تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     05-06-2021

جھوٹے وعدے اور سچی رپورٹیں

دنیا کی حالتِ زار کے بارے ہر سال درجنوں رپورٹس آتی ہیں۔ یہ رپورٹس عالمی اداروں‘ تنظیموں اور فورمز کی طرف سے ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ادارے یا تنظیمیں آزاد اور خود مختار ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی آمدن کے خود مختار ذرائع ہیں۔ وہ اپنے معاملات چلانے کے لیے سرکاری فنڈنگ کے بجائے اپنے وسائل پر بھروسا کرتے ہیں۔ اپنے وسائل سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ان کو ایسے افراد یا اداروں سے مالی مدد ملتی ہے جو سرکاری اثر و رسوخ سے آزاد ہوتے ہیں۔ اس طرح کے اداروں کی طرف سے آنے والی رپورٹس پر عموماً بھروسا کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ان کی ایک ساکھ ہے۔ اس کے برعکس سرکاری فنڈنگ پر چلنے والے اداروں پر اس طرح اعتبار نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کے بارے میں لوگوں کی رائے ہوتی ہے کہ ان اداروں کو سرکار اپنے عالمی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ان اداروں اور تنظیموں میں کچھ معروف ادارے اور تنظیمیں شامل ہیں‘ جن کو امریکہ اور یورپ میں حکومتوں کی طرف سے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ یہ ادارے زیادہ تر بنیادی انسانی حقوق‘ جمہوریت‘ کرپشن اور اس طرح کے دوسرے عوامی دلچسپی کے موضوعات پر رپورٹس مرتب کرتے ہیں۔ جانب داری کے ان الزامات کے باوجود یہ رپورٹس محققین اور طلبا کے لیے مفید ہوتی ہیں کیونکہ ان میں اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں‘ جن میں غلط بیانی یا جانب داری مشکل ہوتی ہے۔ اعداد و شمار سے استفادہ کرتے ہوئے رپورٹس کے دوسرے حصے‘ جو آرا پر مشتمل ہوتے ہیں‘ کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے یا ان کو محتاط طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دوسرے ممالک کی طرح ہر سال پاکستان سے متعلق بھی ایسی رپورٹس منظر عام پر آتی ہیں جن کو بڑے پیمانے پر مسترد یا نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی زیادہ تر وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس قسم کی رپورٹس حکومتِ وقت کے دعووں‘ وعدوں اور خیالات سے متصادم ہوتی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ہر نئے حکمران کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ اس کے دور میں ہر چیز پہلے سے کئی گنا بہتر ہے۔ میڈیا کو تاریخ میں سب سے زیادہ آزادی میسر ہے‘ انسانی حقوق کا وہ احترام ہے کہ پوری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ معاشی ترقی بے مثال ہے‘ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے‘ مہنگائی کم ہوئی ہے گویا راوی صرف چین ہی چین لکھتا ہے۔ حالانکہ یہ ایسے حقائق ہوتے ہیں جن پر عوام کو کسی رپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کی روزمرہ کی زندگی کا ان حقائق سے گہرا اور براہ راست تعلق ہوتا ہے؛ چنانچہ وہ اربابِ اختیار کے دعووں کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں‘ اس کے باوجود اربابِ اختیار کے ایسے دعووں کی گونج میں جب کوئی عالمی رپورٹ آ جائے جو یہ بتائے کہ ملک میں جمہوریت کا معیار گر گیا ہے‘ انسانی حقوق کی حالت اچھی نہیں یا کرپشن پہلے سے بڑھ گئی ہے تو حکمران اس رپورٹ کو اپنے خلاف حزب مخالف یا کسی بیرونی دشمن کی سازش سمجھتے ہیں اور ان رپورٹس کو بے بنیاد اور نا پسندیدہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ نا پسندیدہ قرار دیے جانے کے بعد یہ رپورٹس عام دھارے کے میڈیا پر بھی وہ جگہ پانے میں ناکام رہتی ہیں‘ جو عام حالات میں ان کو اپنی اہمیت کے پیش نظر ملنی چاہیے۔ یہ رپورٹس انگریزی میڈیا میں چھوٹی موٹی جگہ پاتی ہیں جن کو بہت ہی محدود پیمانے پر پڑھا جاتا ہے لیکن مقامی اور عوامی میڈیا ان کو عموماً نظر انداز کر دیتا ہے۔
ہم ہر سال زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں اس طرح کی کوئی عالمی رپورٹ دیکھتے ہیں‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے منظر عام سے غائب ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ سال اس طرح کی ایک رپورٹ قانون کی حکمرانی یعنی ''رول آف لاء‘‘ پر آئی تھی۔ اس رپورٹ میں 128 ملکوں میں پاکستان کو 120واں نمبر دیا گیا تھا یعنی دنیا میں صرف آٹھ ملک ایسے تھے جن میں قانون کی حکمرانی کی حالت پاکستان سے بری تھی اور 119 ملکوں میں قانون کی حکمرانی کی حالت پاکستان سے بہتر تھی۔ اگر اس رپورٹ کو بریک ڈاؤن کر کے دیکھا جائے تو جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اس سے کہیں زیاد ہ بد صورت ہے۔ اس درجہ بندی میں سب سے اہم ترین عنصر کسی ملک میں موجود سکیورٹی کی صورت حال کو قرار دیا گیا ہے یعنی اس ملک کی سکیورٹی کی حالت کیا ہے جس میں رہنے والے یا آنے جانے والے اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے ہیں یا نہیں۔ سکیورٹی کے میدان میں پاکستان 128 میں سے 126ویں نمبر پر آتا ہے۔ گویا اس اہم ترین میدان میں پاکستان سے نیچے صرف دو ملک آتے ہیں۔ یہ ممالک افغانستان اور نائیجیریا ہیں حالانکہ اربابِ اختیار کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کی پسندیدہ منزل بنانے آئے ہیں اور ان دونوں چیزوں کے لیے بنیادی شرط ہی سکیورٹی ہے۔ سکیورٹی کو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ ملک میں جرائم پر کیسے قابو پایا جاتا ہے؟ عوام کو جرائم‘ تشدد اور لڑائی جھگڑے سے کیسے بچایا جاتا ہے اور سرکار اس سلسلے میں کیا اقدامات کرتی ہے تاکہ عام لوگوں کو آپس کے جھگڑے نمٹانے کے لیے لڑائی جھگڑے کا راستہ نہ اختیار کرنا پڑے۔ نظامِ انصاف خصوصاً سول جسٹس سسٹم اور دیوانی عدالتی نظام میں ملک کا نمبر 118واں ہے۔ نظامِ انصاف کی جانچ پرکھ کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگوں کو نظامِ انصاف تک کتنی رسائی ہے؟ انصاف کی قیمت کیا ہے؟ کیا انصاف سستا اور کیا عام آدمی کی پہنچ میں ہے؟ انصاف کے راستے میں کیا کیا رکاوٹیں اور قانونی ضابطے حائل ہیں؟ انصاف کے حصول میں کتنی دیر لگتی ہے؟ عدالتی نظام میں کرپشن اور رشوت کے لین دین کی کیا صورت حال ہے؟ سرکاری اثر و رسوخ اور سفارش کی کیا کیفیت ہے؟ اس کا اطلاق کریمنل جسٹس سسٹم یا فوجداری نظام پر بھی ہوتا ہے۔ ایک مؤثر فوجداری نظام کے بغیر ملک میں امن و امان نا ممکن ہوتا ہے۔
انسانی حقوق‘ سرکاری ضابطوں کے اطلاق اور اچھی گورننس کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 128 میں سے 115واں ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتابوں میں لکھے ہوئے ضابطے کتنے مؤثر انداز میں لاگو کیے جاتے ہیں؟ حکومت کی جب کوئی ہنگامی ضرورت پڑتی ہے تو وہ کس تیزی سے عمل کرتی ہے؟ حکومتی اقدامات کے دوران قانون کی حکمرانی کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے اور اگر کچھ غلط ہو جائے تو اس کی تلافی کا کیا نظام ہے؟ انسانی حقوق کی حالت کو جاننے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ ملک میں کچھ لوگوں سے مذہب‘ عقیدے یا رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک تو نہیں کیا جاتا؟ عوام کی زندگی کے تحفظ کا اہتمام ہے؟ اظہارِ رائے کی آزادی ہے کہ نہیں‘ جلسے جلوس اور تنظیم سازی کی آزادی ہے؟ کیا مزدور اور محنت کش کے حقوق محفوظ ہیں؟ کرپشن کے باب میں پاکستان 128 میں سے 116ویں نمبر پر آیا ہے۔ انسان حیرت و افسوس سے دیکھتا ہے کہ یہ سب ایک ایسی سرکار کی عملداری میں ہوا ہے جس کا بنیادی اور اہم ترین نعرہ ہی کرپشن کا خاتمہ تھا۔ کرپشن کے جانچنے کا پیمانہ ہی یہ ہے کہ کیا ملک میں سیاست دان‘ سرکاری افسران‘ اہلکار اور ہیئت مقتدرہ کے کل پرزے اپنی سرکاری حیثیت کو ذاتی فائدے کے لیے تو استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ ان سب حالات کو سامنے رکھتے ہوئے صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ان رپورٹس کو سنجیدگی سے لینا ضروری ہے ورنہ حالات دگرگوں ہوتے جائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved