ہم 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے بعد اس قضیے میں الجھے اور پھر نائن الیون کے بعد اس کا دوسرا رائونڈ شروع ہوا، تاحال ہم اس کے مابعد اثرات سے نہیں نکل پائے۔ کہا جاتا ہے کہ غیر جمہوری حکمرانوں کے دور میں معاشی حالت بہتر تھی، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں ہم افغان جنگ میں تعاون کے حوالے سے اعانت لیتے رہے، اس اعانت سے ہماری معیشت کو سہارا ملتا رہا، لیکن یہ ایسی نوازشات تھیں کہ ان کا خَراج ہم اب تک ادا کر رہے ہیں؛ اگرچہ اس سے بہت سے طبقات یا افراد فیض یاب بھی ہوئے اور اُن کی زندگی میں انقلاب آیا۔ کسی نے کہا ہے:
ایسے ویسے کئی، دیکھتے دیکھتے
ہو گئے محترم، آپ کے شہر میں
اس تعاون اور اعانت کی قیمت ہمیں ستّر ہزار سے زائد جانوں کی قربانی، دہشت گردی، بے امنی اوربے پناہ مالی نقصانات کی صورت میں اداکرنی پڑی۔ ہم امریکا اور اہلِ مغرب سے ہمیشہ مطالبہ کرتے رہے کہ ہماری ان قربانیوں کی قدر کی جائے، لیکن ڈالروں کے عوض جو قربانیاں پیش کی جائیں، وہ حقیقی قدر دانی سے محروم رہتی ہیں۔ امریکا ہمیں ''اتحادی اعانتی فنڈ‘‘ کے نام سے اعانت فراہم کرتا رہا۔ نیز ہم قوم کو یہ بھی باور کراتے رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی جنگ ہے، سو اگر یہ ہماری اپنی جنگ تھی تو امریکا سے اعانتی فنڈ کے کیا معنی ہیں اور اپنی خدمات کی ناقدری کا گلہ ''چہ معنی دارد‘‘۔ یہی وہ باریک معنوی حقیقت ہے، جس کے ادراک و اعتراف سے ہم قاصر رہے اور قوم کو اس پر قائل نہ کر سکے اور غلط حکمتِ عملی کی وجہ سے اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کو دہشت گردوں کے نشانے پر رکھا۔ یہ درست ہے کہ آغاز میں یہ ہماری جنگ نہیں تھی، لیکن انجامِ کار یہ ہمارے گلے پڑ گئی۔
سابق صدر پرویز مشرف مختارِ مُطلق تھے۔ 2002ء کے انتخابات میں جو پارلیمنٹ وجود میں آئی‘ وہ بھی بے اختیار تھی، صدر کسی کو جوابدہ نہیں تھے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے تھے۔ وہ نائن الیون کے بعد امریکا کے آگے سپر انداز ہوئے، اُسے بندرگاہ، زمینی راستے اور ہوائی اڈے بھی دیے۔ ہوائی اڈوں کی امریکا کو سپردگی کا انکشاف ایبٹ آباد کے اس فوجی آپریشن کے بعد ہوا، جس میں امریکا نے اُسامہ بن لادن کو قتل کر کے اُن کی میت سمندر بُرد کر دی۔ آج تک قوم کے سامنے کوئی ایسا تحریری معاہدہ نہیں آیا کہ پرویز مشرف صاحب نے امریکا کو یہ ساری سہولتیں کن شرائط کے عوض دیں، اس سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا، نفع نقصان کا تخمینہ کس نے لگایا، آیا یہ ایک آمرِ مطلق کا شخصی فیصلہ تھا یا ادارے کا فیصلہ تھا، کچھ پتا نہیں ہے۔ مصری صدر انور السادات جب امریکا کے آگے سپر انداز ہوئے تو انہوں نے اپنے ملک پر واجب الادا قرضے معاف کرائے، لیکن نہ ہم اس طرح کی کوئی سہولت حاصل کر سکے اور نہ امریکا کے قابلِ اعتماد حلیف قرار پائے، اپنی ناکامیوں پر امریکا بھی پاکستان کو ملامت کرتا رہا اور کابل میں اس کی کٹھ پتلی حکومتیں بھی ہمیشہ پاکستان کو ہدفِ ملامت بناتی رہیں۔
آج ہم پھر ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں، افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ایک انتہائی پیچیدہ صورتِ حال نمودار ہونے کے خدشات و خطرات موجود ہیں، ہمارے چیف آف آرمی سٹاف اپنی حد تک انتہائی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمیں کسی نئی پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا نہ ہو، ان کا یہ عزم اوراس کے حصول کے لیے کاوشیں نہایت مستحسن ہیں، لیکن ان کی راہ میں رکاوٹیں موجود ہیں اور یہ مہم سرکرنا آسان نہیں ہے، ہم ان کی کامیابی کے لیے صدقِ دل سے دعاگو ہیں۔ بعض چیزیں کمبل بن جاتی ہیں اور خواہش کے باوجود ان سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوتا، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طالبانِ افغانستان اور ہمارے اداروں کے درمیان پہلے جیسا اعتماد کا رشتہ نہیں ہے۔ دعا ہے ہمارے اندیشے غلط ثابت ہوں۔
پرویز مشرف صاحب کے زمانے میں عالمی معیشت میں ایک مصنوعی ابھار تھا، اُس دور میں ہمارے ہاں بھی جنابِ شوکت عزیز کی مہربانی سے کریڈٹ کارڈ کلچر پروان چڑھا۔ پاکستان کو''سُوْقُ الصَّارِفِیْن‘‘(Consumer Market) بنا دیا گیا تھا۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ریکارڈ بلندیوں کو چھو رہا تھا اور یہ رجحان امریکا، یورپ اور خلیجی ریاستوں میں بھی جاری تھا حتیٰ کہ 2008ء میں اس کا زوال شروع ہوا اور یہ ایک اتفاقی امر تھا کہ اسی سال جنرل پرویز مشرف کا بھی زوال ہوا اور سول حکمرانوں کو اقتدار ملا، لیکن حکومتی سطح پر معیشت کی زبوں حالی کے باوجود پرائیویٹ سیکٹر میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بدستور چلتا رہا۔ جہادِ افغانستان اور مابعد نائن الیون کے دور میں ہمارے حکمرانوں نے نہایت سستی قیمت پر امریکا کی خدمت بجا لائی، نیز انہوں نے وقتی مفادات کو دیکھا اور ملک وملّت کے مفاد میں طویل المدتی فوائد حاصل نہ کر سکے۔ مزید یہ کہ ان دونوں ادوار میں نہ ہم اپنے وطنِ عزیز کے صنعتی ڈھانچے کو مضبوط کر سکے اور نہ اُسے وسعت دے سکے۔ ہمارا قومی میزانیہ خسارے میں ہی چلتا رہا اور ہم پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھتا چلا گیا۔ ہمیں بار بار آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینا پڑی اور ہر بار اُن کی کڑی شرائط قبول کرنا پڑیں، اب بھی ہماری معیشت کی شرحِ نُمُو خطے میں سب سے کم ہے۔
ایک وقت تھا کہ لوگ دعائیں مانگتے تھے کہ دشمن بھی ملے تو کم ظرف کمینہ نہ ہو، عالی ظرف ہو، شریف النفس ہو، بلند اقدار کا حامل ہو، یہاں تک کہ جب فاتح سلطان مفتوح سے پوچھتا: '' تم سے کیا سلوک کیا جائے‘‘، تو وہ جواب میں کہتا: ''وہی سلوک جو فاتح اپنے مفتوح کے ساتھ کرتا ہے‘‘۔ تاریخ میں اس کی بڑی اعلیٰ مثالیں بھی مل جاتی ہیں اور تاریخِ انسانی کی سب سے منفرد وممتاز مثال تاجدارِ کائنات، خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی ہے کہ جب آپ فاتح کی حیثیت سے بیت اللہ میں داخل ہوئے، کعبۃ اللہ کو بتوں سے پاک کیا۔ وہ لوگ جنہوں نے آپﷺ کو ستایا، آپ پر ظلم کے پہاڑ توڑے، طائف میں آپ کو لہولہان کردیا، آپ کو شہید کرنے کے ناپاک منصوبے بنائے اور آخرِ کار آپ کو ہجرت کرنا پڑی، وہ سب آپﷺ کے رحم وکرم پر تھے۔آپﷺ نے اس موقع پر ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا: آپﷺ نے پوچھا: ''تم لوگوں سے کیا سلوک کیا جائے؟‘‘، انہوں نے جواب دیا: ''ہم خیر کی توقع رکھتے ہیں، آپ کرم والے بھائی ہیں اور کرم والے بھتیجے ہیں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ''جائو تم سب آزاد ہو‘‘۔ (اَلسِّیْرَۃُ النَّبَوِیَّہْ لِاِبْنِ کَثِیْر، ج: 3، ص: 570)‘‘، آپﷺ نے ماضی کے مظالم کے حوالے سے نہ کسی سے انتقام لیا اور نہ کسی کو نفرت کا نشانہ بنایا، یہ آپﷺ کی اخلاقی عظمت کی معراج تھی۔
ہمارے ہاں جو بھی اچھا برا نظام ہے، ایسے ایسے لوگ مناصبِ جلیلہ پر فائز ہو جاتے ہیں، جن کی فطرت، بصیرت، ذہنی استعداد اور رویے حیرت ناک حد تک اُن مناصب سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کا خمیر ہی نفرت کے پانی میں گندھا ہوتا ہے اور اپنی فطرت کو چھوڑنا اُن کے بس میں نہیں رہتا۔ ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ریاست کے تمام مناصب پر وسیع النظر، اصحابِ بصیرت، دور اندیش، اصحابِ عزیمت واستقامت اور حوصلہ مند قیادت نصیب فرمائے تاکہ معاشرے میں اعلیٰ اقدار کو فروغ حاصل ہو، کمینگی کے بجائے شرافت اور کم ظرفی کے بجائے عالی ظرفی وجہِ افتخار بنے۔ ذیل میں ہم تاریخِ اسلام کے ایک ممتاز سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی کی وسعتِ ظرف کا نمونہ پیش کرتے ہیں:
صلیبی جنگوں میں مشترکہ مسیحی افواج کی قیادت ''رچرڈ شیر دل‘‘ کے ہاتھ میں تھی، جنگ کے دوران مسیحی فوج کا سپہ سالار بیمار ہو گیا۔ یہ خبر صلاح الدین ایوبی تک پہنچی توسلطان نے رچرڈ کے صحت یاب ہونے تک جنگ بھی روک دی اور اس کے لیے پھلوں اور ادویات کا تحفہ بھی بھجوایا۔ مسیحی فوج یہ سلوک دیکھ کر حیران رہ گئی، اسی طرح جنگ کے دوران ایک موقع پر رچرڈ شیردل کا گھوڑا مر گیا، وہ گھوڑے سے نیچے گر گیا، سلطان صلاح الدین ایوبی یہ منظر دیکھ رہے تھے، سلطان نے نہ صرف یہ کہ اس کیلئے اپنا گھوڑا بھجوایا، بلکہ اسے اپنے جوانوں کی حفاظت میں اس کے سپاہیوں کے درمیان بھی پہنچایا۔ آپ اندازہ کیجیے! سلطان یہ سلوک کس کے ساتھ کر رہا ہے، اپنے اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن کے ساتھ جو انھیں قتل کرنے اور بیت المقدس پر قبضے کے لیے آیا تھا، یہی حُسنِ سلوک بعد ازاں دونوں فوجوں کے درمیان معاہدے کا سبب بنا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اور رچرڈ شیردل کے درمیان یہ معاہدہ 1192ء میں ''رام اللہ‘‘ میں ہوا۔ (نوٹ: ہمارا پریس اسے رملہ یا راملہ لکھتا ہے، جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ''رام اللہ‘‘ اور ''رملہ‘‘ دو الگ شہر ہیں) مسیحی فوج نے بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ تسلیم کر لیا اور سلطان نے عیسائیوں کو یروشلم میں آنے اور عبادت کرنے کی اجازت دے دی اوریوں تیسری صلیبی جنگ ختم ہو گئی، لیکن دشمن کے ساتھ سلطان صلاح الدین ایوبی کی اعلیٰ ظرفی تاریخ میں ایک مثالیہ بن گئی۔ آج کل مسند حاصل کرنے کیلئے اصول قربان کردیے جاتے ہیں اوراس کیلئے تاویلات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کسی نے کہا ہے:
اصول بیچ کے مَسند خریدنے والو!
نگاہِ اہلِ وفا میں بڑے حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمہیں تھا، نہ ہو سکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو، بے ضمیر ہو تم
یہی صورتِ حال قرض پر مبنی ہماری معیشت کی ہے، آئی ایم ایف ہماری معیشت کو کنٹرول کر رہا ہے اور ناقابلِ قبول شرائط عائد کر رہا ہے، ہماری ہر دور کی حکومت اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے، لیکن اس کا ازالہ پُرجوش خطابات سے نہیں ہو سکتا، بلکہ معیشت میں خود کفالت کی منزل کوحاصل کرنے سے ہوتا ہے۔ غالبؔ نے کہا ہے:
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
محتشم کاشانی نے کہا ہے:
پشیمانم پشیمانم کہ برخود بے جہت بستم
رہِ لطف زخود رائی و بے عقلی و نادانی
مرا عقلے اگر می بود، کی این کار میکردم
چرا عاقل کند کارے، کہ باز آرد پشیمانی
ترجمہ: ''میں نے خود بے عقلی، نادانی اور عُجبِ نفس کے سبب آسان راستے کو اختیار کیا اور اب پشیمان ہوں کہ ایک ایسی منزل کا راہی بن گیا ہوں جس کی کوئی سَمت ہی نہیں ہے، اگر میں دانا ہوتا تو یہ کام کیوں کرتا، سو اے مردِ دانا! ایسا کام کیوں کرتے ہو جس پر بعد میں نادم ہونا پڑتا ہے‘‘۔