آج کل ڈاکوئوں کے خلاف پولیس آپریشن کی کافی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ ہرکوئی پولیس کی بے بسی پر تبصرے کر رہا ہے اور پولیس کو ناکام یا نااہل قرار دینے پر بضد ہے۔ دوسری طرف یہ کوئی نہیں سوچتا کہ وہ ظالم ڈاکو‘ جن کے ہاتھوں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں، جب واردات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو اس میں صرف لوٹ مار ہی نہیں کرتے بلکہ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کوہٹانے کے لیے اپنی انگلی ہر وقت ٹریگر پر رکھتے ہیں‘ جو کسی قانون کو نہیں مانتے اورجس کا مقصد ہر ناجائز ذریعہ استعمال کرتے ہوئے مال و دولت لوٹنا ہوتا ہے جس کے حصول کیلئے وہ کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے‘ ایسے افراد کے ساتھ پولیس کا کیا مقابلہ ہے؟ ان کے مقابلے میں پاکستانی پولیس انتہائی معصوم ہے جس کے اپنے اندرونی مسائل بہت زیادہ جبکہ وسائل انتہائی محدود ہیں، ان حالات میں پولیس سے کسی بہت بڑے معرکے کی توقع کرنا عبث ہے۔ اگر کسی کو اس ضمن میں کوئی شک ہے تو کسی بھی پولیس والے سے بات کر کے دیکھ لیں۔ اس پولیس والے کا تعلق کسی بھی صوبے یا ضلع سے ہو‘ اس کا رینک کوئی بھی ہو‘ وہ آپ کو سب سے پہلے تو نفری کی کمی کے بارے بریفنگ دے گا اور بتائے گا کہ ان کے پاس جتنی نفری بیس سال پہلے تھی‘ کم و بیش وہی تعداد آج بھی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں آبادی کا تناسب دو گنا تک بڑھ چکا ہے، اتنی کم نفری کے ساتھ وہ علاقے میں گشت کریں یا ملزمان کو عدالتوں میں پیش کریں، سرکاری و نجی عمارات کے باہر ڈیوٹی دیں یا مذہبی و سیاسی تقریبات کی سکیورٹی سنبھالیں، شام کو دکانیں بند کروائیں یا گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی چوری روکنے کے لیے ناکہ بندی کریں، وی آئی پیز کی سکیورٹی ڈیوٹی کریں یا علاقے میں قمار بازی و منشیات فروشی کے اڈوں پہ چھاپے ماریں۔ نفری کی کمی کے باعث پہلے ہی مقدمات کی تفتیش کا وقت نہیں ملتا، ایسے حالات میں نئے مقدمات کا اندراج کیسے کریں؟ پولیس کے پاس نفری کی کمی کے اتنے جواز ہیں کہ سننے والا یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پولیس کی افرادی وقت واقعی موجودہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
اس کے بعد پولیس والا آپ کو بتائے گا کہ نفری کی کمی کے باوجود وہ دن رات ایک کرکے شہریوں کی دادرسی کرنے کے لیے حاضر ہیں لیکن کیا کریں‘ سرکار گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے جتنا پیٹرول اور ڈیزل دیتی ہے‘ اس سے تو تھانے سے کچہری تک بھی نہیں جا سکتے‘ پھر دن رات گشت کیسے کریں؟ ڈکیتی یا کسی دوسری واردات کی اطلاع ملنے پر کس طرح فوراً موقع پر پہنچیں؟ مقدمات کی تفتیش کے لیے روزانہ میلوں کا سفر کیسے کریں؟ پولیس والے کبھی بھی سائلین پر بوجھ نہیں بننا چاہتے لیکن وسائل کی کمی کے باعث مجبوراً صرف انہی مقدمات یا واقعات تک پہنچ پاتے ہیں جن میں انہیں گاڑی اور پیٹرول کی پیش کش کی جائے، اس کے لیے مدعی ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ اکثر اوقات پولیس کو ملزمان کی پیشکش بھی قبول کرنا پڑتی ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر سرکاری فیول کے انتظار میں مقدمات لٹکے ہی رہیں۔ یہ مسائل جان کر بھی آپ اس بات کے قائل ہو جائیں گے کہ اگر پولیس سے مدد لینی ہے تو پھر فیول کی مدد دینا پڑے گی۔
پیٹرول یا ڈیزل کی بات ابھی ختم نہیں ہو گی کہ پولیس والا آپ سے سوال کرے گا کہ جناب! آپ خود ہی انصاف کریں‘ پولیس کی تنخواہیں اتنی کم ہیں اور مہنگائی کی شرح اس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ پولیس والوں کے بھی بچے ہیں‘ ان کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا ہے، انہوں نے بھی گھر بنانا ہے، بچوں کوگاڑی لے کر دینی ہے‘ ان کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے ہیں، تنخواہ سے مکان کا کرایہ اور یوٹیلٹی بل ہی بمشکل ادا ہو سکتے ہیں‘ دیگر اخراجات کے لیے اگر کسی سے ''مدد‘‘ لی جائے تو لوگ شور برپا کردیتے ہیں کہ رشوت کا بازار گرم ہے۔ پولیس والے کی باتیں سن کر ہر دردمند انسان کا دل موم ہو جائے گا اور وہ یہ تسلیم کرے گا کہ پولیس کی مدد کرنا عوام کا فرض ہے۔
اس کے بعد آپ کو یہ حقیقت بتائی جائے گی کہ دیگر سرکاری محکموں اور اداروں کی طرح اگر پولیس افسران و اہلکار بھی آٹھ گھنٹے ڈیوٹی پوری کرکے گھر چلے جائیں تو اگلے روز فرائض کی ادائیگی کے لیے وہ بھی چاق و چوبند ہوں لیکن نفری کی کمی کے باعث اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ابھی ایک واقعے کی تفتیش کے لیے راستے میں ہوتے ہیں تو کسی دوسری بڑی واردات کی اطلاع پر انہیں وہاں جانا پڑ جاتا ہے، اسی طرح کئی بار گھر پہنچنے سے پہلے ہی کوئی حادثہ رونما ہو جاتا ہے اور انہیں وہاں پہنچنے کا حکم مل جاتا ہے۔ پولیس والا آپ کو بتائے گا کہ علاقے میں کوئی ڈکیتی کی واردات ہو یا دہشت گردی کا واقعہ پیش آ جائے، کوئی ٹریفک حادثہ ہو یا آتشزدگی‘ کوئی سیاسی ریلی ہو یا احتجاجی مظاہرہ‘ کہیں امتحان ہو رہا ہو یا کوئی مذہبی اجتماع ہو، کہیں لڑائی جھگڑا ہو جائے یا خونیں تصادم ہو، کوئی سیاسی تقریب ہو یا کھیلوں کے مقابلے ہوں، کوئی میلہ ہو یا کسی درگاہ پہ عرس ہو‘ نفری اور وسائل کی کمی کے باوجود ہر جگہ پولیس موجود رہتی ہے، اس کے باوجود پولیس پر تنقید کی جاتی ہے۔ ہرکوئی پولیس کی کام چوری اور رشوت خوری پر تبصرے کرتا ہے۔ کوئی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ پولیس کتنی مظلوم ہے، لوگ چوروں اور ڈاکوئوں سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا پولیس کا نام سن کر لرز جاتے ہیں۔ آخر اتنی کم نفری، معمولی تنخواہ اور فیول کے بغیر پولیس رات دن فرائض کی ادائیگی کیسے بجا لائے؟ انہیں کہیں نہ کہیں سے تو مدد لینا پڑے گی۔
بات ڈاکوئوں کے خلاف پولیس کے آپریشن سے شروع ہوئی تھی لیکن ان ظالموں کامقابلہ کرنے کیلئے پولیس کے مسائل جاننا بھی ضروری ہیں۔ اخبار میں مذکورہ آپریشن کی خبر کچھ یوں تھی ''پولیس اہلکار کچے کے علاقہ میں ڈاکوئوں سے اپنے ساتھی اہلکاروں کو بازیاب کرانے میں مکمل طور پر ناکام، پولیس کی جانب سے سرچ آپریشن بھی روک دیا گیا۔ کچہ سونمیانی سے اغوا ہونے والے 2 پولیس اہلکار 4 دن بعد بھی بازیاب نہ ہو سکے۔ پولیس کی ڈاکوئوں سے مذاکرات کی کوشش نا کام۔ ذرائع کے مطابق ڈاکوئوں کی جانب سے ساتھیوں کی رہائی کے ساتھ تاوان کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے جبکہ مغوی پولیس اہلکاروں کو لنڈ اور سکھانی گینگ نے اغوا کیا ہے۔ دوسری جانب ڈیرہ غازی خان میں لادی گینگ کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا آپریشن جاری ہے اور مزید 10 مشتبہ افراد گرفتار کر لیے گئے‘‘۔
اگر اس خبر پر کسی پولیس افسر کا موقف معلوم کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ پولیس کے پاس کھٹارا گاڑیاں اور ناکارہ اسلحہ ہے، نئی گاڑیاں تو تمام افسران کی ڈیوٹی بھی پوری نہیں کر سکتیں جبکہ پولیس جدید اسلحہ خریدے یا ہجوم اور مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کے شیل خریدے؟ اس کے برعکس ڈاکوئوں کے پاس جدید ترین گاڑیاں اور خودکار اسلحہ ہوتا ہے اور وہ ظلم و بربریت کی ہر حد کراس کر چکے ہیں، ایک طرف تو انہوں نے پولیس اہلکاروں کو اغوا کیا تو دوسری جانب ان کی رہائی کیلئے پولیس سے ہی تاوان مانگ رہے ہیں۔ اب ممکن ہے پولیس کو یہ تاوان ادا کرنا پڑے۔ کھٹارہ گاڑیوں، ناکارہ اسلحے کے ساتھ بے بس پولیس ان ظالم ڈاکوئوں کا مقابلہ کیسے کرے؟
اگرچہ اس زمینی ضرورت سے انکار ممکن نہیں کہ دہشت گردوں، سماج دشمن عناصر اور ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن ہونے چاہئیں اور ان عناصر کا مکمل قلع قمع کیا جانا چاہیے مگر حالات متقاضی ہیں کہ پولیس فورس کو مناسب طور پر مسلح کیا جائے تاکہ جدید ترین اسلحے سے لیس پولیس تمام سماج دشمن عناصر کے خلاف بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔