چند روز پہلے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا ''ان کی حکومت صرف بڑے ڈاکوئوں پر ہاتھ ڈالے گی کیونکہ جب بڑے ڈاکو پکڑے جائیں گے تو چھوٹے ڈاکو خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے‘‘۔ وزیراعظم اس تقریر میں دراصل ملک میں بڑے مافیاز کا ذکر کر رہے تھے جن کی جڑیں ملک کے ہر شہر‘ ہر قصبے اور ہر علاقے میں پیوست ہیں اور خودرو جڑی بوٹیوں کی طرح یہ بڑھتے اور پھیلتے ہی جا رہے ہیں۔ مگر نجانے وزیراعظم کے خطاب کا کیا مقصد سمجھا گیا کہ اس اعلان کے بعد پنجاب سمیت ملک بھر میں پولیس، بجلی کمپنیوں، زراعت، تعلیم، سٹی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز، گیس کمپنیوں، بلدیاتی اداروں، ایکسائز، انہار، پٹوار خانوں سمیت ہر چھوٹے بڑے محکمے کے گریڈ پانچ سے اٹھارہ تک کے ملازمین تلواریں سونت کر میدان میں کود پڑے اور پھر اس ملک کے ہر سائل اور سرکاری محکمے کے قریب سے بھی گزرنے والے افراد کو بے دریغ نشانہ بنانا شروع ہو گئے۔ ہمارے علا قے کا پٹواری اپنے پاس فرد لینے کیلئے آنے والے ہر سائل کے سامنے پہلے وزیراعظم، موجودہ حکومت اور احتساب کے نعرے کو برا بھلا کہتا ہے اور پھر دس ہزار سے کم رشوت نہیں لیتا کیونکہ اس کے بقول ''اب تبدیلی کی وجہ سے ریٹ بڑھ چکا ہے‘‘۔ یہ وہ جملہ ہے کہ جس کی آڑ میں ہر ناجائز کام کو جائز سمجھ لیا گیا ہے۔ ہر چیز کے ریٹ اسی آڑ میں بڑھائے گئے ہیں، ہر کوئی اپنی غلطی، اپنی کرپشن، اپنی ناجائز منافع خوری کا الزام حکومت کے سر دھرتا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ قیمت وصول کرنے لگتا ہے۔ لاہور کے ایک نواحی شہر کے ایک پولیس تھانے میں چند ڈاکو پکڑے گئے‘ ان میں سے چار ڈاکوئوں کی رہائی کیلئے ان کے وارثان جب تھانے گئے تو حکم ہوا کہ چار لاکھ کا بندوبست کرو۔ پیسے ملتے ہی ڈاکو جیسے ڈرائی کلین ہو گئے ہوں۔ یہ صرف ایک شہر کے ایک تھانے کی بات نہیں ہے۔ قبضہ گروپوں کے جتنے بھی معاملات حالیہ دنوں میں سامنے آئے‘ خواہ وہ وزیراعظم کو فون کال کرنے والی خاتون کا معاملہ ہو یا وفات پا جانے والے پروفیسر کے گھر کا قبضہ‘ ان تمام کیسز میں مقامی پولیس اہلکاروں کی ملی بھگت کے واضح شواہد سامنے آئے۔ صرف پنجاب ہی نہیں‘ سندھ پولیس کے معاملات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ حیدر آباد میں تعینات رہے ایک نیک نام ایس ایس پی کی رپورٹ میں صریحاً لکھا ہوا ہے کہ پورے ڈویژن کی پولیس خود جرائم کراتی ہے‘ تمام جرائم کے اڈے ان کے اپنے لوگ چلاتے ہیں جہاں اکثر پولیس ملازمین بے دھڑک بیٹھتے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ سے پنجاب میں داخل ہونے والے کنٹینروں، ٹرکوں اور ہر قسم کی ٹریفک گزارنے والے سندھ کی آخری چوکی کی ماہانہ آمدنی سے متعلق ایک سابق پولیس افسر کا کہنا تھا کہ یہ کسی بھی طور ایک کروڑ سے کم نہیں ہے اور بعض لوگ تو ایسی کہانیاں بھی سناتے ہیں کہ مال بنانے والے علاقوں میں تعیناتی کے لیے با قاعدہ بولیاں لگتی ہیں۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ پنجاب بھر میں بعض مارکیٹ کمیٹیوں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین صوبے کا بچا کھچا سرمایہ نوچنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی اداروں پر مقرر کئے گئے بعض ایڈمنسٹریٹرز بدعنوانی کے نئے تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ تھانے رشوت کی منڈی بن چکے ہیں۔کسی بھی بلڈنگ کا نقشہ پاس کرانے والوں کو جس طرح خزانے کا منہ کھولنا پڑتا ہے‘ یہ وہی جان سکتے ہیں جن کا ان سے ''وا‘‘ پڑتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا سارا زور بڑے ڈاکوئوں کی طرف ہے‘ ان سے گزارش ہے کہ بڑے ڈاکوئوں کو چھوڑیں‘ خدا جانے وہ پکڑے بھی جاتے ہیں یا نہیں‘ اس لئے جو دو سال آپ کی حکومت کے باقی ہیں‘ ان میں چھوٹے ڈاکوئوں کو پکڑیے‘ ان کو بری طرح رگڑیے جنہوں نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ اگر اگلا الیکشن جیتنے کی تمنا ہے تو پٹواری، تھانے، مارکیٹ کمیٹیاں، بلدیاتی ادارے، بجلی و گیس کی کمپنیاں، کسٹم، امیگریشن‘ سب کو ٹھیک کیجیے۔ لوگ مہنگائی کو بھول کر آپ کی کامیابی کے گن گانے لگیں گے۔ اس وقت ہمارا جو سسٹم ہے‘ وہ ایماندار، سیدھے، سچے اور کھرے بندے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور اسے ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ایک اوور سیز پاکستانی کا دماغ نجانے کیوں خراب ہوا کہ وہ اپنی بیس سالہ سروس کا تمام جمع کردہ سرمایہ لے کر پاکستان آ گیا اور اپنے آبائی علا قے پپلاں چلا گیا جو وزیراعظم کا آبائی ضلع بھی ہے۔ اس نے سوچا کیوں نہ یہاں کے بیک ورڈ علا قے میں جدید طرز کا کالج کھولا جائے۔ اس نے ایک بہترین عمارت کھڑی کر دی لیکن پہلے کورونا کی وجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار ہوتا رہا، پھر چھ ماہ متعلقہ تعلیمی ہیڈ نے اس کو ایسے ناکوں چنے چبوائے کہ اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ وہ توبہ توبہ کرتے ہوئے کالج کی عمارت، دس ہزار سے زائد کتابوں، لیبارٹری کا دبئی اور ہانگ کانگ سے درآمد کیا گیا جدید سامان بیچنے کیلئے بازار سجا کر بیٹھ گیا۔ کاش کہ پنجاب کے وزیر تعلیم یا اینٹی کرپشن کا کوئی بندہ اس معاملے کا نوٹس لے۔
سرکاری محکموں میں گریڈ پانچ سے اوپر تک کے اکثر و بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان جیسا بااختیار اور طاقتور کوئی اور ہے ہی نہیں، اس طرح کے لوگ حاصل کردہ دنیاوی مراعات اور جاہ و حشمت کے نشے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور دولتمند افراد، قبیلے اور قومیں بھی اس دنیا میں آباد رہی ہیں اور جن کا آج کہیں نام و نشان تک بھی باقی نہیں۔ اگر ان کے کچھ آثار باقی ہیں تو فقط نشانِ عبرت کیلئے ہیں۔ رشوت خور اور بد دیانت اہلکاروں کو پتا ہونا چاہیے کہ جزیرۃ العرب کے علاقوں میں آباد ایک ایسی قوم بھی گزری ہے جسے آج ہم قوم عاد کے نام سے جانتے ہیں۔ اس قوم میں بھی دنیاوی مفادات حاصل کرنے والوں جیسا تکبر اور غرور بھرا ہوا تھا۔ قرآن پاک میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (مفہوم):تم اپنے محل اور یادگاریں اتنی محنت اور بے تحاشا دولت خرچ کر کے تعمیر کر رہے ہو‘ جیسے تمہیں ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے اور تم اسی طرح حکمرانی کرتے رہو گے۔ اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو ظالمانہ انداز میں پکڑتے ہو۔ (سورۃ الشعراء، آیات 128 تا 130) یہ آیات سرکاری محکموں کے کرپٹ اہلکاروں کیلئے بھی وارننگ ہیں جنہوں نے غریبوں کے خون نچوڑ کر اپنے لیے کوٹھیوں، محلات اور گاڑیوں کی قطاریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ 1968ء میں اٹلی کے آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے برسوں کی کھدائی کے بعد اڑھائی ہزار سال قبل مسیح کی وہ بستیاں دریافت کیں جو دمشق سے 250 میل شمال اور حلب کے چالیس میل جنوب میں ایبلا نام کے شہر میں آباد تھیں۔ اس جگہ سے عاد اور ثمود کی قوموں کے افراد کی کھوپڑیوں اور ہڈیوں کا ایک انبار برآمد ہوا اور یہ انبار ان محلات کی کھدائیوں سے برآمد ہوئے جن میں عیش و عشرت میں بدمست لوگ رہا کرتے تھے۔ وہ لوگ جو اقتدار اور رتبے کی بنا پر لوگوں پر ظلم و ستم کرتے تھے۔ قرآن پاک میں ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں انہیں زمین سے نکال کر دنیا کے سامنے رکھ دیتا ہوں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔
یہ خدا کا فرمان ہے کہ وہ انسانوں کو دکھاتا رہے گا تاکہ انسان کو یاد آتا رہے کہ سدا حکمرانی صرف اللہ واحد القہار ہی کی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال فرعونِ مصر کی ایک لاش کا ملنا ہے جو حنوط کی ہوئی تھی اور اب مصر کے عجائب گھر میں ہے۔ تین ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی خدا نے اس کی لاش کو دنیا والوں کے لیے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ قران پاک کی سورۃ الاحقاف کی آیت 26 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ''انہیں ہم نے کان، آنکھیں اور دل دیے تھے، اور جب وہ اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے تھے تو نہ تو ان کے کان ہی ان کے کچھ کام آ سکے، نہ آنکھیں نہ دل۔ اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے‘ اس (عذابِ الٰہی) نے ان کو آ گھیرا۔
آج زندگی کے ہر شعبے میں ایک انسان دوسرے کو بھنبھوڑ رہا ہے۔ سب ایک طرح سے ایک دوسرے کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ کسی کو دوسرے انسان سے ہمدردی نہیں ہے۔ تمدنی اور معاشرتی زندگی حیوانی زندگی بن کر رہ گئی ہے جیسے گدھا‘ گائے‘ بھینس یا گھوڑا ہو‘ کہ انہیں اگر گھاس مل رہی ہے اور ہزاروں جانور ان کے سامنے بھوک سے مر رہے ہیں تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا پیٹ تو بھرا ہوا ہے اور انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے ساتھ والا جانور کب سے بھوکا ہے۔