روز سکینڈلز آئیں گے تو روٹی مہنگی ہی ہوگی: شہباز شریف
نواز لیگ کے صدر، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کے روز سکینڈلز آئیں گے تو روٹی مہنگی ہی ہوگی‘‘ جبکہ ہمارے خلاف جو سکینڈلز آتے تھے‘ وہ ہر روز نہیں بلکہ ایک دن چھوڑ کر آتے تھے، اس لیے روٹی مہنگی نہیں ہوتی تھی، اگرچہ پکی پکائی روٹی اور دو روپے کی روٹی والا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا تھا لیکن اس میں بھی ہم نے دوسرے ہر منصوبے کی طرح اربوں روپے کی بچت کی تھی اور اس بچت کی برکت کی وجہ سے ہمارے اثاثوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اور انہیں سکینڈل قرار دینا لفظ سکینڈل کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ وہ محض الزامات ہوا کرتے تھے جنہیں ختم کرنے کے لیے ان پر کارروائی بھی شروع ہو جاتی تھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں معمول کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
کچھ ایسی باتیں معلوم ہیں جو فی الحال
میڈیا کو نہیں بتا سکتا: جہانگیر ترین
تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ ''کچھ باتیں ایسی معلوم ہیں جو فی الحال میڈیا کو نہیں بتا سکتا‘‘ اور جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت اگر ہمارے ساتھ انصاف نہیں کرتی جو ہمیں مطلوب ہے تو مجبوراً وہ باتیں بتانی پڑیں گی اس لیے حکومت کو چاہیے کہ عقل کے ناخن لے‘ جو ہمارے پاس کافی مقدار میں موجود ہیں اور معمولی معاوضے پر حکومت کو فراہم کیے جا سکتے ہیں اور جو ہماری انگلیوں پر خود ہی اُگ آئے ہیں اور ان کی مناسب تراش خراش بھی کی گئی ہے جس سے وہ کافی خوشنما ہو گئے ہیں اور اس امید پر انہیں اکھاڑا نہیں ہیں کہ مطالبے پر حکومت کو سپلائی کیے جا سکیں۔ آپ اگلے روز عدالت سے باہر لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
پاکستان میں طویل المدتی منصوبہ بندی
صرف نواز لیگ نے کی: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''پاکستان میں طویل المدتی منصوبہ بندی صرف نواز لیگ نے کی‘‘ کیونکہ ان میں خدمت کا سلسلہ بھی اتنا ہی طویل ہوتا تھا بلکہ بعض منصوبے ایسے بھی تھے جو مسلسل پایہ تکمیل تک پہنچنے کی کوشش میں رہے جن میں وہ سڑکیں بھی شامل ہیں جو آگے سے بنتی اور پیچھے سے اکھڑتی جاتی تھیں اور اس طرح ٹھیکوں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا تھا اور یہ ان طویل المدتی منصوبوں ہی کی برکت تھی جو ہر طرف خدمت کے ڈھیر لگے نظر آتے تھے بلکہ احتساب والوں کو کچھ زیادہ ہی نظر آتے تھے کیونکہ ان کی بینائی ذرا زیادہ تیز ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں وزیراعظم کی تقریر اپنا ردِ عمل ظاہر کر رہے تھے۔
وزیراعظم نے جو وعدے کیے وہ پورے ہو رہے : فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے جو وعدے کیے وہ پورے ہو رہے ہیں‘‘ یعنی حکومت انہیں پورا نہیں کر رہی بلکہ وہ اپنے آپ ہی پورے ہو رہے ہیں کیونکہ وعدہ کرنا اور اسے پورا کرنا دو مختلف کام ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک ہی کام کیا جا سکتا ہے بلکہ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ حکومت کے سارے کام بھی اپنے آپ ہو رہے ہیں بلکہ حکومت بھی اپنے آپ ہی چل رہی ہے، اسی لیے اپوزیشن تمام تر کوشش کے باوجود اسے گرانے میں کامیاب نہیں ہو رہی، اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ وعدے ابھی پورے ہونے کے عمل میں ہیں، مکمل طور پر یہ پورے ہوتے ہیں یا نہیں، حکومت اس کی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ وعدوں کی یہ مہربانی ہے کہ وہ خود ہی پورا ہونا شروع ہو گئے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بھی ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
چند ن راکھ
یہ مصباح نوید کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ پیش لفظ شاہ محمد مری کا تحریر کردہ ہے، جبکہ پسِ سرورق تحریر اوکاڑہ سے ہمارے دوست رانا محمد اظہر کے قلم سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''دُکھ درد ہنستے لوگوں کی زندگی کی عکاسی، ان کی آس امیدوں کو قلم سہارا دینا، ان کرداروں کو اندھیروں سے نکالنے والے ادیب حسن تخلیق تو کرتے ہی ہیں، زندگی کے زخموں پر مرہم بھی تو لگاتے ہیں، پھاہے بھی تو رکھتے ہیں، جہاں زندگی چُور چُور ہو، وہاں آرٹ برائے آرٹ بے حسی معلوم پڑتی ہے۔ ایسے ادیب ہی سچے فنکار ہیں...‘‘۔رانا محمد اظہر نے مصباح نوید کو اگر دوسرا کرشن چندر کہا ہے تو اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مصباح نوید جو سویرا والے نذیر احمد چودھری اور ادب لطیف والی صدیقہ بیگم کی صاحبزادی ہیں، حنیف رامے کی بھتیجی اور سویرا کے مدیر ریاض احمد کی ہمشیرہ ہیں‘ پاکستانی ادب اور آرٹ اسی خاندان کے احسانات کے سائے تلے موجیں مان رہا ہے۔ پسِ سرورق مصنفہ کی تصویر جبکہ افسانوں کی تعداد 16 ہے۔ کتاب کا ٹائٹل بھی رانا محمد اظہر کی تخلیق ہے۔ افسانوں کی زبان سلیس، طرزِ اظہار دلچسپ اور یاد رہ جانے والا ہے۔ امید ہے اس مجموعے کی کھلے بازوئوں سے پذیرائی کی جائے گی۔
اور‘ اب آخر میں منیر سیفیؔ مرحوم کی یہ خوبصورت غزل:
یوں تو کیا کیا لوگ چھپتے تھے دروازوں کے پیچھے
میں ہی بس اڑتا پھرتا تھا آوازوں کے پیچھے
خون کا اک قطرہ ورنہ پھر موت کا نشہ ہوگا
ہر ایسی شے کب ہوتی ہے پروازوں کے پیچھے
وہ تو لوگ بنا دیتے ہیں پُر اسرار فضا کو
اکثر کوئی راز نہیں ہوتا، رازوں کے پیچھے
موسیقار کے بس میں کب ہے لَے کو لو میں ڈھالے
ایک ان دیکھا ہات بھی ہوتا ہے سازوں کے پیچھے
پھر تو اپنے خون میں تیر کے پار اترنا ہو گا
تلواروں کی فصل ہو جب تیر اندازوں کے پیچھے
تمغہ، پنشن، بیوہ، بچے، مایوسی، تنہائی
ایک کہانی رہ جاتی ہے جانبازوں کے پیچھے
اب تو ہر چوکھٹ پر ماتھا ٹیک رہے ہیں سیفیؔ
اور اگر دیواریں نکلیں دروازوں کے پیچھے
(فرستادہ ندیم ملک)
آج کا مقطع
گم ہے‘ ظفرؔ‘ آواز تمہاری پسِ الفاظ
الفاظ ہیں ناقابلِ اظہار تمہارے