تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-06-2021

ریل کی سیٹی… (آخری حصہ)

ضوریز نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نے کبھی ٹرین میں سفر کیا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ میری یادداشت میں ریل گاڑی کا جو پہلا سفر محفوظ ہے وہ ملتان سے کراچی تک کا سفر تھا‘ جو میں نے ابا جی کے ہمراہ کیا تھا۔ پھر انہیں سمہ سٹہ ریلوے سٹیشن کا واقعہ سنایا۔ جب گاڑی رات کو سمہ سٹہ سٹیشن پر رکی تو پلیٹ فارم پر بھاگ دوڑ مچی ہوئی تھی۔ ہر طرف مختلف کھانے پینے کی اشیا بیچنے والوں کی آوازیں تھیں۔ سردی کا موسم تھا۔ ابا جی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ابلے ہوئے انڈے کھائوں گا؟ بچپن میں ابلے ہوئے انڈے میری پسندیدہ کھانے کی چیزوں میں سے ایک تھے۔ ایک بار سردیوں میں مرحوم ماسٹر ظہورالحق شیخ نے میری خاکی پینٹ کی پھولی ہوئی جیب دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میں خاموش رہا تو انہوں نے کہا: جیب میں جو کچھ ٹھونس رکھا ہے باہر نکالو۔ میں نے باہر نکالا تو وہ دو عدد ابلے ہوئے انڈے تھے جو میں ''آدھی چھٹی‘‘ میں کھانے کے لیے گھر سے لایا تھا۔ تب ہم اسے بریک یا Recess نہیں، بلکہ ''آدھی چھٹی‘‘ کہتے تھے۔ بعد میں ساری کلاس میرا مذاق اڑاتی رہی۔
ابا جی نے اُبلے انڈوں کا پوچھا اور میں نے فوراً ہاں کر دی۔ ابا جی گاڑی سے نیچے اترے تاکہ میرے لیے ابلے ہوئے انڈے لے آئیں۔ میں کھڑکی سے جڑ کر بیٹھ گیا۔ اسی دوران ایک مسافر آیا اور ہماری سیٹ کے دوسرے سرے پر بیٹھ گیا۔ میں نے اسے کہاکہ یہ ہماری سیٹ ہے اور ہم کراچی جا رہے ہیں۔ آگے سے اس نے ازراہ مذاق (یہ مجھے بعد میں بتایا گیاکہ وہ شخص محض مذاق کررہا تھا) یہ کہہ دیا کہ یہ میری نہیں بلکہ اس کی سیٹ ہے اور میں اس کی سیٹ پر غلط قبضہ کرکے بیٹھا ہوا ہوں۔ پھر وہ ہنس کر کہنے لگاکہ وہ ابھی ٹی ٹی کوکہہ کر یہ سیٹ مجھ سے خالی کروالے گا۔ میں نے آئو دیکھا نہ تائو، کھڑکی کے پاس سے اُٹھ کر دو قدم کی دوڑ لگائی اور سیٹ کے دوسرے سرے پر بیٹھے ہوئے اس مسافر کی ناک پر ٹکر مار دی۔ شاید میرا سر زور سے ٹکرایا یا کوئی اور وجہ تھی‘ اس مسافر کی ناک سے خون ٹپکنے لگا۔ میں نے خون دیکھا تو بہت ڈرگیا۔ ضوریز نے پوچھاکہ میں کیوں ڈر گیا تھا؟ میں نے اسے بتایا: مجھے لگا کہ اب مجھے پولیس پکڑ کرلے جائے گی، تاہم میری اس بے ساختہ حرکت پر اردگرد بیٹھے لوگ لطف لینے لگ گئے۔ میں نے رونا شروع کردیا۔ اتنی دیر میں ابا جی آئے تو مجھے روتا دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ ان کا خیال تھاکہ میں شاید ان کے باہر جانے کی وجہ سے گھبرا کر رورہا ہوں تاہم اسی دوران اس مضروب مسافر نے‘ جو اپنی ناک دبائے بیٹھا تھا‘ اباجی کو ہنس ہنس کر میری حرکت کے بارے میں بتایا۔ قصے کا اختتام بخیروخوبی سن کر وہ دونوں بھی ہنستے ہنستے بے حال ہو گئے۔ پھر سیفان کہنے لگاکہ میں اسے کوئی اور واقعہ سنائوں۔ میں نے کہا: اب رات کافی ہو گئی ہے سوجاؤ، صبح تم نے سکول جانا ہے‘ کل رات جب ریل گاڑی سیٹی مارے گی پھر میں تمہیں کوئی اور واقعہ سنائوں گا۔
امریکہ میں کوئی شفقت محمود نہیں ہیں‘ اس لیے وہاں ہر طرح اور ہر درجے کے سکول کھلے ہوئے ہیں۔ سیفان اور ضوریز ابھی پری سکول میں ہیں۔ درمیان میں کچھ عرصہ وہ آن لائن پڑھتے رہے‘ لیکن اب گزشتہ کئی ماہ سے روزانہ سکول جاتے ہیں۔ ان کے گھر کے عقب میں سیکنڈری سکول ہے۔ روزانہ صبح جب سیفان اور ضوریز سکول جاتے تھے تو ابھی یہ سکول لگا نہیں ہوتا تھا، اور جب وہ واپس آتے تھے یہ سکول بند ہو چکا ہوتا تھا، لہٰذا انہوں نے گزشتہ کئی ماہ سے کھلے ہوئے اس سکول کو آپریشنل حالت میں نہیں دیکھا تھا۔ عید والے دن ان کا اسلامی سکول بند تھا، لہٰذا جب صبح وہ عید کی نماز کیلئے تیار ہو کر نیچے لائونج میں آئے تو کھڑکی کے شیشے سے بہت سے بچوں کو دیکھ کر حیرانی سے ضوریز کی تو آنکھیں پھٹ گئیں۔ مجھے زور سے آواز دے کر بتانے لگا کہ وہاں بہت سے بچے کھیل رہے ہیں۔ میں نے ازراہ تفنن اس سے پوچھا کہ یہ کتنے بچے ہیں۔ وہ اسی جوش و خروش سے کہنے لگا: بڑے بابا! ون ملین چلڈرن۔
امریکہ میں کورونا کی صورتحال شاید دنیا میں سب سے خراب تھی، لیکن اب آہستہ آہستہ کافی بہتر ہوتی جا رہی ہے اور روزانہ نئے مریضوں کی تعداد پہلے کی نسبت بہت کم ہو گئی ہے اور مرنے والوں کی شرح بھی پہلے کی نسبت بہت کم ہے۔ امریکہ میں کورونا وائرس کے باعث ہونے والی کل اموات کی تعداد 5 لاکھ 95 ہزار ہے جو دنیا بھر میں کسی ایک ملک میں مرنے والوں کی بلند ترین تعداد ہے۔ 7 مئی 2020ء کو کافی زیادہ اموات ہوئیں، یہ تعداد 2769 تھی۔ پھر مورخہ 9 دسمبر 2020ء کو یہ تعداد بڑھ کر 3054 تک جا پہنچی اور 4 فروری 2021ء کو امریکہ میں کورونا کے باعث مرنے والوں کے حساب سے بدترین دن تھا جب 5077 لوگ موت کے منہ میں گئے۔ یہ شرح اب کم ہو کر اوسطاً 610 لوگ روزانہ پر پہنچ چکی ہے اور اس کا سارا کریڈٹ عوام کی طرف سے ایس او پیز کی پابندی اور سرکار کی طرف سے ویکسین کی زوردار مہم کو جاتا ہے۔
اب مارکیٹیں کھلی ہوئی ہیں۔ بازاروں میں خریدار ہیں۔ ہوٹل کھل گئے ہیں۔ ریسٹورنٹس کے اندر بیٹھ کر کھانے کی سہولت بھی آہستہ آہستہ بحال ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں یہ سہولت ہے وہاں زیادہ سے زیادہ پچاس فیصد گاہکوں کو بیٹھنے کی اجازت ہے اور کوئی دو نمبری نہیں ہو رہی۔ ماسک لگانے والوں کی شرح نوے فیصد سے زائد ہو گی۔ سماجی فاصلے اور ہینڈ سینیٹائزر کی ہر بڑے سٹور میں کافی حد تک پابندی ہو رہی ہے۔ اب تک امریکہ کے ساڑھے تیرہ کروڑ سے زائد افراد کو ویکسین کی دو ڈوزز دی جا چکی ہیں یعنی کل امریکی آبادی کا تقریباً اکتالیس فیصد مکمل ویکسی نیشن کروا چکا ہے۔ اس میں اٹھارہ سال سے زائد عمر والوں کی شرح پچاس فیصد سے زائد ہے، جبکہ کل امریکی آبادی کا نصف سے زائد ویکسین کی ایک ڈوز لگوا چکا ہے۔ ہوائی اڈے کھلے ہوئے ہیں۔ صرف ایئرلائنز بین الاقوامی مسافروں سے کورونا کا نیگیٹو سرٹیفکیٹ طلب کرتی ہیں تاہم امریکہ آنے والوں پر نہ کوئی ایسی پابندی ہے اور نہ ہی کوئی قرنطینہ وغیرہ کی پابندی ہے۔ جہاز سے اتریں اور گھر چلے جائیں۔
رات میرے دائیں طرف لیٹے ہوئے سیفان نے ریل کی سیٹی سنی تو کہنے لگا: بڑے بابا! ٹرین کے سفر کا کوئی ''فَنی‘‘ سا واقعہ سنائیں۔ میں نے اسے بتایا کہ میں ایک بار ملتان سے کراچی جا رہا تھا کہ رات کو ٹرین ایک جگہ رکی۔ یہ کوئی سٹیشن تھا، میری آنکھ کھلی اور میں دو چار منٹ بعد پھر سو گیا۔ پھر کسی سٹیشن پر آنکھ کھلی۔ میں نے پلیٹ فارم پر ہلچل دیکھی اور پھر دوبارہ سو گیا۔ تیسری بار آنکھ کھلی تو اتفاقاً گاڑی پھر کسی سٹیشن پر رکی ہوئی تھی۔ میں نے اوپر والی برتھ سے نیچے والے سے پوچھا کہ یہ کون سا سٹیشن ہے؟ وہ کہنے لگا: بھائی صاحب! گاڑی پچھلے چار گھنٹے سے روہڑی کھڑی ہے اور آپ خراٹے لیتے سو رہے ہیں۔ بچے ہنسنے لگ گئے اور کہنے لگے: ویری فنی اینڈ سیڈ ٹو (بہت مزاحیہ اور افسوسناک بھی)۔
کل ان کے ساتھ آخری رات تھی۔ دونوں تقریباً سو چکے تھے کہ اچانک ریل کی سیٹی بجی، سیفان ایک دم جاگ گیا۔ اس نے سر اٹھایا اور مجھ سے پوچھا: بڑے بابا! آپ جاگ رہے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں! جاگ رہا ہوں‘ کیا بات ہے؟ کہنے لگا: اگلی بار آپ آئیں گے تو ہم ٹرین پر سفر کریں گے۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اس نے کہا: وعدہ؟ میں نے کہا: وعدہ۔ اس نے اپنا بازو میرے گلے میں حمائل کیا اور ایک منٹ میں سو گیا۔ رات گئے ریل کی سیٹی سے میری آنکھ کھلی، سیفان کا بازو ابھی تک میرے گلے سے لپٹا ہوا تھا۔ میں نے آہستگی سے اسے علیحدہ کیا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved