خلق زندہ دفنا دے یا زندہ چھوڑ دے، دل کی بات کہے بنا رہا نہیں جاتا۔ پہلے بھی عرض کیا کہ حکومت وقت کی ستائش یا اچھے کاموں کی پذیرائی ایک طرح کالم نگار کی موت ہے۔ کالم تو وہی مرغوب و مقبول ہے جس میں جارحانہ لب و لہجے میں سربراہ وقت کو للکارا گیا ہو، ہر معاہدے کو سکینڈل قرار دیا گیا ہو اور اس کے پیچھے کم از کم اربوں روپے کی بددیانتی ڈھونڈ لی گئی ہو۔ لاکھوں یا کروڑوں روپے کے معاملات میں اگر اربوں روپے کی کرپشن نکال لی جائے تو ایسے کالم کا کیا کہنا۔ اگر کسی معروف شخص پر ذاتی حملے کیے گئے ہوں تو سبحان اللہ۔ ہاتھوں ہاتھ پذیرائی ہونی لازمی ہے۔ تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا۔ جب اہل قلم ناخوب لکھنے میں خوشی اور خوب لکھنے میں عار اور شرمندگی محسوس کرنے لگیں تو حرف کی دیانت کا کیا سوال۔
وقت نظریں بھی پلٹ جاتا ہے اقدار کے ساتھ
دن بدلتے ہیں تو ہر عیب ہنر لگتا ہے
ویسے بھی حکومت کے سب نہ سہی، چند اقدامات ہی کو سراہا جائے تو بہت مشکلات آپڑتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومتوں کے لچھن بھی ایسے نہیں ہوتے کہ ان کی زیادہ ستائش کی جاسکے۔ بہت سی جگہوں پر دودھ میں مینگنیاں پڑی ہوں تو کس طرح اس کی تعریف کی جائے۔ مجھ کالم نگار کی تو خیر بساط ہی کیا ہے لیکن اس میدان کے نامور لوگ اگر حکومتی اقدامات کی تعریف کریں تو لکھنے والے پرلفافے یا فائدے کی تہمت لگانا سب سے آسان کام ہے۔ حکومت سے ڈرکر اس کی حمایت بھی ایک چلتا ہوا الزام ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایسے ہی ایک الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا‘ بعض اوقات قیدوبند کی نسبت عوام کی کالی جھنڈیوں کا سامنا زیادہ مشکل کام ہے۔ لیکن یہ خواص کی باتیں ہیں ہم لوگ اس درجے میں آتے ہی نہیں ہیں۔ بات البتہ یہ ضرور ہے کہ عوامی رجحان کے مخالف بات کرنا تیزوتند دھاروں کے خلاف تیرنا ہے‘ اور عوام کا غالب رجحان ہمیشہ حکومت مخالف ہوتا ہے۔
عمران خان صاحب کی ذاتی حیثیت کچھ بھی ہو، بطور وزیر اعظم وہ ہر اچھائی برائی کے ذمے دار ہیں۔ ان کی حکومتی ناکامیوں پر بہت بات ہوتی ہے اوربہت ہوسکتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ان حکومتی کامیابیوں کی تحسین کم کم ہوئی ہے جو ان کی حکومت کے حصے میں آئی ہیں اور جن میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی ناکامیوں اور خرابیوں پراس کالم میں بھی کئی بار بات کی گئی اورکھل کر تنقید بھی کی گئی۔ ریکارڈ مہنگائی اور روزمرہ کی قیمتوں پر کنٹرول نہ ہونے کا معاملہ توخیر حکومتی ناکامیوں میں سرِفہرست ہے جس کا دفاع کرنا بھی مشکل ہے۔ اقتدار سے قبل خان صاحب کے دعووں اور وعدوں کی بھی تاویلات کرنا آسان نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقتدار تک پہنچنے اورووٹ حاصل کرنے کے وہ طریقے ہیں جن میں خان صاحب اوردیگر سیاستدانوں کے ریکارڈ میں کوئی خاص فرق نہیں۔ ان چہروں کو ساتھ ملانے اور وزیر‘ مشیر بنا دینے پر بھی، جنہیں دیکھ دیکھ کراور سن سن کرکان پک گئے ہیں، اور جن کی ناقص کارکردگی پہلے بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی، شاید ہی کوئی خان صاحب سے خوش ہو۔ اپوزیشن کی طرف مسلسل منتقمانہ رویے کا ناپسندیدہ وتیرہ زوروشور سے چلا آرہا ہے جس کا ہنوز کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب اور اب تک کی کارکردگی ہو، منہ پھٹ ابن الوقت سیاستدانوں کو نوازنے کا عمل ہو، این آر او نہ دینے کی بیزار کن تکرار ہو، سینیٹ میں سیاسی جوڑ توڑ ہو یا وزیراعظم اور وفاقی وزرا کے عوامی معاملات اوربڑے اداروں کے بارے میں بعض غیرمحتاط بیانات‘ میں ہمیشہ ان پر کڑی تنقید کرتا رہا ہوں۔ کئی بیانات بہت تباہ کن ثابت ہوئے مثلاً وزیر ہوابازی کا پی آئی اے کے پائلٹس کے بارے میں غیر ضروری بیان جس نے اس تباہ حال ادارے کی کمرتوڑ کررکھ دی۔
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ حکومتی کارناموں کی بھی اچھی خاصی فہرست موجود ہے اور ان میں روزبروز اضافہ بھی ہورہا ہے۔ انصاف اور حق کا تقاضا یہی ہے کہ اس طرف سے آنکھیں بند نہ کی جائیں اور جو کام اچھے کیے گئے ہیں انہیں سراہا جائے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس خوفناک بلا جس کا نام کووڈ19 ہے، اور جس کا مقابلہ بڑی بڑی حکومتیں کرنے میں ناکام رہیں، کا خان صاحب نے بہت دانشمندی سے سامنا کیا اور زمینی حقائق ملحوظ رکھے۔ اس وائرس کے سامنے بہت مالدار ملکوں کی معیشتیں بھی بیٹھ گئیں تو پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ملک کی تو بساط ہی کیا تھی لیکن ممکنہ تمام وسائل بروئے کار لاکر، سمارٹ لاک ڈاؤن کا طریقہ اپناکر پاکستان کو بہت بڑی آفت سے محفوظ رکھا گیا۔ یہاں وہ تمام عوامل موجود تھے جو ہندوستان کی طرح گلیوں محلوں میں کہرام بپا کرسکتے تھے لیکن اگر اللہ نے اس سے بچالیا تواس کے فضل کے اسباب میں حکومتی فیصلے بھی شامل تھے حالانکہ اس زمانے میں بھی خان صاحب پر کڑی تنقید کی گئی لیکن اب یہ نظر آتا ہے کہ اس منجدھار سے کشتی نکل آئی تو اس میں ملاح کے فیصلوں کا بڑا دخل تھا۔ پاکستانی حکومت کے فیصلوں اور طریق کارکو بین الاقوامی طورپر بھی سراہا گیا جو قابل فخر بات ہے۔
ویکسین کووڈ کا واحد محفوظ راستہ ہے اس لیے ہرملک نے اس کا بندوبست کیا۔ پاکستان میں بھی بروقت اقدامات سے ویکسین ہرعلاقے میں دستیاب ہوئی اور ویکسین لگانے کا جو نظام بنایا گیا اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ایک ایسا نظام جس میں بہت کم مدت میں کروڑوں لوگوں تک ویکسین پہنچانی ہو اس میں عمرکی درجہ بندی بھی کرنی ہو، ویکسین کی افادیت بھی پیش نظررکھنی ہواور دوسرے معاملات بھی، تو ایسے میں اتنے اچھے انداز میں یہ کام کرنا قابل مبارکباد ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سابق حکومتوں کے سامنے یہ گمبھیر مسئلہ آیا ہوتا تووہ اسے ایسے مؤثرانداز میں مقابلہ نہ کرپاتیں اور معلوم نہیں اسے نمٹانے میں کتنے نئے مسائل کھڑے کردیتیں۔
معیشت‘ خاص طورپر پاکستانی معیشت ہردور میں حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ جب پی ٹی آئی نے باگ ڈور سنبھالی تولوگوں کو بہت توقعات تھیں کہ ان کا ہوم ورک بھی اچھا ہوگا اور ایک مضبوط ٹیم بھی ان کے پاس ہوگی جو اس گرداب سے کشتی نکال سکتی ہے۔ جلد ہی اندازہ ہونا شروع ہوگیا کہ ہوم ورک نہ ہونے کے برابر تھا اوراگر تھا تو مسائل کے مکمل ادراک کے بغیر تھا۔ ٹیم کے بارے میں بھی جلد ہی خوش فہمیاں ہوا ہونے لگیں۔ معاشی مسائل اتنے گمبھیر تھے کہ پی ٹی آئی کی ٹیم اس سے عہدہ برآنہ ہوسکتی تھی۔ حفیظ شیخ سمیت ان تمام ماہرین کی خدمات پھر حاصل کی گئیں جو اپنے اپنے جوہر سابقہ حکومتوں میں دکھا چکے تھے۔ خان صاحب کاکہنا ہے کہ جب نون لیگ نے اقتدار چھوڑا تو ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے تھا‘ ڈالرکو مصنوعی تنفس کے ذریعے نچلی سطح پرزندہ رکھا گیا تھا، ورنہ آزاد چھوڑ دیا جاتا تو لوگوں کو درست صورتحال کا پتہ چل جاتا۔ معاشی صورتحال کا یہ آئینہ درست لگتا ہے۔ صرف نون لیگ کو بدنام کرنے کیلئے نہیں اس لیے کہ اگر معیشت واقعی ایسی نازک کنار ے پر کھڑی نہ ہوتی تو دوست ممالک یا آئی ایم ایف کی طرف رجوع کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ جن کے خلاف خان صاحب کے اپنے متعدد بیانات موجود تھے بلکہ دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے جن دوست ممالک کی طرف رجوع کیا گیا، ان کی اپنی پالیسیاں تھیں۔ ان کی پالیسیوں سے اختلاف کرنا عملاً ممکن نہیں تھا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنا ہی ایک مشکل کام ثابت ہوا۔ اس کیلئے جو شرائط مانی گئیں وہ بہت کڑی تھیں‘ چنانچہ ان کے نتیجے میں ایک عام آدمی پربجلی، گیس وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کی صورت میں وہ بوجھ پڑ گیا جس نے پی ٹی آئی کی شہرت کو شدید نقصان پہنچایا۔ (جاری)