سنتے تھے چین ترقی کر گیا ہے۔ چین کے بارے میں جو کچھ سنا تھا ، اس سے بڑھ کر پایا ۔ پہلی دفعہ احساس ہوا ترقی کیا چیز ہوتی ہے۔ بیجنگ سے شنگھائی تک302 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی بلٹ ٹرین کے پانچ گھنٹے تک کے سفر میں ہم میں سے کسی نے ایک کچا گھر نہیں دیکھا ۔ چین کے شہروں اور دیہات کے انفراسٹرکچر میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ۔چین نے اپنی دنیا بدل دی ہے اور اب دوسروں کی بدلنے کی سوچ رہا ہے۔ مجھے لگا یورپ بھی چین سے ترقی میں پیچھے رہ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے انسانی آزادی کے حوالے سے چین بہت پیچھے ہو کیونکہ وہاں مغربی دنیا کی فیس بک اور ٹویٹر بین ہے لیکن انہوں نے اپنی ڈیرھ ارب کی آبادی کے لیے اپنی زبان میں ہی فیس بک اور ٹویٹر بنا دیا ہے۔ چین کو اب دنیا کے سہارے رہنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ اب دنیا کو چین کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ریلوے کے ہر دوسرے منصوبے میں چینی کمپنیوں کی کرپشن کی کہانیاں لکھ لکھ کر میں بھی یہی سمجھ بیٹھا تھا کہ شاید یہ دنیا کے کرپٹ لوگوں کی قوم ہے جس کا کام صرف مال بٹورنا ہے اور اپنی جیب بھر کر کچھ سکے ہمارے بھوکے اور ندیدے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی جیبوں میں ڈالنا ہے۔ میرا خیال غلط تھا۔ جب چین سے روانہ ہونے لگے تو چین کے وزیر ریلوے کو پھانسی کی سزا سنائی جا رہی تھی۔ پاکستان کے کئی وزیرریلوے یقینا خوش قسمت نکلے ہیں۔ کرپٹ قوم اور ادارے اس طرح ترقی نہیں کر سکتے جتنی چین نے کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ الٹا ہم نے انہیں کرپٹ کیا ہے۔ گانجو صوبے کی ترقی اور خوبصورتی دیکھ کر وزیراعظم کے پریس سیکرٹری محی الدین وانی نے کیا خوبصورت فقرہ کہا کہ ہر اعلیٰ معیار کے پل کے نیچے اور سڑک کے کنارے ان کرپٹ چینی افسروں کی قبریں بھی ہیں جنہوں نے ان منصوبوں میں مال بنانے اور معیار پر کمپرومائز کرنے کی کوشش کی اور انہیں وہیں سڑک کے کنارے ہی گولی مار دی گئی۔ ہو سکتا ہے یہ بات ہمیں انتہائی ظالمانہ لگتی ہو لیکن چینی حکام کو لگا ایک ارب کی آبادی کی ترقی اس کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی کہ لاکھوں افراد کے لیے مختص کیے گئے وسائل اور دولت صرف ایک کرپٹ سرکاری افسر کی جیب میں جانے دی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم چین سے کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ وزیراعظم نواز شریف کی یہ بات درست ہے چین اس دفعہ ہماری مدد کرنا چاہتا ہے۔اگرچہ اس کے پیچھے چین کی اپنے اقتصادی مفادات بھی ہیں لیکن دنیا ایسے ہی چلتی ہے۔ چین گوادر کے ذریعے اپنا مال عرب ریاستوں اور دیگر دنیا تک بھیجنے کی سوچ رہا ہے۔ اس وقت چین کو آٹھ ہزار کلومیٹر کا سفر کر کے اپنا مال ان عالمی منڈیوں تک بھیجنا پڑتا ہے۔ اگر گوادر کے راستے مال سپلائی کرے گا تو پھر تقریباً پانچ سے چھ ہزار کلومیٹر تک یہ فاصلہ کم ہوسکتا ہے جس سے چین کی اشیاء سستے داموں گاہکوں تک پہنچ سکتی ہیں۔ حسین نواز اور سلمان شہباز جو اس دورے میں شامل تھے وہ دونوں نوجوان کزن مجھے خاصے سمجھدار لگے۔ مجھے تو حسین نواز کو کہنا پڑ گیا کہ آپ کے بارے میں پراپپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ آپ کو سیاست سے دلچسپی نہیں ہے لیکن آپ کی گفتگو سے تو کہیں سے نہیں لگتا۔ پوچھا کہ کب سیاست جوائن کر رہے ہیں تو مسکرا کر ٹال گئے۔ چینی قیادت نے بھی سنجیدگئی دکھائی تو نواز شریف کی طرف سے بھی سنجیدگی کا پہلو نظر آیا ۔ نواز شریف کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ پہلے سکیورٹی اور دہشت گردی کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ چینی قیادت نے ہر بار نواز شریف سے ایک ہی بات کی آپ کے ہاں دہشت گردی کی وجہ سے ترقی نہیں ہوپارہی اور اوپر سے سرکاری افسران رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ اب چینیوں کو کون سمجھائے سرکاری افسران رکاوٹیں نہ ڈالیں تو نیب اٹھا لیتی ہے جیسے جنرل مشرف کے دور میں سینکڑوں افسروں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے فلاں کام کیوں کیا اور فلاں فیصلہ کس طرح ہوا ۔ بیس برس قبل کیے گئے فیصلوں کے بارے میں بھی انکوائریاں اور گرفتاریاں ہوئیں۔ یوں بیوروکریسی اس نتیجے پر پہنچی: بہتر ہے کہ کوئی فیصلہ ہی نہ کرو۔ نواز شریف نے یہ بات خود صحافیوں کے ساتھ شیئر کی کہ اگر دوبارہ نانگا پربت جیسی کوئی دہشت گردی ہوئی تو ان کے چار روزہ دورہ کے اثرات ختم ہوجائیں گے۔ نواز شریف اگر دہشت گردی ختم نہیں کرسکتے تو کیوں ہم دنیا کے دورے کر رہے ہیں اور اپنا اور ان کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ پنجاب حکومت پر الزام لگتا ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کن آپریشن دہشت گردوں کے خلاف کرنے کو تیار نہیں ہے۔ دہشت گردی کی لہر کو شروع ہوئی بارہ برس ہوگئے ہیں اور ابھی ہمارے صلاح و مشورے جاری ہیں۔ چین میں جس کو پتہ چلا کہ ہم پاکستانی ہیں، وہ ایک ہی لفظ کہتے ۔ اوہ بم…! چین ہماری ترقی چاہتا ہے کیونکہ نواز شریف کو ملاقاتوں میں احساس ہوا کہ چین کے ہاں پیسہ آنے سے وہاں کا غریب امیر ہوگیا ہے اور وہ اب زیادہ مزدوری مانگتا ہے جس سے چین عالمی مارکیٹ میں مہنگا سودا بیچنے پر مجبور ہوگا ۔ اب چین کا خیال ہے کہ کاشغر سے گوادر تک اگر اکنامک کوریڈور بنایا جاتا ہے تو اس کے اردگرد صنعتیں لگا کر سستی لیبر کے ذریعے مال پاکستان میں بنا کر پوری دنیا میں بیچا جا سکتا ہے۔ یوں جہاں پاکستان میں بڑے پیمانے پر اس موٹر وے کے ارد گرد صنعتی انقلاب آسکتا ہے،وہاں پاکستانیوں کو مزدوری مل سکتی ہے۔ چینی اب پاکستان میں اپنی صنعتیں شفٹ کرنے پر بھی سنجیدہ ہیں کہ بجائے وہ چین میں مال تیار کریں، بہتر ہوگا پاکستان میں ہی تیار کر کے آگے بھیجا جائے جس سے لاگت کم ہوگی اور عالمی منڈیوں پر چین کا مزید قبضہ ہوگا اور پاکستان کو بھی اس میں سے کچھ حصہ ملے گا۔ یہ وہ ویژن ہے جو میری طرح کے ایک عام آدمی کی سمجھ میں بھی آتا ہے۔ نواز شریف کی گفتگو سے لگتا ہے کہ انہیں بھی یہ بات سمجھ آچکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے دیگر اسٹیک ہولڈرز بھی یہ ویژن شیئر کرتے ہیں جو چینی حکام نے پاکستان کے ساتھ شیئر کیا ہے۔ اس لیے نواز شریف سے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کے بڑے منصوبوں کی وجہ سے آپ کو حکومت میں نہیں رہنے دیا جاتا تو انہوں نے فوراً ہاں میں ہائی ملائی اور کہا جی بالکل ہم نے موٹر وے شروع کی اور ساتھ ہی ہماری حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاری شروع ہوگئی تھی۔ اب سوال یہ ہے کیا نواز شریف واقعی یہ سب کچھ کر پائیں گے۔ مجھے یاد آیا لندن میں شہباز شریف نے ہم صحافیوں کوا یک واقعہ سنایا کہ جب وہ بارہ اکتوبر کی بغاوت کے بعد جیل میں تھے تو کچھ دنوں کے بعد جنرل مشرف پاکستان بدلنے کے نام پر اپنا سات نکاتی پروگرام سامنے لائے۔ شہباز شریف کے بقول وہ پروگرام پڑھ کر میں نے ایک ساتھی سے کہا کہ اگر جنرل مشرف نے اس پروگرام پر بیس فیصد بھی عمل کر لیا تو پھر ہم ساری عمر جیلوں میں سڑیں گے اور لوگ سیاستدانوں کو بھول جائیں گے۔ شہباز شریف نے کہا تو نہیں لیکن یوں لگا کہ وہ جنرل مشرف کے شکر گزار لگ رہے تھے کہ وہ اپنے سات نکاتی ایجنڈہ پر کام نہ کر سکے۔ جو کچھ ہم نے چین کے ساتھ ان چار دنوں میں طے کیا ہے اس پر بیس فیصد بھی عمل ہوگیا تو پاکستان چند برسوں میں بدل سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں نواز شریف کیا کرتے ہیں ۔ وہ جنرل مشرف کا راستہ لیتے ہیں یا پھر کوئی نیا راستہ اختیار کرتے ہیں؟ پس تحریر: اپنے ان صحافی دوستوں سے دلی معذرت‘ جنہیں بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے کے عملے کی مسلسل نااہلی اور کچھ میری حماقت کی وجہ سے بیجنگ سے شنگھائی تک پہلی بلٹ ٹرین پانچ منٹ کے فرق سے مس کرنا پڑی ۔ دوستوں نے اس شرط پر معافی دی کہ Mr Bean\'s Holiday فلم جیسا سسپنسں، بیوقوفی، ایڈونچر اور اپنے مسٹر بین بننے کی یہ سنسنی خیز روداد بھی میں خود ہی لکھوں گا !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved