آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنا ایک ناگزیر مجبوری سہی لیکن شروع ہی میں حکومت کو اس نے بری طرح نقصان پہنچایا۔ لوگ خان صاحب سے معجزاتی کاموں کی توقع لگا بیٹھے تھے اور اس توقع میں خان صاحب کا اپنا بڑا دخل تھا۔ سابقہ بیانات، انٹرویوز، مباحثوں اور سابقہ حکومتوں کے اسی طرح کے فیصلوں پر کڑی تنقید کے بعد اب عمران خان اور پی ٹی آئی کے پاس اپنے اس اقدام کا کوئی دفاع نہیں تھا، سوائے اس کے وہ مسلسل اس بات کی تکرار کریں کہ نون لیگ حکومت تباہی کے اس کنارے پر پہنچا گئی تھی جہاں یہ قدم مجبوری تھا۔ آئی ایم ایف نے جو کڑی شرائط منوائیں‘ خاص طور پر ڈالر کو آزاد کرنے کی شرط‘ انہوں نے مہنگائی کو ایک ہی جھٹکے میں آسمان تک پہنچا دیا۔ ڈالر 172 کے ہندسے کو چھونے لگا اور تمام درآمدی چیزیں خوفناک حد تک مہنگی ہوگئیں۔ ایسے میں لوگ ڈالر کی قدر دو سو روپے فی ڈالر تک جانے کی باتیں کرنے لگے۔ ڈالر کی اس قیمت سے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ نون لیگ کے آخری دور میں اصل قدروقیمت تھی ہی یہ۔ کاروبار کا یہ حال ہوگیا کہ سٹاک مارکیٹ جو نون لیگ کے دور میں پچاس ہزار کے قریب تھی، گرتے گرتے تیس ہزار کے قریب پہنچ گئی۔ کسی صنعت کسی بازار سے اچھی خبر نہیں آرہی تھی۔ یہی چیخ و پکار تھی کہ سب کام ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ پچھلے ترقیاتی کام درمیان میں رک گئے ہیں اور نئے کام آغاز کے مرحلوں تک پہنچ ہی نہیں رہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے گزشتہ تین سالوں کو اب پلٹ کر دیکھا جائے تو وہ ایک ایسی ناہموار سڑک کی طرح ہیں جس پر ڈرائیور بس چلانے پر مجبور ہو اور وہ مسافروں کو ان جان لیوا جھٹکوں کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکتا ہو۔ 'آپ نے گھبرانا نہیں‘ کے جملے کا جتنا مذاق بن سکتا تھا، بنا۔ وزرا کی بار بار تبدیلی نے بھی یہ تاثر چھوڑا کہ حکومتی ٹیم کے بس میں کام نہیں آرہا۔ خان صاحب نے ٹھیک کہا کہ یہ ان کی زندگی کے مشکل ترین سال تھے۔ یہ ڈیڑھ دو سال کسی کا اعتماد بھی متزلزل کرنے کے لیے کافی تھے۔
لیکن اسی کے ساتھ ساتھ بتدریج پہلے دوسال میں کچھ چیزوں کے خدوخال واضح ہونے شروع ہوگئے۔ ایک تو یہ کہ یہ حکومت پُرتعیش وفود اور خواہ مخواہ کے غیر ملکی دوروں پر یقین نہیں رکھتی۔ معیشت قابو میں آئے یا نہ آئے اس کے لیے بہرحال کوشاں ہے۔ کچھ بنیادی بڑے اور مستقبل گیر فیصلے کیے جارہے ہیں جو اپنے اثرات ظاہر کرنے میں کچھ وقت لیں گے‘ لیکن بالآخر اس کا ملک اور قوم کو فائدہ ہوگا۔ یہ وہ مرحلہ تھاکہ لوگ حکومت پر مسلسل سخت تنقید کر رہے تھے۔ یہ بڑے فیصلے کئی سمتوں میں کیے جا رہے تھے جن کا زیادہ رخ معیشت کی طرف تھا۔ اس مرحلے پر یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ فیصلے درست رخ پر کیے جارہے ہیں یا نہیں؟ اور ان کے اثرات کتنے اور کب تک نظر آنے لگیں گے۔
لیکن لگتا ہے اب وہ مرحلہ پیچھے رہ گیا اور اثرات کا ہراول دستہ افق پر نظر آنے لگا ہے۔ بہت سے اشارے، جن میں غیرجانبدار مبصرین اور اداروں کے تجزیے شامل ہیں، بتا رہے ہیں کہ ایک تاریک اور طویل سرنگ کے کنارے کی روشنی کچھ کچھ نظر آنے لگی ہے اور یہ صرف نظر کا دھوکا نہیں ہے۔ ویسے تو ہر حکومت ہی اپنے کارنامے بلند بانگ انداز میں مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا کرتی ہے لیکن غیرجانبدار تجزیوں اورخاص طور پر وزیراعظم اور موجودہ وزیرخزانہ کے پُراعتماد بیانات سے محسو س ہوتا ہے کہ بہتری صرف ہوائی اور کاغذی نہیں ہے بلکہ عملی صورتوں میں ظہور پذیر ہورہی ہے۔
ذرا ایک غیرجانبدار نظر مختلف معاملات پر ڈالتے ہیں۔ سب سے پہلے سنگین ترین مسئلہ یعنی معیشت۔ تمام ملکی اور غیرملکی اندازوں کے برعکس جی ڈی پی 3.94 تک پہنچ رہی ہے اور مزید بہتر نتائج متوقع ہیں۔ ترسیلات زر 13.5 فیصد بڑھی ہیں اور 21 ارب ڈالرز کے لگ بھگ پہنچ گئی ہیں جو چار سال کی بلند ترین سطح ہے۔ اس میں بڑا دخل روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کا ہے جو بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے بڑی سہولت ہے۔ اس کا دو طرفہ فائدہ ہوا ہے ایک طر ف ملکی ذخائر میں بہتری آئی ہے، دوسری طرف بیرونی ممالک کے پاکستانیوں کوآسانی ہوگئی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کا لازمی نتیجہ یہ تھاکہ روپیہ بتدریج مضبوط ہوتا گیا اوراس وقت وہی روپیہ جو 172کے قریب تھا، 154کے آس پاس ہے۔ ایک بڑا مضبوط حوالہ کرنٹ اکاؤنٹ ہے جس کا خسارہ اربوں ڈالرز کے حساب سے چلا آتا تھا۔ یہ اکاؤنٹ اس وقت 773 ملین ڈالرز فائدے میں بتایا جارہا ہے۔ ایکسپورٹس بھی بڑھ کر 23ارب ڈالرز پر پہنچی ہیں۔ محصولات کی وصولی بھی ریکارڈ سطح پر بتائی جاتی ہے جو ایف بی آر کی کارکردگی کی دلیل ہے۔
معیشت سے جڑا ہوا کاروباری اور زرعی شعبہ ہے۔ اس میں ہول سیل اور ریٹیل سیکٹرز میں 8.37 فیصد اضافہ ظاہر ہورہا ہے۔ صنعتی پیداوار میں بھی اضافہ ہے۔ زرعی شعبے میں چھ فصلوں میں گندم، گنا، چاول، مکئی، آلواور دالیں ریکارڈ پیداوار تک پہنچی ہیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ برآمد کی جاسکتی ہیں یا کم از کم ان کی درآمد کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس میںخوشی کی بات یہ ہے کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کا نرخ اچھا ملا اور انہیں فائدہ ہوا ہے۔ گندم کی صورت میں یہ ریٹ 1800 سے 2000روپے من تک گیا ہے۔ اس کالم نگار کا تعلق براہ راست کاشت کاری سے نہیں لیکن ان دوستوں نے‘ جو زمینداری سے وابستہ ہیں، تصدیق کی ہے کہ کسانوں کو قرضوں وغیرہ کی خاص طور پر سہولتیں دی گئی ہیں۔
ملک میں امن و امان مثالی ہرگز نہیں اور پولیس اصلاحات کے جو خواب دیکھے گئے تھے وہ بھی ٹوٹ کررہ گئے ہیں، تاہم امن و امان کے معاملات میں ابتری نہیں آئی اورکوئی ایسی صورتحال جو بڑی گڑبڑ کی مظہر ہو، دیکھنے میں نہیں آئی۔ کراچی اور بلوچستان ان حوالوں سے ہربار سنگین سرخ نشانوں کے ساتھ نقشے پر ابھرتے تھے لیکن اس بار اللہ کا شکر ہے، اکادکا واقعات کے علاوہ اور کراچی میں سٹریٹ کرائمز کی شرح بڑھنے کے سوا مجموعی طور پر خیریت ہے۔
وزارت خارجہ کی کارکردگی مجموعی طور پر بہتر رہی ہے اور شاہ محمود قریشی نے اس بار بھی بہتر وزیرخارجہ ہونے کا تاثر قائم کیا ہے۔ کشمیر کے بارے میں الزامات کا ایک انبار لگایا جاتا رہا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس جو بھی راستے تھے اس نے ہندوستان کو بے نقاب کرنے کیلئے استعمال کیے۔ ان کے علاوہ اور ممکن بھی کیا تھا؟ فروری 2019 میں ہندوستان کی جارحیت کے جواب میں بھی عمران خان سرخرو ہوکر نکلے اور ہندوستان کو سبکی اٹھانی پڑی۔ یہ بہرحال ایک بڑا امتحان تھا۔ خاص طور پر اقوام متحدہ میں عمران خان کی یادگار تقریر مدتوں ذہنوں سے محو نہیں ہوسکے گی۔ ہندوتوا کے موجودہ مظہر نریندر مودی کی ذہنیت اور متعصبانہ، سفاکانہ پالیسیوں کو بھی پاکستان ہر ممکن حد تک بے نقاب کرتا رہا۔ مجموعی طور پر افغانستان اور ایران سے تعلقات بہتر ہوئے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں پاکستان نے ایک کلیدی کردار ادا کرکے ہندوستان کو منظر سے بہت حد تک باہر دھکیل دیا۔ آذربائیجان کی حالیہ جنگ میں پاکستان نے اصولوں کا ساتھ دیا چنانچہ پورے آذربائیجان میں ترکی اور پاکستان کے جھنڈے لہرائے گئے۔ اسرائیل فلسطین حالیہ تنازع میں پاکستان کا اہم کردار رہا جس کی تکلیف نیتن یاہو اور دیگر یہودی لیڈروں کی ٹویٹس سے بھی ظاہر ہوتی رہی۔ توہین کے عالمی مسئلے پر جس طرح عمران خان نے ڈٹ کر بات کی وہ ترک رہنما طیب اردوان کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں ہوسکی۔ پاکستان اپنے گوناگوں خاص طور پر معاشی مسائل کی وجہ سے بہت دبنگ کردار ادا نہیں کرسکا تاہم عمران خان کی تصویر مسلم امہ کے ایک نئے رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔
ابھی توحکومت کی کئی اور جہات کا جائزہ باقی ہے لیکن اس ملامتی کالم کی گنجائش ختم ہوگئی، لہٰذا عمران خان سے اختلاف بلکہ دشمنی رکھنے والوں کی باقی گالیاں کسی اور وقت کھانا پڑیں گی۔ (ختم)