تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-06-2021

بدلتا خطہ اور ہم

حالات کا تو کام ہی بدلتے رہنا ہے سو وہ بدل رہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا طرح طرح کی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے۔ یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے، یہ دعویٰ کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ ایسا کبھی ہوا ہو تو کچھ کہا جائے۔ ہر دور میں حالات بدلتے نہیں، بدلے جاتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کو بدلنے والے حالات پیدا کیے گئے تب بڑی اور فیصلہ کن نوعیت کی تبدیلیاں ممکن ہو پائیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ یہ وائرس پھیلا یا پھر پھیلایا گیا، یہ بحث اب بھی جاری ہے۔ اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ کورونا وائرس کے ہاتھوں ہر ملک اور ہر خطے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو لوگ ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی نظریۂ سازش تلاش کرتے ہیں وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کورونا وائرس اگر دانستہ ابھارا جانے والا معاملہ ہے تب بھی بچ تو کوئی بھی نہیں سکا۔
کسی بھی دور میں رونما ہونے والی کوئی بھی بڑی تبدیلی ہمارے لیے چیلنج بھی ہوتی ہے اور امکانات کی کان بھی۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال سے ہم کس طور نمٹتے ہیں اس کا اصلاً مدار اِس بات پر ہے کہ ہم اُس صورتِ حال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے تصورات اور نظریات ہی ہماری زندگی کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ دنیا کو دیکھنے والی نظر ہی طے کرتی ہے کہ یہ دنیا ہے کیا اور اِس سے کس طور معاملہ کرنا ہے۔ ہر معاشرہ اپنے مسائل اور وسائل کی حدود میں جیتا ہے۔ امکانات پر نظر رہتی ہو تو درست اندازہ رہتا ہے کہ کب کیا کرنا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کی جانے والی منصوبہ سازی ہمارے لیے الجھنیں بڑھاتی ہے۔ پاکستان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی دور میں ملک کے لیے بنیادی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ ہر دور میں ہم یا تو طاقتوروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئے یا پھر معاملات کو گھسٹتے گھسٹتے آگے بڑھا پائے۔ بات خطے کی ہو یا پوری دنیا کی، بظاہر ہمیں کبھی اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں رہی کہ کسی بھی معاملے میں کوئی بڑا قدم اٹھانے کا حتمی منطقی نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ معاملہ بھارت کا ہو یا افغانستان کا‘ محض جذباتیت ہی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ افغانستان کے معاملے میں ہماری پالیسی کبھی حقیقت پسندی کا مظہر نہیں رہی۔ سابق سوویت یونین نے جب افغانستان پر لشکر کشی کی تب ہم نے بڑی طاقتوں کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ سوویت افواج کو شکست دینے کے لیے دنیا بھر سے مجاہدین آئے اور ہم اُن کے میزبان بنے۔ یہ سب کچھ فطری تھا۔ صورتِ حال ہی کچھ ایسی تھی کہ زیادہ سوچنے کی گنجائش نہیں تھی مگر صاحب! حقیقی بحرانی کیفیت میں ہوش و حواس برقرار رکھنا ہی تو ہر انسان، معاشرے اور ریاست کے لیے حقیقی امتحان ہوا کرتا ہے۔ سوویت افواج کو شکست دینے کے لیے مغربی قوتوں کی مدد سے مجاہدین کی میزبانی تو ضرور کی گئی مگر یہ نہیں سوچا گیا کہ جب یہ ''مشن‘‘ تکمیل سے ہم کنار ہوگا تب کیا ہوگا۔ جنہیں ہتھیار دے کر ایک سپر پاور سے بھڑادیا گیا ‘وہ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد ان ہتھیاروں سے کیا کریں گے، لڑنے کی عادت کہاں جائے گی؟ سٹریٹیجک ڈیپتھ پیدا کرنے کے فراق میں ہم بڑھتے ہی چلے گئے۔ تیس لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھاتے وقت نہیں سوچا گیا کہ مالی معاملات میں تو مغرب مدد کرے گا، معاشرتی معاملات کا کیا ہوگا۔ پناہ گزینوں کی آمد سے پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا حصہ شدید متاثر ہوا۔ اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں معاشی اور معاشرتی ہر دو طرح کی علتیں پیدا ہوئیں اور اِن سے بھی ایک قدم آگے جاکر قومی سلامتی کے لیے انتہائی نوعیت کے خطرات پیدا ہوئے۔ یہ خطرات تاحال خاطر خواہ حد تک کم نہیں ہوئے۔
اب افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا مکمل انخلا مکمل ہونے کو ہے۔ یہ ایک بار پھر شدید عدم توازن کی زد میں ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقت یہ ہے کہ افغانستان ایک بار پھر اُسی مقام پر آگیا ہے جہاں سوویت یونین کی شکست و ریخت کے وقت تھا اور جب طالبان تیزی سے ابھر کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جو خرابی افغانستان سمیت پورے خطے پر مسلط کی وہ اپنے حتمی منطقی اثرات اب تک مرتب کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلا کے بعد افغانستان کس سمت جائے گا۔ طالبان ایک بار پھر مضبوط ہوکر ابھرے ہیں۔ افغانستان میں ایک عشرے سے بھی زائد مدت تک کٹھ پتلی نوعیت کا حکومتی نظام موجود رہا۔ اس حکومتی نظام نے محض خرابیاں پیدا کی ہیں۔ افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے نام سے کام کرنے والی قومی فوج نے معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں قدم قدم پر مغربی سرپرستوں کا سہارا لیا ہے۔ صدر اشرف غنی دعویٰ تو کر رہے ہیں کہ امریکا اور نیٹو کے نکل جانے کے بعد افغان فوج سکیورٹی کے معاملات کو اچھی طرح سنبھالنے اور چلانے کی صلاحیت و سکت رکھتی ہے مگر بہت آسانی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کا دعویٰ کس حد تک کھوکھلا ہے۔ طالبان جب چاہتے ہیں‘ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ اُن کی طاقت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ خود افغان حکومت کئی بار کوشش کرچکی ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر تمام معاملات طے کرلیں تاکہ مغربی افواج کے نکل جانے کے بعد ملک کو متوازن اور مستحکم رکھنے میں مدد ملے۔ ایک دنیا کو یہ بات معلوم ہے کہ کابل حکومت ایک خاص حد تک ہی عملداری رکھتی ہے۔ ملک کے بہت سے اہم علاقوں پر طالبان کا ایسا تصرف ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اب افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت رکھنے والی پالیسی ترتیب نہ دی گئی تو ایک بار پھر ایسی خرابیاں پیدا ہوں گی جو پاکستان کے استحکام زک پہنچائیں گی۔ پاکستان معاشی، معاشرتی اور سٹریٹیجک اعتبار سے ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سے درست سمت کا تعین دشوار ہے۔ یہ دشوار ضرور ہے، ناممکن ہرگز نہیں۔ ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے اپنی ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرنا ہے۔ یہی موقع ہے کہ ہم اپنے معاملات تک محدود رہیں۔ سٹریٹیجک ڈیپتھ پیدا کرنے کے نام پر قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے سے گریز لازم ہے۔ افغانستان میں نائن الیون کے بعد طالبان سے جو سلوک روا رکھا گیا اور شمالی اتحاد میں شامل چند مقامی گروہوں نے افغان عوام کا جو حال کیا وہ اب شدید ردِ عمل کا سلسلہ شروع کرسکتا ہے۔ افغانستان کے عوام کو ایک مدت تک مظالم کا نشانہ بنایا گیا بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وار آن ٹیرر کا تختۂ مشق افغان تھے۔ یہ لڑائی بلوچستان کے علاقوں کے ذریعے پاکستان تک بھی پہنچی۔
افغانستان میں ڈیڑھ عشرے کے دوران بھارت نے بھی قدم جمانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کی سرمایہ کاری بڑے پیمانے کی ہے۔ طالبان نے بھارتی و غیر ملکی اثرات کا گراف فی الفور نیچے لانے کی کوشش کی یعنی قتل و غارت کا بازار گرم ہوا اور ہم نے پالیسی کے حوالے سے توازن کی راہ پر گامزن ہونے کو ترجیح نہ دی تو پوراخطہ شدید عدم استحکام کی زد میں رہے گا۔
وقت کا کام حالات کو بدلتے ہوئے گزر جانا ہے۔ گزرتے ہوئے وقت اور بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے بہتر زندگی کی راہ ہموار کرنا ہمارا کام ہے۔ پاکستان کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ایک بار پھر خود کو افغانستان کا پائیں باغ بنایا جائے، اور باغ بھی کانٹوں کا۔ یہ وقت اِدھر اُدھر جھانکنے کے بجائے اندر کی طرف دیکھنے یعنی حقیقت پسندی اختیار کرنے کا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved