سلطان علائوالدین خلجی سے منسوب کہاوت ''Kingship knows no Kinship‘‘ ہر دور میں حسبِ حال محسوس ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں کل کے حریف آج کے حلیف اور کل کے حلیف آج کے حریف بنتے چلے آئے ہیں۔ ایک دوسرے کی حمایت کرنے والے کوئے اقتدار میں آکر اختلافِ رائے سے لے کر محاذ آرائی تک سبھی کچھ کرگزرتے ہیں۔ اقتدار کے کھیل میں خوب نا خوب اور نا خوب خوب ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ اصولی نظریات نظریۂ ضرورت کی بھینٹ چڑھتے دیر لگتی ہے نہ ہی اپنے پرائے اور پرائے اپنے ہونے میں۔ یہ سبھی کچھ کر گزرنے کے لیے کبھی میثاقِ جمہوریت کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے تو کبھی جمہوریت بہترین انتقام کا ڈھکوسلا اپنایا جاتا ہے۔ کیسا کیسا آئٹم روز اول سے لمحہ موجود تک نفسیات اور اعصاب پر کیسے تباہ کن اثرات کا باعث بنا ہوا ہے۔ ہوسِ اقتدار ہر جذبے کو کھا جاتی ہے‘ عہد و پیماں سے لے کر دعووں اور وعدوں تک‘ فرائض منصبی سے لے کر غیرتِ قومی سمیت نجانے کیا کچھ اس کی نذر ہوتا چلا آیا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے قتل سے پہلے جن پر تحریری طور پر تحفظات کا اظہار کیا تھا مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری صاحب نے حصولِ اقتدار کے لیے ان میں سے ایک کردار کو گارڈ آف آنر پیش کر کے قصرِ اقتدار سے رخصت کیا اور دوسرے کردار کو طول اقتدار کی غرض سے حلیف بنا کر شریکِ اقتدار کر لیا‘ یو ں بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ مزید گمبھیر ہو گیا۔ یہ معمہ تاحال حل طلب ہے۔ کیا یہ جمہوریت بے نظیر کے قتل کا بہترین انتقام تھی؟ برادرِ محترم حسن نثار نے 24 برس پہلے اپنے ایک کالم میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب ''بی بی‘‘ اور ''بابو‘‘ ایک ہی ٹرک پر سوار ہو کر جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرتے نظر آئیں گے۔ یہ کالم انہوں نے اس وقت لکھا تھا جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اپنی پارٹیوں سمیت ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار تھے اور ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک سے کم خطرہ قرار دینے کو تیار نہ تھے۔ سیاسی اختلافات اور تعصبات کا عالم یہ تھا کہ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کو غدار کہنے سے لے کر جھوٹے سچے مقدمات کے گڑھے میں دھکیلنے تک سبھی کچھ کر لیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب اس کالم میں دونوں سیاسی بڑوں کے گٹھ جوڑ کی پیش گوئی کی گئی تو بڑے بڑے دانشوروں‘ تجزیہ کاروں اور سیاسی پنڈتوں نے اسے نا ممکن اور انہونی قرار دیا تھا۔ بعض نے تو یہ بھی کہنے سے دریغ نہ کیا کہ کالم نگار کا دماغ چل گیا ہے‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیں‘ جبکہ اُس دور میں دو پارٹی نظام چل رہا تھا۔ ایک پارٹی برسرِ اقتدار آکر اپوزیشن کو crush کرتی تو اپوزیشن کی کوشش ہوتی کہ برسرِ اقتدار پارٹی اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔ موقع ملتے ہی ایک دوسرے پر برتری کے لیے ہر جائز‘ ناجائز حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا تھا‘ حتیٰ کہ دونوں پارٹیوں کے قائدین سمیت صف اول کے رہنماؤں کو قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
اس دور میں یہ بات لکھنا اور کہنا (معذرت کے ساتھ) دیوانگی سے کم نہ تھا‘ لیکن پھر چشم فلک نے دس سال بعد یہ بھی دیکھا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ہی 'جان بچی سو لاکھوں پائے‘ کے مصداق جلا وطنی کے دورے پر تھے اور اقتدار سے محرومی اور ہجر کے ایام گن گن کے گزار رہے تھے۔ اقتدار کی تڑپ نے دونوں پارٹیوں کو مجبور اور آمادہ کیا کہ ان کی باہمی لڑائی اور اختلافات تیسری پارٹی کے لیے غنیمت اور باعثِ راحت ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ہی پارٹیوں کا ایک ایک دھڑا پرویز مشرف کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر اقتدار کے مزے لوٹ رہا تھا۔ دونوں سیاسی رہنماؤں کو یہ کیسے گوارا تھا کہ ان کی بی ٹیم پاکستان میں حکمران ہو اور وہ خود جلا وطنی پر مجبور ہوں۔ پھر وطن واپسی کے لیے حیلے بہانے‘ منتیں ترلے اور سمجھوتے‘بالآخر میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک سیاسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جمہوریت کی بحالی اور آمریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ایک ہو گئے۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جان کو لاحق خطرے کے حوالے سے جن شخصیات پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا ان سے تو زرداری صاحب نے مفاہمت کر لی تھی اس مفاہمت نے ایک طرح سے بے نظیر بھٹو صاحبہ کی لازوال قربانی کو ملی بھگت کی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ پانچ سال بلا شرکت غیرے اقتدار کے دوران سیاسی رواداری اور مفاہمت کے نام پر ایک نیا کلچر متعارف کروایا گیا‘ سر نگوں‘ سر بلند‘ بلے بلے‘چل سو چل۔ حکمران کی مفاہمت کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے‘ لوٹو اور لوٹنے دو‘ اس کے بعد خود بھی بھاگو‘اور مجھے بھی بھاگنے دو‘ بس یہی ایک مفاہمتی فارمولا ہے جو زرداری صاحب نے نہ صرف خود پر لاگو کیا بلکہ اپنے سیاسی حریفوں کو بھی اس کا فائدہ پہنچایا تاکہ بہتی گنگا میں سبھی یکساں ہاتھ دھو سکیں۔ اس مفاہمتی فارمولے پر کافی فخر کیا جاتا ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا‘ تاہم ضمیر کے قیدیوں کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔
آج کل پھر دو بڑی اپوزیشن جماعتیں آپس میں صف آرا دکھائی دیتی ہیں جبکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کو اپوزیشن کا سامنا ہے۔پی ڈی ایم کی کشتی میں وہ سوراخ کر ڈالا گیا کہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ پانی کشتی میں ہے یا کشتی پانی میں جبکہ ملک بھر میں ایک اور موضوع ٹاپ ٹرینڈ بنتا چلا جا رہا ہے کہ شہباز شریف کا اس سیاسی منظر نامے میں کیاکردارہوگا؟شیخ رشید تو روزِ اول سے ہی کہے چلے جا رہے ہیں کہ شہباز شریف کی گوٹی فٹ ہے۔گوٹی فٹ ہونے کے اشارے تو مسلسل ملتے چلے آ رہے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز کے موجودہ بیانیے کی موجودگی میں شہباز شریف کی یہ گوٹی مزید کتنا عرصہ فٹ رہ سکتی ہے؟ دور کی کوڑی لانے والوں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف جلد یا بدیر نواز شریف سے ملاقات کے لیے جائیں گے اور انہیں مفاہمت کی سیاست پر قائل کرنے کے علاوہ ان کے بیانیے کی گرمی کو بھی ٹھنڈا کریں گے تب کہیں جاکر شہباز شریف کی گوٹی فٹ رہ سکے گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کے پاس دینے کو کیا ہے؟ کیا وہ نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیوں کا بیعانہ اٹھاچکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا مریم نواز اپنے چچا کی گوٹی فٹ کرانے کے لیے اپنے بیانیوں سے دستبردار ہو سکیں گی؟ ایک اور سوال انتہائی اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ اگر مریم نواز اپنے موجودہ بیانیوں سے دستبردار ہو کر مفاہمت پر آمادہ ہوتی ہیں تو بینیفشری کون ہوگا؟خود مریم نواز یا شہباز شریف؟ یہ کیونکر ممکن ہو گا کہ بیانیوں پر نظرثانی اور سمجھوتا تو مریم نواز کریں اور گوٹی فٹ رہے شہباز شریف کی؟دور کی کوڑی لانے والے ہوں یا سیاسی منظر نامے کے کردار‘ اکثر کا یہی کہنا ہے کہ شہباز شریف زیر احتساب ہونے کے باوجود کمفرٹ زون میں ہی رہے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے ان بیانیوں کی قیمت وصول کرچکے ہیں جو انہوں نے بوجوہ جاری نہیں کئے‘ تاہم اب وصولی کی باری مریم نواز کی ہے اور انہوں نے براہ راست کچھ طلب کر لیا تو ایسے میں شہباز شریف کے ساتھ ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔