تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     02-06-2021

یہ احتساب ہے؟

عامر کیانی صاحب تحریک انصاف کے عہدیدار ہیں۔ وہ دوہزار اٹھارہ کا الیکشن جیتے اور عمران خان کی کابینہ میں وزیرصحت بنے۔ اس حکومت کو آتے ہی جن عملی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے ایک دوائیوں کے متعلق تھا۔ دواسازکمپنیوں کا موقف تھا کہ طویل عرصے سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ادویات جو بہ آسانی پاکستان میں بن سکتی ہیں، نہیں بن رہیں کیونکہ ان کی مقررہ قیمت لاگت سے بھی کم ہے۔ اصولی طور پر دواساز کمپنیوں کی طرف سے دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ ٹھیک تھا۔ اس کا یہ فائدہ بھی تھا کہ جو دوائیں ہم بیرون ملک سے ڈالروں کی عوض منگوا رہے تھے وہ پاکستان میں ہی تیار ہونے لگتیں اور روپے کے بدلے خریدی جا سکتیں۔ عامر کیانی نے بطور وزیر گفت و شنید کے بعد دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی۔ اب یہ بحث توہو سکتی ہے کہ قیمتوں میں کتنا اضافہ ہونا چاہیے تھا، لیکن اضافہ بہرحال ضروری تھا۔ یکایک ہونے والے اضافے سے شور تو ہونا ہی تھا اور ہوا بھی۔ کچھ لوگوں نے دبے لفظوں میں آواز اٹھائی کہ وزیرصحت نے دواسازوں کو قیمتیں بڑھانے کی اجازت دینے کیلئے کچھ لین دین کیا ہے۔ یہ الزام وزیراعظم تک پہنچا اورایک دن خبر آئی کہ عامر کیانی کابینہ سے نکال دیے گئے ہیں۔ کچھ دن تفتیش، تفتیش پکارا جاتا رہا اور پھر خاموشی ہوگئی۔ وزارت سے نکال دیا جانا کسی بھی سیاستدان کے لیے سخت ترین سزا ہے۔ صرف الزام پر سزا ملی اور آج تک کوئی نہیں جانتا کہ حقیقت کیا تھی۔ عامر کیانی بدستور تحریک انصاف کے عہدیدار ہیں، لیکن ان کے دامن پر جو داغ ان کی اپنی جماعت اور لیڈر نے لگایا‘ وہ اب تک نہیں دھل سکا۔
جہانگیر ترین پرلگنے والے الزامات تو دوستی اور سیاست کی تاریخ میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ان کا معاملہ یہ تھاکہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے چینی پر سبسڈی کی منظوری دی۔ وفاقی کابینہ نے توثیق کی اورپنجاب کابینہ نے ادائیگی کی۔ اچانک ان تینوں سرکاری منظوریوں پرسوال اٹھے۔ جواب آنے سے پہلے ہی جہانگیرترین نکال دیے گئے۔ پھر ان پرانہی الزامات کی بنیاد پرمقدمہ بنا دیا گیا جن کا دفاع خود عمران خان صاحب وزیراعظم بننے سے پہلے میڈیا پر کیا کرتے تھے۔ جہانگیر ترین پرالزامات کا انجام کچھ بھی ہو لیکن یہ طے ہوگیا کہ تحریک انصاف کی اندرونی سیاست نے کابینہ کی معاشی کمیٹی، کابینہ اور صوبائی کابینہ جیسے اعلیٰ ترین انتظامی اداروں کو بھی متنازع بنا دیا۔ اب کوئی بھی ان اداروں کے فیصلوں کو سنجیدگی سے نہیں لے گاکہ کل کو یہ بدل سکتے ہیں اور ان فیصلوں کی بنیاد پر لوگوں کو پکڑا بھی جاسکتا ہے۔ جہانگیر ترین اب تحریک انصاف میں ایک نئی تحریک انصاف کی بنیاد رکھ چکے ہیں اور حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے ہاتھوں مجبور ہوتی چلی جارہی ہے۔ اب یہ بات بھی کھل رہی ہے کہ ان پر لگے الزامات دراصل قانونی نہیں محض سیاسی ہیں اور ان کا انجام بھی کچھ نہیں ہونے والا۔
افتخار درانی کا نام بھی کسی کو نہیں بھولا۔ وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم کا اہم ترین حصہ تھے۔ ان کا شمار جہانگیر ترین کے مخالف گروپ میں ہوا کرتا تھا۔ جب پاناما کیس شروع ہوا تو نواز شریف کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے پارٹی یکجان ہوگئی اور افتخاردرانی نے جہانگیرترین کی ٹیم کے ساتھ مل کرایک ایک کاغذ جوڑ کے اس مقدمے کی شکل بنانا شروع کردی۔ پھرنعیم بخاری اس ٹیم کے ساتھ ملے تو یہ مقدمہ دوڑنے لگا اور اس کا نتیجہ نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں نکلا۔ افتخاردرانی بھی پہلے معاون خصوصی بنائے گئے، پھر انہیں فاٹا الیکشن کے لیے بھیجا گیا، نظر انداز کیا گیا اور آخر میں خاموشی سے الگ کردیا گیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ برسر اقتدار تحریک انصاف کو اس کا منشور یاد دلاتے رہتے تھے۔ یہ بات وزیراعظم بن جانے کے بعد خان صاحب کو بھی اچھی نہیں لگتی تھی، لہٰذا ان کا نکل جانا ضروری ہوگیا تھا البتہ یہ مہربانی ہوئی کہ بدعنوانی یا رشوت کا کوئی الزام ان پر نہیں لگا۔ لگتا بھی تو مانتا کون؟
اجمل خان وزیر کو خان صاحب اپنی پارٹی میں لانے کے لیے دوہزار تیرہ سے کوشش کررہے تھے۔ آخردوہزار اٹھارہ کے الیکشن سے کچھ پہلے یہ پارٹی میں شامل کیے گئے اور الیکشن کے بعد پہلے خیبرپختونخوا میں ضم شدہ قبائلی علاقوں کیلئے مشیر بنے اور پھر حکومت کی ترجمانی بھی ان کے سپرد کردی گئی۔ ان کو حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے ہم صحافیوں نے دیکھا ہے کہ کتنی محنت سے سبھی کے ساتھ رابطے کیا کرتے تھے اور سابق فاٹا میں کئی پیچیدہ معاملات کو انہوں نے کتنی خوش اسلوبی سے حل کیا تھا۔ ان پر الزام لگاکہ انہوں نے سرکاری اشتہارات کے لیے کسی سے رشوت طلب کی ہے۔ ثبوت کے طور پران کی ریکارڈ شدہ آواز پیش کی گئی۔ تفتیش ہوئی تو پتا چلا کہ ریکارڈنگ دراصل ایک ایسی مجلس کی ہے جہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے اور وہاں ان کے ادا کردہ جملے کاٹ کاٹ کراس انداز میں جوڑے گئے ہیں جن سے بدعنوانی کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ جس کمپنی سے رشوت لینے کا الزام تھا اس نے جب صوبائی حکومت کو قانونی نوٹس دیاکہ اس کے پیسے دیے جائیں تو حکومت نے تسلیم کرلیا کہ آپ اپنے پیسے وصول کرسکتے ہیں۔ گویا، سرکاری طور پرمان لیا گیا کہ کسی نے رشوت لی نہ دی۔ پھر سرکاری انکوائری کمیٹی نے بھی لکھ کردیا کہ رشوت کا الزام جھوٹ ہے۔ اجمل وزیر اب بھی کسی عہدے کے بغیر تحریک انصاف میں ہیں اوراپنی جماعت سے انصاف کی توقع میں گھر بیٹھے ہیں۔
علیم خان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اکتوبر دوہزار گیارہ کے جلسے کا انتظام کرنے والے تھے۔ لاہور میں انہوں نے اس وقت مسلم لیگ (ن) کے خلاف صف آرائی کی جب اس کے اقتدار کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ پھر دوہزار چودہ کے دھرنے کے دوران جو کچھ انہوں نے کیا وہ پارٹی کا ہرشخص اچھی طرح جانتا ہے۔ ان پر سیاسی الزام یہ تھاکہ وسطی پنجاب میں وہ بہتر امیدوار نہیں تلاش کرسکے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کوصوبے کے اس حصے میں پذیرائی نہیں مل سکی۔ جب انہیں وزیربنایا گیا تو ساتھ ہی انہیں نیب کے سپرد کردیا گیا جہاں انہوں نے قید کاٹی، رہائی پائی اور دوبارہ صوبائی وزیر بنا دیے گئے۔ اب وہ خاموشی سے اپنے زخم سیتے اور سرکارکیلئے گندم خرید خرید کر جمع کرتے رہتے ہیں۔
زلفی بخاری صاحب کے ساتھ تو ابھی تازہ واردات ہوئی ہے۔ انہیں اس جرم کی سزا ملی ہے کہ انہوں نے اپنے ایک عزیزکو وزیراعظم کے دفتر میں بیٹھے ایک شخص کے شر سے کیوں بچایا۔ اس شخص نے ان کے خلاف دل میں کدورت پال لی اور سازش کا آغاز ہوگیا۔ ان پرتازہ الزام یہ ہے کہ ان کے ننھیال کے پاس کئی صدیوں سے ایک ایسی زمین موجود ہے جس کے کچھ حصے پر راولپنڈی رنگ روڈ تعمیر ہونا تھا۔ یہ وہی زلفی بخاری ہیں جن کے لیے خان صاحب نے اس وقت نیب کو سفارش کی تھی جب وہ وزیراعظم نہیں تھے البتہ ان کی سفارش مان لی جاتی تھی۔ ان پر موجودہ الزام دراصل ایک ایسی انکوائری کا شاخسانہ ہے جو متعین اہداف کے ساتھ لکھی گئی۔ جو کچھ لکھا گیا وہ اتنا غلط تھا کہ انکوائری رپورٹ لکھنے والے کے ماتحت افسروں نے عقوبت گوارا کرلی مگر اس پر دستخط نہیں کیے۔ بہرحال اب زلفی بخاری بھی کمین گاہ میں بیٹھے دوستوں کا شکوہ کرتے ہوئے حکومت سے باہر ہوچکے ہیں۔
تحریک انصاف خود کو پاکستان میں احتساب کا نقیب کہتی ہے۔ بہت خوب، اچھی بات ہے کہ احتساب ہولیکن احتساب اگر سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا حربہ ہوجائے یا پارٹی میں باہمی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے منہ پر کالک ملنے کی آزمودہ ترکیب قرار پائے تو پھر یہ احتساب نہیں محض ایک مذاق ہے۔ ایک ایسا مذاق جس میں اپنوں کی پگڑیاں ہی اچھل رہی ہیں۔ اچھی بات ہے نالائقی کا خمیازہ صرف لوگ کیوں بھگتیں کچھ انہیں بھی تو پتا چلے جو تبدیلی کے لیے اپنا جگر خون کیا کرتے تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved