پاکستانی بیوروکریسی اور پولیس کا زوال دیکھنا ہو تو وزیراعظم عمران خان کے عوام کے ساتھ لائیو کالز سیشن میں کوئٹہ سے خاتون عائشہ مظہر کی فون کال کافی ہے۔ کال کے بارہ گھنٹوں کے اندر خاتون کا مسئلہ حل کرنے کیلئے جو پھرتیاں پنجاب پولیس نے دکھائیں وہ بھی اپنی جگہ عظیم کارنامہ ہے۔
یہ طے ہے کہ جب تک مظلوم کے حق میں سفارش یا حکم بادشاہ سلامت نہیں کریں گے اسے انصاف نہیں مل سکتا۔ یہ جہانگیری طریقۂ انصاف ہم درسی کتب میں پڑھتے آئے ہیں کہ فریادی جب تک محل کے باہر لٹکی زنجیر سے لٹک کر زور سے دہائیاں نہیں دیتا تھا اس کا کام نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سلامت فوراً پہریداروں کو حکم دیتے کہ محل کے باہر زنجیر سے لٹکے شخص کو ان کے حضور پیش کیا جائے۔ فریادی بادشاہ کے پائوں میں گر پڑتا‘ پوری رعایا اس بات پر خوش ہوجاتی کہ بادشاہ سلامت اُس وقت تک سوئے نہیں جب تک فریادی کو انصاف نہ مل گیا۔ اسی لیے ہماری نفسیات میں راسخ ہو چکا کہ انصاف لینا ہے تو سفارش کرانی پڑے گی یا بادشاہ کے محل کے باہر زنجیر کے ساتھ لٹک کر دہائیاں دینا ہوں گی تاکہ شور سن کر بادشاہ اور اس کا انصاف‘ دونوں جاگ جائیں۔
خان صاحب اس نعرے پر بائیس سال تک قوم کے دلوں کو گرماتے رہے کہ وہ ''بادشاہ‘‘ بن گئے تو کسی کو ''محل‘‘ کے باہر دہائیاں نہیں دینا پڑیں گی‘ نہ ہی زنجیر سے لٹک کر فریادیں کرنا ہوں گی۔ وہ پولیس اور بیوروکریٹک ریفارمز لائیں گے‘ انصاف گھر کی دہلیز پر ملے گا۔ پولیس افسران اور بیوروکریٹس میرٹ پر لگیں گے اور لوگ ایک بدلہ ہوا معاشرہ پائیں گے۔ جس طرح بیوروکریسی اور پولیس کو نواز شریف اور شہباز شریف نے گھر کی لونڈی بنا کر حکومت کی اور اکثر بیوروکریٹس ان کے گھریلو ملازم لگ گئے اس سے نہ صرف بیوروکریسی اپنی عزت کھو بیٹھی بلکہ عوام کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا۔ عوام کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر کوئی کام کرانا ہے تو اس کی جیب میں ایم این اے‘ ایم پی اے یا کسی وزیر کی پرچی ہونی چاہئے۔ عوام کا یقین اس بات سے ختم کردیا گیا کہ وہ کسی سرکاری افسر سے بغیر سفارش کے مل کر اپنا جائز کام بھی کراسکتے ہیں۔ بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے مل کر ایسا معاشرہ تخلیق کیا جس میں ان طاقتور طبقات نے عوام کو غلام بنا لیا۔ اب ہر بندہ خود کو مشکل میں پا کربراہ راست تھانے کا رخ کرنے کے بجائے علاقے کے ایم پی اے یا ایم این اے کے ڈیرے کا رخ کرتا ہے۔ وہاں سے تھانیدار کو فون ہوگا تو ہی وہ تھانے جاسکتا ہے۔ ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر عوام کے خادم بننے کے بجائے سیاستدانوں کے ووٹ کھرے کرنے میں ساتھی بن گئے۔ کسی استاد یا استانی کی ٹرانسفر‘ پوسٹنگ تک سیاستدانوں کی سفارش یا دبائو پر ہونے لگی۔ مخالفوں کی خواتین کے خلاف تھانے کچہری سے لیکر تبادلوں تک سب کچھ سیاستدانوں کے ہاتھ آگیا۔ پہلے بیوروکریسی کو اپنے ساتھ ملایا‘ پوسٹنگ کیلئے کسی بھی حد تک جانے والے بابوز ڈھونڈے اور پھر عوام کو ذلیل کیا۔ اپنے ڈیرے آباد کرکے اسی بیوروکریسی سے عوام کے کام کرانے شروع کر دیے۔ اب یہ ممکن نہیں رہاکہ جب تک آپ کے پاس تگڑی سفارش نہ ہو آپ کوئی جائز کام بھی کرا سکتے ہیں۔
کوئٹہ کی عائشہ مظہر اور ان کی بیوہ ماں کی مثال ہم سب پر فِٹ آتی ہے۔ وہ پولیس جو تھانوں میں عائشہ اور ان کی ماں کو گالیاں دیتی تھی‘ وزیر اعظم سے ان کی فون کال ملنے کے بعد انہیں پروٹوکول دے رہی تھی۔ جس کام کیلئے وہ دو سال لاہور کے پولیس دفاتر میں دربدر پھرتی رہیں‘ ایک فون کال سے سب کچھ درست ہوگیا۔ کسی نے پنجاب کے چیف سیکرٹری‘ آئی جی پولیس یا سی سی پی او لاہور اور دیگر افسران سے پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ وہ عورت دو سال دھکے کھاتی رہی اسے انصاف کیوں نہ ملا؟ اس عورت کو گھر خالی کراکر بھی عمر شیخ نے دیا مگر ان کے تبادلے کے بعد کرایہ دار‘ جو ایس ایس پی رینک کے ایک آفیسر کا بھائی تھا‘ نے اس خاندان کو ذلیل کر کے رکھ دیا۔ اب اچانک پنجاب پولیس کو یاد آ گیا کہ انہوں نے فوری انصاف کرنا ہے کیونکہ فریادی بادشاہ کے محل کے باہر لٹکی زنجیر کے ساتھ لٹک گیا تھا۔ اس خاتون کو ڈھونڈ نکالا گیا اور اس کے ہاتھ پر چیک رکھ دیا گیا۔
کیا اب ہر مظلوم خاتون یا خاندان کو ظالم سے نجات یا انصاف اسی وقت ملے گا جب اس کی فون کال وزیراعظم سے ملے گی؟ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کس مرض کی دوا ہیں؟ اگر سب کام وزیر اعظم کے ساتھ فون کال پر ہونے ہیں تو پھر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر بیٹھے افسران اور ان کے اللے تللے برداشت کرنے کی اس قوم کو کیا ضرورت ہے؟ یہ واضح ہے کہ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے بیوروکریسی اپنا بدترین زوال دیکھ رہی ہے۔ بیوروکریسی میں سے وہ کلاس ختم ہو چکی ہے جس کی اپنی شان تھی‘ کچھ عزت تھی‘ یا جن کو مل کر لگتا تھاکہ وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں ۔ اب تو ذہن کی وسعت بڑھانے کے بجائے جیبوں کا سائز بڑا کیا جارہا ہے۔ پنجاب میں بیوروکریسی کا بد ترین دور چل رہا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں رہا کہ بڑے بڑے عہدے اب بکنا شروع ہوگئے ہیں۔ نقدی پر کام چل رہا ہے۔ عہدوں کیلئے بولیاں لگ رہی ہیں۔ بیوروکریٹس خود بتاتے ہیں کہ فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر‘ اسسٹنٹ کمشنر یا تحصیل دار لگنے کا یہ ریٹ ہے۔ جو بولی بھردے وہ پوسٹنگ آرڈر لے جائے۔ خود بھی کمائے اور جنہوں نے پوسٹنگ آرڈر کرائے ہیں انکی جیبیں بھی گرم رکھے۔ ایک صاحب مبینہ طور پراینٹی کرپشن پنجاب کے ایک سنگین مقدمے میں نامزد تھے۔ جیل میں بھی رہے مگر اب رہا ہوکر پنجاب کے اہم ترین ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔ وہی ضلع جہاں رنگ روڈ سکینڈل بزدار حکومت کے ماتھے کا جھومر بن کر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو ان باتوں کا علم نہیں۔ عوام یہ غلط فہمی بھی دور کر لیں۔ خان صاحب کو سب پتہ ہے‘ ان کے قریبی لوگ اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ بزدار حکومت میں جاری اس مار دھاڑ اور پیسے لے کر پوسٹنگ کلچر کا انہیں سب علم ہے۔ انہیں کئی ثبوت بھی پیش کئے گئے ہیں۔ اگر خان صاحب پنجاب میں گڈ گورننس چاہتے تو وہ چیف سیکرٹری اعظم سلیمان جیسے افسر کو تین ماہ بعد نہ بدل دیتے‘ عمر شیخ جیسے افسران کو برداشت کرتے جنہوں نے لاہور میں پولیس اورقبضہ گروپس کو نتھ ڈال دی تھی۔ ان کو ہٹانے کے پیچھے بھی وہی لوگ تھے جن کا ڈھائی ارب روپے کی زمین پر قبضہ تھا۔ شیخ صاحب نے ان بڑے لوگوں کے فرنٹ مین کے خلاف پرچہ دے دیا تو انہوں نے کسی کو چھ کروڑ روپے دے کر انہیں فارغ ہی کرا دیا۔ آج کل انہی شیخ صاحب کو جبری ریٹائر کرنے کیلئے اسلام آباد میں پولیس اور ڈی ایم جی افسران اکٹھے ہوگئے ہیں کہ یہ کون سرپھرا عوام کو انصاف دینے کے کام پر لگ گیا ہے۔ اندازہ کریں جس افسر کی تعریفیں کوئٹہ سے فون کال پر بے بس اور لاچار خاتون وزیراعظم کے سامنے کررہی تھی کہ اس نے پندرہ دنوں میں اس کا گھر پولیس افسر کے بھائی کے قبضے سے چھڑایا اُسے ہی جبری ریٹائر کیا جارہا ہے۔ ایسے سرپھرے افسران کسی کو سوٹ نہیں کرتے‘ جو اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف عوام کا ساتھ دیں۔
بہرحال یہ طے ہے کہ حکمرانوں‘ سیاستدانوں‘ پولیس اور بیوروکریسی کا unholy alliance پاکستانی عوام کو اس حالت میں لے آیا ہے کہ جب تک وہ بادشاہ سلامت کے محل کے باہر لٹکی زنجیر سے لٹک کر دہائیاں نہیں دیں گے‘ بادشاہ سلامت کی نیند خراب نہ کریں گے‘ انہیں انصاف نہیں ملے گا۔ امید ہے ہمارے بادشاہ محل کے باہر لٹکتی زنجیروں کی تعداد بڑھا دیں گے تاکہ رعایا کے زیادہ لوگ ان زنجیروں کے ساتھ لٹک سکیں‘ عدلِ جہانگیری کی صدیوں پرانی رسم چلتی رہے اور رعایا نعرے مارتی رہے کہ شہنشاہ نے کیا انصاف کیا ہے‘ ظلِ سبحانی کا اقبال بلند ہو۔