اب جبکہ ہر ہاتھ‘ دیوار‘ گھر‘ سڑک‘ بازار اور دفتر میں ''کیمرے کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی ہے‘‘ کا بورڈ آویزاں ہے‘ کیا یہ ممکن ہے کہ چند لوگ دندناتے ہوئے آئیں اور کسی کو مارنا پیٹنا شروع کر دیں؟ کیا کوئی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اہم حیثیت کے حامل ''سٹیشن کمانڈر‘‘ کے ذریعے کچھ ایسی کارروائیاں کرائی جا رہی ہوں جن کے بعد پاکستان کے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو بدنام کرنے اور اپنے کسی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ان پر دبائو بڑھانا مقصود ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اندر سے ہی دشمن کا سٹیشن کمانڈر میڈیا ورکرزکو بے خبر رکھ کر ان پر چھوٹے موٹے حملے‘ جن سے انہیں نقصان نہ ہو‘ کرا کے ان کی دھوم پوری دنیا میں مچا کر قومی وقار کو داغدار کرنا چاہتا ہو؟ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ای یو ڈِس انفو لیب کی رپورٹ سے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوجانے کے بعد بھارتی ایجنسیاں اب پاکستان پر اس کے اندر سے ہی وار کرا رہی ہوں۔ اسلام آباد میں میڈیا کیمرے کو استعمال کرتے ہوئے دشمن کی طاقت کیلئے سب سے بڑا خطرہ اور رکاوٹ سمجھی جانے والی پاکستانی ایجنسی کا رعب، مقبولیت اور وقار ہم وطنوں کی نظروں میں مجروح کرنے کی کوشش پاکستانی عوام کبھی کامیاب نہ ہونے دیں گے۔ کیا تفتیشی ادارے اس نکتے کو اپنی تفتیش کا حصہ بنائیں گے کہ کمیونٹی کے اندر سے ہی کوئی حملوں کے ڈرامے رچا کر پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی ناپاک جسارت تو نہیں کر رہا؟
کیا یہ اتفاق ہے کہ 27 مئی کی شام مودی اور اجیت دوول نے ایک ہی دن میں بھارتی سروسز کے تمام مروجہ قوانین اور رولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت کی دو اہم ترین شخصیات کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی۔ اس کے لیے نئے سرے سے قوانین میں ترامیم کی گئیں جو کسی بڑی گیم کا پتا دے رہی ہیں۔ ان شخصیات میں سے ایک اروند کمار ہیں جن کا تعلق انڈین پولیس سروس (AM-84) سے ہے اور جو بھارت کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی آئی بی کے ڈائریکٹر ہیں۔ آئی بی کے ڈائریکٹر کی مدتِ ملازمت 30 جون 2021ء کو ختم ہو رہی تھی مگر 27 مئی کو انڈین سروسز (Death-Cum-Retirement Benifits)1958ء کے رولز FR58d اور 16IA میں رعایت کرتے ہوئے انہیں ایک برس کی توسیع دے دی گئی ہے۔ دوسری اہم شخصیت جس کی مدتِ ملازمت میں 27 مئی کو ہی ایک بر س کی توسیع کی گئی ہے‘ انڈین خفیہ ایجنسی RAW کے سیکرٹری سامنت کمار گوئل ہیں۔ دلچسپ یا مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ اگرچہ ان دونوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرتے ہوئے جاری کئے گئے آرڈرز مختلف ہیں لیکن ان کا آفس آرڈر نمبر ایک ہی ہے‘ یعنی 360۔ ان دونوں کے آرڈر جاری کرنے کیلئے علیحدہ آفس آرڈر جاری کئے گئے لیکن ان دونوں کا ایشو نمبر نجانے کیوں ایک ہی رکھا گیا۔
اروند کمار آئی بی میں ڈائریکٹر تعینات ہونے سے پہلے مقبوضہ کشمیر ڈیسک کے انچارج رہے ہیں جبکہ گوئل کا ''نمایاں کارنامہ‘‘ سکھوں کی خالصتان تحریک کو کچلنا ہے۔ 1980اور 90 کی دہائیوں میں جب بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک اپنے زوروں پر تھی تو گوئل نے اس تحریک کو ہلاکو اور چنگیز خانی طریقوں سے دبانے کیلئے سفاکیت اور بربریت کی ہر انتہا پار کر دی تھی۔ نہ صرف معمولی سے شک میں پکڑے جانے والے نوجوان سکھوں بلکہ ان کے والدین کے جسموں کے نازک اعضا کو بھی مختلف کیمیکلز میں لتھڑے ہوئے ڈنڈوں سے ضربیں لگائی جاتی تھیں اور انہیں تڑپ تڑپ کر مرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں سامنت کمار گوئل نے سکھ خواتین کا بھی لحاظ نہ کیا۔ اس کے علاوہ گوئل کا پلوامہ خود کش ڈرامے اور اس کے بعد بالا کوٹ پر حملے کے منصوبے کا بھی ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔مودی سرکار کے صحافتی ترجمان ارنب گوسوامی کی لیک ہونے والی آڈیو کے بعد سے انڈین آرمی اور انڈیا کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے پلوامہ کے ''خود کش‘‘ حملے میں مارے جانے والے چالیس جوانوں کے خاندان اب حقیقت جان کر اپنے بچوں کی بَلی دینے پر مودی سرکار کو کوسنے دے رہے ہیں۔
مذکورہ افراد کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی وجہ سے انڈین پولیس سروس کے جن لوگوں کو نظر انداز کیا گیا ہے‘ وہ اپنی نجی محفلوں میں ان دونوں حضرات کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ 2019ء میں بالا کوٹ پاکستان میں جو نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کی گئی تھی اس کا اصل کردار بے شک اجیت دوول تھا لیکن یہ دونوں افسران چونکہ ایک ایک کام میں ملوث اور رازدان تھے اسی لیے اجیت دوول اور مودی سرکار کو خدشہ ہے کہ ریٹائرمنٹ پر یہ افسران کہیں سچ نہ اگل دیں۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں دو افسران کو قانون سے ہٹ کر توسیع دیے جانے کا تعلق کشمیر میں مودی سرکار کے کسی نئے آپریشن کی منصوبہ بندی سے بھی ہو سکتا ہے۔
اس وقت عالمی منظر نامہ یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے‘ روس پاکستان میں سرمایہ کاری کا ایک بار پھر آغاز کرتے دفاعی اور تجارتی مدد کرنے کیلئے گیس پائپ لائن بچھانے میں معاونت کر رہا ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اسی سال پاکستان کا سرکاری دورہ کریں گے‘ ایسے میں بھارت ہر طرف سے پریشانی میں گھرا ہوا ہے اور وہ مقبوضہ کشمیر میں اوڑی اور پلوامہ جیسا کوئی نیا ڈرامہ کر کے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے سے دریغ نہیں کرے گا۔ بھارت میں بسنے والے افراد کو بھی اب یہ حقیقت سمجھ آتی جا رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہمیشہ اسی وقت پولیس اور آرمی کے جوانوں پر حملہ ہوتا ہے جب مودی سرکار اندرونی و عالمی سطح پر کسی مشکل کا شکار ہوتی ہے اور اس کی گرائونڈ بننا شروع ہو گئی ہے جس کا اندازہ مقبوضہ وادی میں مقامی بی جے پی رہنمائوں پر ہونے والے حملوں سے کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف کئی ماہ بعد اچانک بھارتی خارجہ امور کے وزیر مملکت جے شنکر نے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ جون میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے FATF کا اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے اور اس بار پاکستان کے گرے لسٹ‘ جس میں پھنسانے کیلئے اجیت دوول اور گوئل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا‘ سے نکلنے کے امکانات خاصے روشن ہیں‘ اسی لیے اس اجلاس سے قبل ہی مختلف حربے استعمال کر کے پاکستان کے حساس اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
کشمیر کے علاوہ مغربی سرحد کے ذریعے بھارت نے بلوچستان بالخصوص گوادر اور کے پی میں وزیرستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کا محاذ گرم کر رکھا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکا کا سب سے ٹارگٹ چین ہے اور اس سلسلے میں وہ پاکستان کو دبائو میں لاناچاہتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اپنے ایک انٹرویو میں صریحاً کہہ چکے ہیں ''ہم نے افغانستان میں جو بیس سال ضائع کیے ہیں‘ انہیں بھلا کر ہم اگلے بیس برسوں میں ایشیا، سائوتھ چائنہ سی اور مڈل ایسٹ میں بڑی کامیابیوں کا سوچیں گے‘‘۔ پاکستان کو اب بہت الرٹ رہنا ہو گا، بھارت سے دوستی کی باتیں اب ختم ہو جانی چاہئیں کیونکہ سانپ کبھی بھی کسی کا دوست نہیں بن سکتا۔ ہمیں اب کشمیریوں کی محض اخلاقی نہیں بلکہ ہر ممکن مدد کرنا ہو گی کیونکہ بھارت بلوچستان، وزیرستان، کراچی اور اندرونِ سندھ میں اپنے ایجنٹوں کی بھرپور معاونت اور فنڈنگ کر کے پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دے رہا ہے‘ اس پر ہم چپ نہیں بیٹھ سکتے۔