معیشت چلانے کے لیے سرمایہ کاروں کے تحفظ کا احساس ضروری ہے۔ جب آپ کو یقین ہو گا کہ میرا مال اور صحت اس ملک میں محفوظ رہیں گے، تب ہی آپ سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ کسی بھی ملک کے لیے اس وقت کورونا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس سے بچائو کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے کاوشیں حوصلہ افزا ہیں۔ وفاقی حکومت نے دس ملین چینی کورونا ویکسین خریدنے کی اجازت دے دی ہے اور اس کے لیے ایک سو تیس ملین ڈالر (لگ بھگ بیس ارب روپے) کا بجٹ منظور کیا ہے لیکن اس مرتبہ ذمہ داری وزارتِ صحت سے لے کر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو دے دی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق ایک ویکسین تیرہ ڈالر (لگ بھگ دو ہزار روپے) کی آئے گی۔ ایک شخص کو دو مرتبہ ویکسین لگائی جاتی ہے اس حساب سے سے فی کس چار ہزار روپے خرچ آئے گا۔ جون کے مہینے میں ویکسین خریدی جائے گی اور پھر ضرورت کے مطابق مزید ویکسین کی خریداری کے لیے اگلے بجٹ میں دوبارہ غور کیا جائے گا۔ این ڈی ایم اے نے جون سے دسمبر تک کے لیے پانچ سو ملین ڈالرز مانگے تھے لیکن وزارتِ خزانہ نے ایک سو تیس ملین کی منظوری دی۔ وزارتِ خزانہ نے زور دیا ہے کہ ویکسین کی خریداری کے لیے بجٹ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ اس کے لیے بھی قرض لے لیا جائے۔ اس حوالے سے بین الاقومی مالیاتی اداروں سے رابطہ کرنے کی آپشن پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
یہ اب کوئی اچنبھے کی بات نہیں لگتی۔ ہمارے ہاں ہر کام قرض لے کر کرنے کا رواج ہے بلکہ جو کام اپنے پیسوں سے بہ آسانی ہو سکتا ہے اس کے لیے بھی قرض لینے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر کمرشل بنیادوں پر دیکھا جائے تو کسی بھی کاروبار میں قرض اس وقت لیا جاتا ہے جب سرمایہ کاری پر اچھا منافع مل رہا ہو۔ ایسی صورت میں کاروبار میں سے پیسہ نکالنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر کاروباری سرمایے پر منافع بیس فیصد آ رہا ہو اور قرض گیارہ فیصد پر مل رہا ہو تو کاروبار میں سے پیسہ نکال کر کوئی کام کرنا نو فیصد کے خالص نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت پاکستان کو سرمایے پر قرض کے سود سے زیادہ منافع مل رہا ہے جو بجٹ پر انحصار کرنے کے بجائے مزید قرض لینے کی تلقین کی جا رہی ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ہر کام کے لیے قرض پر انحصار کرنے کی بدولت ہی آج صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ واجب الادا قرض پارلیمنٹ کی طے کردہ حد سے بڑھ چکا ہے۔ماہرینِ معیشت نے خبر دار کیا ہے کہ اگر کم ترین شرحِ سود پر بھی قرض مل رہا ہو تو حکومتِ پاکستان کو انکار کر دینا چاہیے کیونکہ پچھلے قرض اتارنے کے لیے آمدن میں اضافہ نہیں ہو رہا اورنئے قرض لے کر پرانے قرض ادا کیے جا رہے ہیں۔محسوس لیکن یہ ہوتا ہے کہ حکومت اس ایشو کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہیں اور کورونا کے لیے مزید قرض کے راستے ہموار کیے جا رہے ہیں۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 253 ملین ڈالر قرض دینے کا عندیہ دیا ہے۔یاد رہے کہ ورلڈ بینک پچھلے ماہ Pandemic Response Effectiveness Project کے تحت ایک سو تریپن ملین ڈالر منظور کر چکا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک مبینہ طور پر پانچ جون تک 100 ملین ڈالر قرض کی منظوری دے گا۔ اس کے علاوہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک نے 470 ملین ڈالر قرض کا وعدہ کر رکھا ہے۔
ماضی میں منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز اینڈ ریگولیشن کو ایک سو پچاس ملین ڈالر کا فنڈ جاری کیا گیا تھا۔ افواہیں زیرِ گردش ہیں کہ شاید وزارتِ صحت کو دیے گئے فنڈ میں کوئی ہیر پھیر ہواہے جس کی وجہ سے ذمہ داریاں این ڈی ایم اے کو منتقل کی گئی ہیں؛ البتہ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ حکومت این ڈی ایم اے کو مستقبل میں ویکسین کی خریداری میں ماہر ایجنسی بنانا چاہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ سمری بھی وزارتِ صحت کے بجائے این ڈے ایم اے نے پیش کی ہے۔ این سی سی نے اجلاس میں باقاعدہ منظوری دے دی ہے اور دسمبر 2021ء تک ستر ملین عوام کے لیے ویکسین خریدنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جس کا خرچ تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔ این سی او سی کے منصوبے کے مطابق ستر ملین لوگوں کے لیے ایک سو بائیس ملین ویکسینز خریدی جائیں گے جن میں سے پندرہ لاکھ ویکسینز کو ایمرجنسی استعمال کے لیے محفوظ کیا جائے گا۔
اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی ویکسین خریدی جا رہی ہے۔ پاکستانی عوام بھی اس حوالے سے شش و پنج کا شکار ہیں کہ کس کمپنی کی ویکسین لگوائی جائے۔ وزارتِ صحت کے مطابق‘ اس وقت صرف چینی ویکسین کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے منظور کیا ہے۔ باقی تمام ویکسینز ابھی منظوری کے مراحل میں ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ تمام چینی ویکسینز منظور نہیں ہوئی ہیں۔ صرف سائنو فارم کو سرٹیفکیٹ حاصل ہوا ہے۔ حکومتِ پاکستان اس وقت بیس ملین کینسینو، ایک سو ایک ملین سائنو فارم اور سائنو ویک ویکسین منگوا رہی ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی صرف چینی ویکسین کی خریداری کے لیے قرض دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کے ساتھ تین شرائط بھی واضح کی گئی ہیں۔ ویکسین کا انتخاب گاوی فنڈز کوویکس پروگرام کے تحت کیا جائے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اس کی منظوری دے اور یورپین ریگولیٹری اتھارٹی اس کی تصدیق کرے۔
پاکستان میں کورونا ویکسین کو عام آدمی تک پہنچانے کے لیے برق رفتاری سے کام ہوا ہے جسے سراہے جانے کی ضرورت ہے۔ تقریباً تین ماہ میں ساٹھ سال سے تیس سال تک کے لوگوں کے لیے ویکسین کی مفت، بہ آسانی اور باعزت دستیابی اچھا قدم ہے۔ عمومی طور پر عوام کو سرکاری نظام سے شکایت ہی رہتی ہے لیکن کورونا ویکسین میں ہمیں یہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ این سی او سی کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ 80 دنوں میں 19 لاکھ 85 ہزار لوگوں کو مکمل اور 34 لاکھ 94 ہزار 64 لوگوں کو ایک ڈوز لگائی جا چکی ہے۔ تقریباً 73 لاکھ سے زیادہ کورونا ویکسین استعمال کی جا چکی ہے۔ اب اٹھارہ سال تک کے نوجوانوں کو بھی رجسٹریشن کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ یورپ اور سعودی عرب نے نئی شرائط سامنے رکھ دی ہیں جس سے مذکورہ بالا ویکسینز کی مزید خریداری تعطل کا شکار ہو سکتی ہے۔
یورپی یونین نے مبینہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ یورپ میں داخلے کے لیے چینی، روسی اور بھارتی ویکسین قبول نہیں کی جائے گی۔جن لوگوں نے یورپین میڈیکل ایجنسی سے تصدیق شدہ چار ویکسینز میں سے کوئی ایک لگوائی ہو گی اور اس کا سرٹیفکیٹ موجود ہو گا‘ وہی یورپ اور سعودی عرب میں داخل ہو سکے گا۔ جن ویکسین کی ان اداروں کی جانب سے منظوری دی گئی ہے ان میں آسٹرا زینیکا، پی فائزر، موڈریانا اور جانسن اینڈ جانسن شامل ہیں۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب چینی ویکسین دنیا کے ساٹھ ممالک میں استعمال جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین کے علاوہ پوری دنیا میں 115 ملین چینی ویکسینز لگائی جا چکی ہے۔ صرف چین میں 243 ملین لوگوں کو یہ ویکسین لگائی جا چکی ہے جو مکمل صحت مند زندگی گزار رہے ہیں اور اس کے سائیڈ افیکٹس بھی سامنے نہیں آ رہے۔ پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ سعودی عرب کی طرف سے یہ اعلان ہے کیونکہ حج بھی قریب آ رہا ہے اور نوے فیصد پاکستانی عوام کو چینی ویکسین لگائی جا رہی ہے جس پر اربوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہر سال سعودی عرب جاتی ہے تو کیا انہیں دوبارہ ویکسین لگوانا ہو گی؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو بجٹ پر مزید بوجھ پڑ سکتا ہے اور دوسری طرف لوگوں کی صحت کے مسائل بھی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ایک تو ویکسین قلیل مدت میں تیار ہوئی ہے، مطلوبہ ٹیسٹ ٹرائل بھی نہیں ہو سکے اور اب ڈبل ڈوز صحت کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہے اس بارے میں عوامی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب سے اس معاملے پر نظرِ ثانی کی درخواست کر رکھی ہے، امید ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔