وہ اس کا دشمن ہے یا مسلمان بھائی؟ اس کا سادہ ذہن‘ اس سوال کا جواب کس سے مانگے گا کہ مجھ پر گولیاں چلانے والا اگر مسلمان بھائی ہے‘ تو وہ مجھے مارنا کیوں چاہتا ہے؟ اور اگر یہ میرا دشمن ہے‘ تو میرے ملک کے بعض لیڈر اور علمائے کرام‘ اس کے لئے نرم گوشہ کیوں رکھتے ہیں؟ مجھے جنگ کے شعلوں میں دھکیلا کیوں گیا ہے؟ غضب خدا کا‘ 11 سال سے جنگ لڑی جا رہی ہے۔ ہمارے شہروں میں بم پھاڑے جا رہے ہیں۔ ہماری مسجدیں‘ امام بارگاہیں‘ خانقاہیں‘ قبرستان‘ آبادیاں‘ مارکیٹیں‘ بازار‘ گھر‘ جیلیں‘ ہوائی اڈے‘ بحری اڈے‘ جی ایچ کیو‘ غرض کوئی جگہ دشمن کے بموں اور گولیوں سے محفوظ نہیں اور ہماری رہنمائی کرنے والے‘ ہمیں واضح طور سے ابھی تک یہ نہیں بتا پائے کہ دشمن کون ہے؟ نہ کوئی دانشور‘ اس کا صاف پتہ بتاتا ہے۔ نہ کوئی عالم دین۔نہ ہمارا عدالتی نظام۔ ایک بلیم گیم چل رہی ہے۔ پولیس کہتی ہے ‘ ہم دہشت گردوں کے خلاف کیس بنا کے لے جاتے ہیں‘ عدالتیں انہیں چھوڑ دیتی ہیں اور عدالتوں کی طرف سے جواب آتا ہے‘ جب پولیس ہی مضبوط کیس بنا کر نہیں لائے گی تو ہم کس بنیاد پر سزائیں دیں؟ پہلے تو ماتحت عدالتوں کے جج حضرات ‘ دہشت گردوں کا ہدف بنا کرتے تھے‘ اب ہائی کورٹ کے جج صاحبان بھی محفوظ نہیں رہ گئے۔ پنجاب ہائی کورٹ کے ایک جج انتہاپسندوں کا نشانہ بن چکے۔ گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب پر بھی حملہ ہو گیا۔ ان کی جان تو بچ گئی لیکن ان کے 9محافظوںکو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ دنیا کے جو دوسرے ملک ‘ نان سٹیٹ ایکٹروں سے برسرپیکار ہیں‘ ان کی سکیورٹی فورسز کو دشمن کا پتہ ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی قومیں‘ مسلمانوں پر نظر رکھتی ہیں۔ ایسا شاذونادر ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ گوری چمڑی والے بھی‘ دہشت گردوں کے حامی تھے‘ لیکن ایسی مثالیں انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔ مغرب کے بیشتر ملک اور امریکہ جنہیں کہ دہشت گرد اپنا دشمن قرار دیتے ہیں‘ وہ اپنے آپ کو بڑی حد تک محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ کشمیری مجاہدین کی جنگ آزادی میں‘ جب سے دہشت گردی کا عمل دخل شروع ہوا ہے‘ جنگ آزادی کمزور پڑنے لگی ہے۔ مظلوم کشمیریوں کے حق میں عالمی رائے عامہ کے اندر حمایت میں جو وسعت پیدا ہوتی جا رہی تھی‘ وہ دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں کم ہوتے ہوتے‘ اب ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں اٹھنے والی آوازیں‘ اب شاذونادر ہی سنائی دیتی ہیں۔ روس کو اپنے ہم نسل جنگجوئوں سے لڑنا پڑا۔ لیکن وہ بھی اب دہشت گردی کی بڑی اور موثر کارروائیوں سے نمٹ رہا ہے۔ مگر ہم مسلمان کیا کریں؟ ہم پر حملے کرنے والے بھی اسی خدا اور رسولﷺ کا نام لیتے ہیں‘ جو ہمارے بھی خدا اور رسولﷺ ہیں۔ ہماری ہی طرح نمازیں پڑھتے ہیں۔ ہماری ہی طرح حلال کھاتے ہیں ۔ مگر وہ ہمیں مارتے ہوئے‘ ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچتے کہ ہم ان کے دشمن کیونکر ہیں؟ وہ بلا امتیاز ہر پاکستانی کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہسپتالوں میں پڑے مریضوں کو نہیں چھوڑتے۔ طالبات کی بسیں اڑا دیتے ہیں۔ گھروں میں سوئے لوگوں کو بموں سے اڑا دیتے ہیں۔ بازاروں میں‘ خریداروں پر بم چلا دیتے ہیں۔ انہیں کبھی الجھن نہیں ہوتی۔ کبھی تذبذب نہیں ہوتا۔ یہ خیال تک ان کے ذہن میں نہیں آتا کہ جسے ہم بم سے اڑانے جا رہے ہیں‘ وہ ہمارا بھائی ہے یا دشمن؟ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ لیکن ہماری سکیورٹی فورسز‘ جب اپنے علما اور لیڈروں کے بیانات پڑھتی ہیں‘ تو ان میں یہ تذبذب پیدا ہونا فطری امر ہے کہ جس کے ساتھ وہ لڑ رہے ہیں‘ وہ ان کا دشمن ہے یا بھائی؟ وزیراعظم نوازشریف نے بہت اچھا کیا کہ آتے ہی آل پارٹیز کانفرنس طلب کر لی۔ مگر اس میں ہو گا کیا؟ کیا اسی طرح کی قراردادیں پاس ہوں گی‘ جو پارلیمنٹ میں ہو چکی ہیں؟ کیا وہی قراردادیں دہرائی جائیں گی‘ جو سرکاری اور غیر سرکاری آل پارٹیزکانفرنسوں میں منظور ہوتی رہی ہیں؟ اگر ان قراردادوں سے کچھ نہیں ہوا‘ تو نئی قرارداد سے کیا ہو جائے گا؟ کیا اس کانفرنس میں ان حقائق کو جاننے کی کوشش کی جائے گی‘ جنہیں ہم ابھی دریافت ہی نہیں کر سکے؟ اگر ہمارے ارباب اقتدار کو صحیح اور پورے حقائق معلوم ہوتے‘ تو اب تک ایک موثر قومی پالیسی تیار ہو چکی ہوتی اور ہماری سکیورٹی فورسز‘ اس کی روشنی میں دشمن کے خلاف موثر کارروائیاں کر رہی ہوتیں اور وہ ہمارے شہروں اور بستیوں میں لگاتار حملے کرنے کی پوزیشن میں نہ رہتا۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہی اس امر کی دلیل ہے کہ ہم ابھی تک دشمن کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر سکے۔ شناخت کریں گے‘ تو کارروائی کریں گے۔ دشمن کی پہچان پر اتفاق رائے ہو گا‘ تو اس کے ساتھ لڑائی کی جا سکے گی۔ جب دشمن کی شناخت کے بارے میں ہی اتفاق رائے نہیں‘ تونشانے لگائے بغیر گولیاں چلانے سے کیا ملے گا؟ دہشت گردی اب ملکوں اور قوموں کا معاملہ نہیں رہ گیا۔ یہ اب ایک بہت بڑی منڈی بن چکی ہے۔ اس منڈی کی حدود نہیں۔ سرحدیں نہیں۔ قومیں نہیں۔ مذہب نہیں۔ عقیدہ نہیں۔ یہ انسانی روبوٹ ہیں‘ جو ہر ایک کو مناسب قیمت پر دستیاب ہیں۔ امریکہ چاہے‘ تو انہیں لبیا اور شام میں استعمال کر سکتا ہے۔ حسب ضرورت پاکستان میں بھی استعمال کر لیتا ہے۔ یورپی ملک‘ انہیں افریقہ میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ کئی انتہاپسند گروہ اور طبقے‘ انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر دہشت گردی کرنے والوں کے سرپرست‘ ہمارے گردونواح میں بیٹھے ہیں۔ مسلمان کو مسلمان کا خون بہانے پر‘ یہی فرقہ پرست قوتیں زیادہ سرگرم ہیں۔ یہ لوگ جو ہر دہشت گردی کو امریکہ کے نام لگا کر‘ اسے گالیاں دیتے ہیں‘ ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ اہل تشیع کی خونریزی میں امریکہ کی کیا دلچسپی ہے؟ مزاروں ‘ درگاہوں اور مسجدوں میں جانے والے عبادت گزاروں اور زائرین سے امریکہ کی کیا دشمنی ہے؟ ہماری ایجنسیوں اور ہمارے سیاسی ماہرین کو پہلے دشمن کی نشاندہی کرنا ہو گی اور اس کی شناخت پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا اور پھر قوم کو اعتماد میں لے کر‘ دشمن کے خلاف جنگ لڑنے کا عزم صمیم پیدا کرنا ہو گا۔ یہ سب ہو‘ تو جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ ان میں سے ایک بھی چیز نہیں ہے‘ تو نہ جنگ لڑی جا سکتی اور نہ جیتی جا سکتی ہے۔ ہم ایسی جنگ کب تک لڑتے رہیں گے‘ جس میں نہ کوئی دشمن سامنے ہے اور نہ کوئی علاقہ؟ ایسی جنگ میں دشمن محفوظ رہتا ہے اور جنگ میں کودا ہوا فریق‘ خود ہی اپنے آپ کو موت کے لئے انجانے دشمن کے حوالے کرتا رہتا ہے۔ ہم نے اپنے 18کروڑ عوام کو انجانے اور بے پہچانے دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں دشمن کی تلاش کر کے‘ اس کا چہرہ عوام کے سامنے رکھیں اور سکیورٹی فورسز کا جو افسر اور جوان لڑنے کے لئے بھیجا جاتا ہے‘ اسے پیچھے سے ایسی کوئی آواز سنائی نہ دے‘ جس سے وہ مخمصے میں پڑ جائے کہ اس کے سامنے دشمن ہے یا اس کا بھائی؟ -----------------

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved