تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     01-06-2021

مکتوبِ نبویﷺ بنام شاہانِ مصر و شام!

سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کا پیغام پوری انسانیت تک پہنچا دیں۔ اس عظیم فریضے کو آنحضورﷺ نے بہترین انداز میں سرانجام دیا۔ آپﷺ نے تمام حکمرانوں کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت پہنچائی۔ اس وقت مصر کے حکمران کا نام مقوقس تھا۔ آپﷺ کا خط حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے پہنچایا۔حضرت حاطبؓ سے آپﷺ نے فرمایا: اے حاطب! اللہ تعالیٰ تجھ کو برکت عطا فرمائے‘ حق بات کسی فرد تک پہنچانا انسان کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہوتا ہے۔ اسلام میں یہ مسلّم ہے کہ دعوتِ حق اور شہادتِ حق اعلیٰ ترین نیکی ہے۔ مدینہ سے حضرت حاطبؓ مصر کے شہر اسکندریہ پہنچے اور شاہ مقوقس کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ سمندر میں ایک کشتی میں بیٹھے اپنے درباریوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔ حضرت حاطبؓ نے ایک کشتی کرایے پر لی اور اس پر سوار ہو کر بادشاہ کی کشتی کے قریب پہنچے اور اسے آنحضورﷺ کا خط دکھایا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ قاصد کو میرے پاس لایا جائے؛ چنانچہ انہیں اس کے پاس لے جایا گیا۔ انہوں نے آنحضورﷺ کا خط پیش کیا جس کا متن درج ذیل ہے:
''یہ خط محمد رسول اللہﷺ کی جانب سے مصر کے حکمران مقوقس کو لکھا جارہا ہے۔ سلام ہو اس شخص پر جس نے راہِ ہدایت اختیار کی۔ میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ مسلمان ہوجائو‘ محفوظ رہو گے۔ مسلمان ہوجائو‘ اللہ تمہیں دُہرا اجر عطا فرمائے گا لیکن اگر تم اعراض کرو گے تو رعایا کے مسلمان نہ ہونے کا گناہ بھی تمہیں برداشت کرنا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اے اہلِ کتاب! آجائو اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مسلّمہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اپنے میں سے کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائیں۔ اگر اہلِ کتاب نہ مانیں تو اے مسلمانو! تم اعلان کردو کہ سب لوگ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں‘‘۔(آل عمران3:64)‘‘
خط پڑھنے کے بعد حضرت حاطبؓ اور مقوقس کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ مقوقس نے کہا کہ میں تمہیں تمہارا دین چھوڑنے کی دعوت دوں تو تم کیا کہو گے؟ آپؓ نے نہایت بلیغ اور حکیمانہ انداز میں فرمایا: ''ہمارا دین حق ہے۔ ہم اسے تبھی چھوڑ سکتے ہیں جب ہمیں اس سے بہتر دین نظر آئے۔ ہمارا دین اسلام ہے جو ہر لحاظ سے کافی ہے۔ بے شک حضرت محمدﷺنے لوگوں کو دعوت دی، تو سب سے زیادہ مخالفت قریش نے کی اور دیگر تمام قوموں کے درمیان نبیﷺکے سب سے بڑے دشمن یہودی ہیں؛ البتہ عیسائی مسلمانوں کے بہت زیادہ قریب ہیں۔ اللہ کی قسم! حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کی خوش خبری دینا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حضرت محمدﷺکی تشریف آوری کی خوش خبری دینا ایک جیسی بات ہے۔ ہمارا آپ کو قرآن مجید کی دعوت دینا ایسا ہے جیسے آپ یہودیوں کو انجیل کی طرف بلاتے ہیں۔ جس امت میں بھی کوئی نبی آجائے وہ اس نبی کی امت بن جاتی ہے۔ ان پر فرض ہوجاتا ہے کہ اس نبی کی اطاعت کریں۔ اس لحاظ سے آپ بھی ان (نبی کریمﷺ)کی امت (امتِ دعوت) میں سے ہیں کیونکہ آپ نے ان کا دور پالیا ہے، نیز ہم آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام کے دین سے روکتے نہیں بلکہ ہم تو آپ کو اس کی پابندی کا حکم دیتے ہیں‘‘۔
مقوقس کہنے لگا: ''جن کا خط لے کر تم آئے ہو کیا یہ نبی نہیں؟‘‘
حضرت حاطبؓنے جواب دیا: ''کیوں نہیں؟ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں۔‘‘
مقوقس کہنے لگا: ''تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب انہیں ان کے شہر سے نکالا گیا تو انہوں نے بد دعا کیوں نہ کی؟‘‘
حضرت حاطبؓ نے فرمایا: ''حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا وہ نبی نہیں تھے؟تو پھر جب ان کی قوم نے ان کو سولی پر لٹکانے کا ارادہ کیا تو انھوں نے بددعا کیوں نہ کی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اٹھا لیا؟‘‘
مقوقس کہنے لگا:''بہت خوب! تم ایک دانا شخص ہو جو کسی دانا شخص کے پاس سے آئے ہو۔‘‘
اس کے بعد مقوقس نے حضرت حاطبؓکو بہت عزت و احترام کے ساتھ آنحضورﷺ کے نام اپنا پیغام دیا جس میں آپﷺ کی بھرپور تعریف تھی۔ اس نے آنحضورﷺ کے لیے بہت سے تحفے بھی بھیجے، جن میں حضرت ماریہ قبطیہؓ اور حضرت سیرینؓ جیسی لونڈیاں بھی مدینہ بھجوائیں۔ حضرت ماریہؓ کے بطن سے ہی آنحضورﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیمؓ پیدا ہوئے تھے۔ حضرت سیرینؓ کو آنحضورﷺ نے اپنے صحابی اور شاعرِ اسلام حضرت حسان بن ثابتؓ کو عنایت کر دیا۔ وہ ان کی ملکِ یمین اور بعض روایات کے مطابق ان کی اہلیہ تھیں۔ مشہور سفید خچر دُلْدُلْ‘ جس پر آنحضورﷺ سواری کرتے رہے، مقوقس ہی کا ہدیہ کردہ تھا۔ جنگ ہوازن میں آپﷺ اس پر سوار تھے۔ مقوقس نے بہت سے قیمتی پارچہ جات بھی آپﷺ کی خدمت میں بھیجے۔
حضرت ماریہؓ کے بہت سے مناقب بیان کیے گئے ہیں۔ ایک مرتبہ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا:میری دادی حضرت ہاجرہ بھی قبطیہ تھیں اور میرے پیارے بیٹے ابراہیم کی والدہ ماریہ بھی قبطیہ ہیں۔ حضرت ابراہیمؓ بھی بچپن ہی میں وفات پاگئے۔ اس موقع پر آنحضورﷺ اور حضرت ماریہؓ دونوں بے اختیار رونے لگے مگر آپﷺ نے صبرِ جمیل کا مظاہرہ کیا اور حضرت ماریہؓ کو بھی انتہائی پیار اور شفقت سے صبر کی تلقین فرمائی۔ ایک مرتبہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ قبطیوں کے ساتھ اہلِ ایمان کو حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ ان سے ہمارا معاہدے کا تعلق بھی ہے اور حضرت ہاجرہؓ اور حضرت ماریہؓ کی نسبت سے نسبی و خونی تعلق بھی ہے۔ مقوقس آنحضورﷺ سے صلح کا معاہدہ کرنے کے بعد زندگی بھر اس پر قائم رہا۔
نبی اکرمﷺنے شام کے حکمران شرحبیل بن عمرو غسانی کے نام بھی خط لکھا۔ خط لے کر جانے والے صحابی حضرت حارثؓ بن عمیرازدی تھے۔ انہوں نے مکتوبِ گرامی موتہ کے مقام پر اس حکمران کو پہنچایا۔ تمام حکمرانوں میں سے سب سے بدترین رد عمل اسی نے ظاہر کیا۔ اس بدبخت نے صحابی رسول کو گرفتار کرکے باندھ دیا، پھر انہیں نہایت سنگدلی سے شہید کرا دیا۔ صحابی رسول نے فرض ادا کیا اور جان کا نذرانہ پیش کرکے سرخ رو ہوگئے مگر اس ظالمانہ شاہی فیصلے کے نتیجے میں مدینہ کی اسلامی ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا ہوگیا۔ ہر مسلمان کی جان محترم ومکرم ہے اور حدیثِ رسول میں اس کی حرمت خانہ کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ بیان کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک دن بیت اللہ شریف میں خانہ کعبہ کی طرف نظر اٹھائی اور فرمایا: اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اے کعبہ! تو کس قدر پاکیزہ ہے، تیری خوش بو کتنی پاکیزہ ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے مگر مومن کی حرمت تیری حرمت سے بھی کہیں عظیم تر ہے۔ اللہ جل جلالہ نے تجھے حرمت بخشی ہے تو اسی نے مومن کے مال، جان اور عزت کو بھی حرمت سے نوازا ہے اور اس نے مومن کے بارے میں بدگمانی سے منع فرمایا ہے۔
اسلام نے انسانیت کو امن کا پیغام دیا، تہذیب و ثقافت سکھائی اور غیر مہذب، اجڈ اور وحشی معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بنا دیا۔ اسلام کے خلاف جس قدر زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور اسے دہشت گردی سے منسلک کرنے کی جتنی بھی ناپاک جسارتیں تاریخ کے مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہیں، ان کی حیثیت جھوٹ کے طومار کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام میں کبھی کسی کا ناحق خون گرانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ خاص طور پر سفیر اور قاصد کی زندگی تو دنیا کے ہر قانون اور ہر قوم کی روایات میں ہمیشہ محفوظ قرار دی گئی ہے۔ بدبخت غسانی حکمران کی اس ظالمانہ کارروائی کی اطلاع مدینہ میں پہنچی تو آنحضورﷺ اور تمام صحابہ کرامؓ بہت غمزدہ ہوئے۔ آنحضورﷺ نے فی الفور یہ فیصلہ کیا کہ اس ظلم کا بدلہ اور بے گناہ صحابی کے خون کا قصاص لینا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آپﷺ نے تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تین ہزار صحابہ پر مشتمل ایک لشکر موتہ کی طرف روانہ فرمایا جس کی سربراہی کے لیے آپﷺ نے تین صحابہ کرامؓ کو نامزد کیا۔ یہ تھے حضرت زیدؓ بن حارثہ، حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور حضرت عبداللہؓ بن رواحہ۔ موتہ کی جنگ میں تین ہزار صحابہ نے ایک لاکھ سے زائد رومی و شامی فوجوں کو شکست دی۔ اس جنگ میں تینوں سپہ سالار یکے بعد دیگرے جامِ شہادت نوش کر گئے۔ ان تینوں کی شہادت پر لشکر کی قیادت حضرت خالدؓ بن ولید نے سنبھال لی۔ آپؓ نے بڑی حکمت اور بہادری کے ساتھ دشمن کی فوج کو بے بس کر دیا۔ اسی جنگ کے موقع پر حضور نبی کریمﷺ کی طرف سے حضرت خالدؓ کو سیف اللہ کا خطاب دیا گیا۔ سفیر نبوی کے خون کا بدلہ لینے کے لیے حضور نبی اکرمﷺ نے زندگی کے آخری دنوں میں لشکرِ اسامہؓ کو بھی شام کی طرف روانہ فرمایا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved