تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-06-2021

ریل کی سیٹی …(2)

زندگی ویسی تو ہرگز نہیں ہے جیسی ہمیں دکھائی دیتی ہے یا جیسی ہم اپنے لیے خود بنائے رکھتے ہیں مثلاً یہی کہ میری نیند بہت ہی ہلکی ہے۔ اتنی ہلکی کہ میرے بارے میں مشہور ہے کہ اگر میرے کمرے سے بلی بھی گزرے تو میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ اوپر سے مصیبت یہ ہے کہ یہ صرف مشہور ہی نہیں، ایسا ہے بھی۔ مزید مصیبت یہ کہ گزشتہ ساڑھے آٹھ سال سے بالکل اکیلے کمرے میں سونے کی عادت نے اس حساسیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ میں سفر کے حوالے سے بڑا مست آدمی ہوں، مگر اس عادت نے تھوڑی سی مصیبت کھڑی کر رکھی ہے۔ مشاعروں میں آرگنائزرز سے صرف یہی ایک خصوصی فرمائش ہوتی ہے کہ میں کسی کے ساتھ کمرہ شیئر نہیں کروں گا۔ بس یہی ایک شرط ہے جو مجھے پورا سفری ملنگ بنانے کے درمیان حائل ہے۔
میں سویا ہوں تو بچے میری ہلکی سی آہٹ پر آنکھ کھل جانے کے ڈر سے کمرے سے متصل لائونج میں بھی بمشکل ہی آتے ہیں اور اگر مجبوراً آنا پڑ جائے تو دبے پائوں آتے ہیں۔ بچپن سے ہی نیند سے متعلق معاملات نے تنگ و پریشان کیے رکھا۔ چوک شہیداں والے مکان میں میرا کمرہ گلی سے متصل تھا لہٰذا ہمہ وقت کا شور شرابا اس کمرے کے ساتھ پیکیج ڈیل کے طور پر ملا ہوا تھا۔ دن تو اس کمرے میں گزر جاتا لیکن رات کا کیا کیا جائے؟ اس کا حل یہ نکالا کہ سٹور میں ڈیرہ لگا لیا جائے۔ گلی سے حتی الامکان حد تک دور اور دن میں بھی روشنی سے یکسر محروم۔ رات اس کمرے میں سونے کے لیے پہلے پہل تو دادا جان والی پرانی لکڑی کی بڑی سی پیٹی کے اوپر گدا ڈال کر بستر بنا لیا۔ جب قد اس پیٹی سے لمبا ہو گیا تو کسی طرح ایک چارپائی اس پیٹی کے ساتھ جوڑ لی۔ اب اس اندھیرے کمرے میں جہاں شور شرابے سے نجات ملی ایک اور بری عادت یہ پڑ گئی کہ روشنی سے تعلقات خراب ہو گئے اور گھپ اندھیرے میں سونے کی قباحت سے پالا پڑ گیا تاہم سردیاں بڑی سہولت سے گزر جاتی تھیں۔ گرمیوں میں بھی یہ ہوتا کہ فجر کی نماز تک تو اوپر صحن میں سویا جاتا اور اس کے بعد سٹور میں ڈیرہ لگا لیا جاتا۔ عثمان آباد گئے تو وہاں گھر کا آخری کمرہ قبضا لیا۔ راوی اس کے بعد کئی سال چین لکھتا ہے تاوقتیکہ میری شادی ہو گئی۔ اس کے بعد کچھ میری عادت میں تھوڑی تبدیلی آئی اور کچھ اس نیک بخت نے میرا خاص خیال رکھا۔ بچے چھوٹے تھے تو تھوڑی مشکل ہوئی لیکن یہ شکر تھا کہ آنکھ کھلتی تو دوبارہ نیند فوراً ہی آ جاتی۔ بچے بڑے ہو گئے تو آہستہ آہستہ دوبارہ وہی پرانی روٹین زندگی کا حصہ بن گئی۔ اب گزشتہ دس پندرہ سال سے ایسے ہی گزر رہی تھی۔ پھر سیفان آ گیا۔
جب ضوریز پیدا ہونے والا تھا تو کومل ہسپتال چلی گئی اور سیفان میرے پاس گھر میں اکیلا رہ گیا۔ رات جب وہ میرے ساتھ لپٹ کر سویا تو میں نے سوچا کہ نیند تو اب مشکل سے آئے گی۔ جہاں ایک طرف سیفان میرے ساتھ پہلی بار سویا، وہیں میں بھی کسی بچے کے ساتھ زندگی میں پہلی بار سویا تھا۔ مجھے سوتے ہوئے تقریباً ایک گھنٹہ لگتا ہے، لیکن اس رات میں دس پندرہ منٹ میں ہی سو گیا۔ رات بھر بے چین سیفان مجھے ٹانگیں مارتا رہا۔ شاید رات بھر میں دس بارہ بار میری آنکھ بھی کھلی مگر میں فوراً ہی دوبارہ سو گیا۔ صبح اٹھ کر اسے گھی اور شکر کے ساتھ پراٹھا کھلایا۔ اس کے ڈائپر تبدیل کیے۔ اس کے کپڑے بدلے، اس کے فیڈر بنائے۔ اس کے ساتھ کھیلا اور اگلے تین روز اسی طرح گزر گئے۔ تب سیفان ڈیڑھ سال کا تھا۔ اب ماشااللہ وہ چھ سال کا ہے۔ کھانا خود کھا لیتا ہے۔ ڈائپر کی حاجت ختم ہو چکی ہے لیکن وہ میرے ساتھ سوتا ہے۔ اسی طرح ٹانگیں مارتا ہے ۔ گلے میں بازو ڈال کر سوتا ہے اور سونے سے پہلے اللہ حافظ کہتے ہوئے مجھے گال پر بوسہ دیتا ہے۔ اسے یہ کرتا دیکھ کر دوسری طرف لیٹا ہوا ضوریز بھی وہی کچھ کرتا ہے۔ ساری رات دو اطراف کمر پر ماری جانے والی ٹانگوں اور پیٹ پر پڑنے والے گھٹنوں کے باوجود مجھے ایسی شانت نیند آتی ہے کہ خود پر حیرانی ہوتی ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ سال کورونا کی وبا سے قبل 2019ء کے آخر میں امریکہ گیا تو سیفان سے مقابلہ بازی میں ضوریز نے بھی میرے ساتھ سونے کا اعلان کر دیا، مگر اسے بہلا پھسلا کر دو چار دن تو روک لیا گیا تاہم چوتھے دن اس نے سیفان کے آنے سے پہلے میرے بستر میں گھس کر اپنی جگہ بک کر لی۔ اس کے سونے کے بعد کومل اسے اٹھا کر لے گئی تو صبح اٹھ کر اس نے رولا ڈال دیا۔ اب اس کا یہ حل نکالا گیا ہے کہ میرے کمرے میں بڑے سائز کا پلنگ ڈالا گیا ہے اور دونوں میرے ساتھ سوتے ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ طے ہے اور یہ بھی طے شدہ ہے کہ میں صرف درمیان میں سو سکتا ہوں۔ میرے سونے کے سارے اصول، ضابطے اور قاعدے پیریزبرگ میں اڑن چھو ہو جاتے ہیں۔
سنتے تھے کہ اولاد کی اولاد کا معاملہ بنیے کے اصل سے بیاج پیارا ہونے والا معاملہ ہے۔ جیسے بنیے کو اپنے اصل سے زیادہ سود کی فکر ہوتی ہے اسی طرح اولاد سے بڑھ کر اس کی اولاد کی محبت ہوتی ہے۔ اس تجربے سے گزریں تو ہی اس محبت کی سمجھ آتی ہے تاہم کبھی کبھی حیرانی ہوتی ہے کہ مالک کائنات نے رشتوں کے درمیان محبتیں تقسیم کرتے ہوئے کیا عجب توازن اور نسبت رکھی ہے۔ حضرت عمرؓ اپنے حجرے میں کسی شخص کے لیے کسی شہر کی امارت کا حکم نامہ لکھ رہے تھے اور ابھی یہ تحریر نامکمل تھی کہ اسی اثنا میں آپؓ کا ایک بیٹا حجرے میں آگیا۔ آپؓ نے تحریر لکھنا موقوف کیا اور اپنے بیٹے کو لپٹا لیا۔ پھر آپؓ نے اسے زور سے بھینچا اور اس کا بوسہ لیا۔ پھر اسے دوبارہ سینے سے لگایا اور ایک بار پھر اس کا بوسہ لیا۔ امارت کے حکم نامے کے منتظر اس شخص نے یہ سارا منظر حیرانی سے دیکھا۔ جب آپؓ کا بیٹا وہاں سے گھر کے اندر چلا گیا تو اس شخص نے استعجاب سے آپؓ سے پوچھا کہ کیا یہ آپؓ کا اکلوتا بیٹا ہے؟ آپؓ نے فرمایا: نہیں‘ میرے اور بھی بیٹے ہیں۔ پھر اس شخص نے پوچھا: کیا یہ آپؓ کا سب سے عزیز اور پیارا بیٹا ہے؟ آپؓ نے فرمایا: نہیں! مجھے اپنے سب بچے اسی طرح عزیز ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ میرے بھی بچے ہیں، مگر میں تو ان کو اس طرح گرمجوشی سے کبھی نہیں لپٹاتا اور نہ ہی ان سے اس طرح محبت کا اظہار کرتا ہوں۔ آپؓ نے سامنے پڑا ہوا نامکمل تحریر والا کاغذ اٹھایا اور اسے چاک کر دیا۔ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: اللہ کا شکر ہے کہ میں نے تمہیں مخلوق خدا پر عامل مقرر نہیں کر دیا۔ جو شخص اپنی اولاد سے پیار نہیں کرتا بھلا وہ اللہ کی مخلوق سے کس طرح پیار کر سکتا ہے؟ میں تمہیں کسی اور مناسب کام پر لگائوں گا۔
میں پیریزبرگ کے اس گھر میں دو ننھے فرشتوں کو دن میں کم از کم درجن بار تو خود سے لپٹاتا ہوں۔ ان کو اپنے پیٹ پر بٹھاتا ہوں۔ ان کے ساتھ پتنگ اڑاتا ہوں، فٹ بال اور بیس بال کھیلتا ہوں۔ جب میں ان کے ساتھ تھوڑی دیر کی بھاگ دوڑ کے بعد تھک جاتا ہوں تو دونوں حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ میں تھک کیوں جاتا ہوں جبکہ وہ ابھی تازہ دم ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ کبھی میں بھی حیران ہو کر سوچا کرتا تھا کہ کوئی بندہ آخر کیسے تھک جاتا ہے؟ میں نے سوچا‘ ابھی تو عمر کی پیری کے باعث میرا کُب نہیں نکلا وگرنہ یہ مجھ سے پوچھتے کہ بڑے بابا! آپ نے یہ کُب کہاں سے لیا ہے؟ اور کتنے کا لیا ہے؟ تب میں بھی انہیں عربی بابے کی طرح کہتا کہ صبر کرو! میری عمر تک پہنچتے ہوئے نہ صرف یہ کہ تمہیں یہ خود بخود مل جائے گا بلکہ بالکل مفت ملے گا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved