تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-06-2021

سرخیاں، متن، ’’دل مالا‘‘ اور تازہ غزل

ملالہ کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا: ضیا الدین یوسفزئی
نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسف زئی نے کہا ہے ''شادی سے متعلق ملالہ کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا‘‘ کیونکہ جس بیان کا کوئی جواب یا جواز نہ ہو اس کے بارے یہی کہا جاتا ہے اور اس کے لیے بھی خاصی محنت درکار ہوتی ہے کیونکہ پہلے اسے توڑا اور پھر مروڑا جاتا ہے، اس لیے ہر بیان ان دو حالتوں میں موجود ہوتا ہے یعنی اصل بیان اور توڑا مروڑا ہوا بیان، حالانکہ یہ کوئی کان نہیں ہوتا جسے مروڑا جا سکے، نیز چونکہ اس نے کہا ہے کہ سیاست کے میدان میں داخل ہونے کے نظریے کو اس نے ردّ نہیں کیا ہے اس لیے سیاسی ہونے کی حیثیت سے بھی اس کی حیثیت دو طرفہ ہو گئی ہے، اگرچہ توڑے مروڑے ہوئے کاغذ یا بیان کو تھوڑی محنت سے بحال بھی کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز ملالہ کے انٹرویو پر تنقید کے حوالے سے بیان دے رہے تھے۔
استعفے نہ دیے تو حکومت مدت پوری کر لے گی:فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''استعفے نہ دیے تو حکومت مدت پوری کر لے گی‘‘ اگرچہ پہلے میرا خیال تھا کہ اس کے لیے لانگ مارچ ہی کافی ہے لیکن اب یہ لانگ مارچ کے بس کا روگ بھی نظر نہیں آتا، حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے علاوہ بھی کسی جماعت نے ابھی تک استعفے نہیں دیے اور سب محض لارے لپے سے کام لے رہی ہیں اور جس سے بطور ِسربراہ پی ڈی ایم میری پوزیشن خراب ہو رہی ہے‘ اس لیے اگر استعفے نہیں دیے تو جسے جو میسر آیا ہے‘ وہ اسی کو غنیمت سمجھے اور اپنے اپنے گھر چلا جائے۔ آپ اگلے روز جامعہ قاسم العلوم ملتان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
معیشت پر بلاول کی باتیں ناچ نہ جانے
آنگن ٹیڑھا کے مترادف ہیں: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''معیشت پر بلاول بھٹو زرداری کی باتیں ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مترادف ہیں‘‘ کیونکہ ہمارا آنگن تو سیدھا ہے اور نو من تیل بھی موجود ہے اور رادھا ہر قسم کا ناچ ناچ کر عوام کو انٹرٹین کر رہی ہے، اور بھنگڑا سمیت جس قسم کے ڈانس کی فرمائش ہوتی ہے‘ کر کے دکھا دیتی ہے، اس لیے کسی نے اگر ناچنا ہے تو سب سے پہلے اپنے آنگن کو سیدھا کروائے، بصورت دیگر ہمارے آنگن سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے جو معمولی معاوضے پر مہیا کیا جا سکتا ہے جبکہ اس میں کافی گنجائش بھی موجود ہے کیونکہ ہم نے دیواریں گرا رکھی ہیں اور ہر طرف آنگن ہی آنگن نظر آتا ہے۔ آپ اگلے روز بار کونسل اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن فیصل آباد کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
بجٹ میں ریلیف نہ دیا گیا تو لوگ
سڑکوں پر ہوں گے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''بجٹ میں ریلیف نہ دیا گیا تو لوگ سڑکوں پر ہوں گے‘‘ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ سڑکوں کی مرمت وغیرہ کروا دے کیونکہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے عوام سڑکوں پر نہیں آ رہے ورنہ پی ڈی ایم اور ہم الگ الگ انہیں سڑکوں پر لانے کی بھرپور کوشش کر چکے ہیں، لیکن شاید کورونا کی وجہ سے بھی لوگ سڑکوں پر نہیں نکل رہے، کیونکہ اب تو ماسک نہ لگانے پر بھی اندر کر دیا جاتا ہے۔ ہم لوگ سڑکوں پر آنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں بس ذرا کورونا کا زور کم ہونے کی دیر ہے بلکہ خاکسار کے کہنے پر تو لوگ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر بھی مٹر گشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں مجلس عاملہ کے اجلاس سے خطاب اور دیگر امور پر مشاورت کر رہے تھے۔
اپوزیشن ہر معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہے: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن ہر معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہے‘‘ اگرچہ ہم بھی بہت سے معاملات میں کنفیوژن کا شکار ہیں جبکہ کچھ معاملات ایسے ہیں جو ہماری پہنچ سے تاحال دور ہیں اور ہم ان کے بارے میں کنفیوژن کا شکار نہیں ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ملک عزیز میں کنفیوژن ایک وبا کی طرح پھیلا ہوئی ہے، حتیٰ کہ جو کنفیوزڈ نہیں ہے اس کی دماغی صحت کے حوالے سے شک و شبہ کی پوری گنجائش موجود ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے لیے بھی کوئی ویکسین تیار کرنا پڑے گی اور اگر مجھ سے وزیر سائنس کا عہدہ واپس لے نہ لیا جاتا تو شاید میں اب تک یہ ویکسین تیار کرا چکا ہوتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
دل مالا
یہ مسعود منور کا مجموعۂ کلام ہے جس میں نظمیں، ڈھولے اور گیت شامل ہیں۔ انتساب اس طرح سے ہے ''فائزہ کے نام جو اس دنیا میں میرا واحد سہارا اور ٹھکانہ ہے‘‘۔ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے، پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور جون ایلیا کی ایک تحریر سے یہ اقتباس درج ہے: ''مسعود منور میرا کوچک ابدال ہے اور شاعری میں مجذوب کے مرتبے کو پہنچا ہے۔ میں اور وہ ایک ہی سے خیالوں کے خراب کیے ہوئے ہیں، پر وہ مجھ سے زیادہ بے قابو ہے اور میرا پنجابی نمونہ ہے‘‘۔ اس کتاب سے ہم شاعری میں ایک نئے لہجے اور لحن سے روشناس ہوتے ہیں ،اس میں تازگی بھی ہے اور انفرادیت بھی۔ادارہ اس اشاعت پر شاباش اور مبارکباد کا مستحق ہے۔ نمونۂ کلام کے طور پر ایک نظم کے ابتدائی مصرعے:
میں بستر میں جاگ رہا تھا میں نے دیکھا خواب
سونے جیسا خواب
ہیر کے جھنگ کی گلیاں جن میں
پھرتا تھا مہتاب
مجھ سے ڈر کر شاخ پہ چپ تھا
تازہ لال گلاب
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
دشت کی وحشت کو ہم نے چھوڑ کر گھر رکھ لیا
اور‘ تیرے باب میں بھی دل پہ پتھر رکھ لیا
فرق شاید اس طرح سے بھی کوئی معلوم ہو
اس لیے بھی دل کو دنیا کے برابر رکھ دیا
غم زیادہ تھا اسی خاطر جھجکتے تھے بہت
اور جب رکھنے پہ آئے تو سراسر رکھ لیا
پہلے سوچا میل تو ان میں نہیں کوئی‘ مگر
پھر عداوت کو بھی ہم نے دوستی بھر رکھ لیا
ہم جو سکھلاتے رہے اس کو نشانہ بازیاں
اس نے آخر ہم کو بھی اپنے ہدف پر رکھ لیا
کچھ نہ کر پائے تو اگلے عاشقوں کی رِیس میں
چار دن آنکھوں کو اپنی ہم نے بھی تر رکھ لیا
چارہ ہائے ہجر کی فہرست جب تیار کی
نسخۂ ترکِ تعلق سب سے اوپر رکھ لیا
جس جگہ جتنی بھی گنجائش نظر آئی ظفرؔ
ہم نے باہر کا اندھیرا اپنے اندر رکھ لیا
آج کا مقطع
آنکھوں سے آتے جاتے الجھتا ہے اے ظفرؔ
دیوار پر لکھا ہوا کچھ اُس کے ہاتھ کا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved