تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     06-06-2021

Sikh Caucus

گزشتہ کالم میں برصغیر یا جنوبی ایشیا کی بے بسی کا ذکر اس حوالے سے ہوا تھا کہ گورا یعنی برطانوی راج یہاں پر ختم نہیں ہوا ہے۔حقائق اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بھی اخذ کیا گیا تھاکہ جنوبی ایشیا میں اپنی موجودگی ختم ہونے کے بعد برطانیہ خود اور اس خطے کو امریکہ جیسی سپر پاور کے حوالے کر چکاہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ ‘برطانیہ کی جگہ لے چکا ہے ۔اس سلسلے میں The Atlantic Charter کا بھی ذکر کیا گیا جو اس خطے کو اپنے مطیع رکھنے کا امریکہ بہادر کا برملا اظہار ہے۔برطانیہ نے اس خطے کو لولی لنگڑی آزادی دیتے وقت اس خطے کی تقسیم اتنی غیر منصفانہ طریقے سے کی کہ یہ خطہ دنیا کی سیاست میں ایک لنگڑے کی حیثیت رکھتا ہے۔مسلمانوں کو اکثریت والے تمام علاقے نہ دیے گئے‘کشمیر کے علاقے کو انتہائی ظالمانہ اور جابرانہ طریقے انڈیا کے زیر تسلط رکھنے کے انتظامات کر دیے گئے۔تقسیمِ ہند کے وقت ہونے والی ہجرت کے دوران ہونے والے فسادات اور کھلم کھلا قتلِ عام کا براہ راست برطانیہ کو اس طرح ذمہ دار ٹھہرایاجا سکتا ہے کہ لا کھوں کی تعداد میں فوج رکھنے والی طاقت نے لوگوں کی پر امن ہجرت کے لیے اگر صرف چند ہزار فوجی تعینات کر دیے ہوتے تو شاید ایک بھی جان نہ جاتی۔بہت سے دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ یہ فسادات باقاعدہ کروائے گئے یا کم از کم خود ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ یا جیسے پہلے کہا گیا کہ مہاجرین کو نقل مکانی کے لیے اپنے ناکافی وسائل پر چھوڑ دیا گیا جس کے نتیجے میں بربریت کی ایک ایسی داستان نے جنم لیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیںملتی۔اس ہجرت کا بنیادی اورسب سے بڑا مرکز پنجاب تھا اور ہجرت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں اور ہندوؤں کو بھی کرنا پڑی تو لامحالہ جانی و مالی نقصان بھی ان قوموں کا ہوا اور اگر علاقہ اور زبان کی مشترک قدروں کو دیکھیں تو یہ پنجابیوں کا Pogromتھا ۔ یہ لفظ آپ کے لیے شاید نیا یا اجنبی ہو ۔ اس لفظ کا تعلق نسل کشی یعنی Genocideسے ہے ‘فرق صرف یہ ہے کہ Genocide میں کسی خاص گروپ یا قوم کے لوگوں کو جان سے مارا جاتا ہے جبکہ Pogrom نسل کشی کی ایسی قسم ہے جس میں حالات ایسے پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ لوگوں کا جانی نقصان ہو جیسا کہ پاکستان بننے کے وقت ہوا تھا۔اس جانی نقصان کی تعداد کا اندازہ لگائیں تو یہ پنجابی ہولوکاسٹ سے کم نہیں۔
جنوبی ایشیا میں مغربی دنیا کی در اندازی کا شکار بھارت کی اقلیتیں بھی ہیں‘ اس کی سب سے بڑی مثال بھارتی پنجاب میں بسنے والے سکھ بھی ہیں جو آج بھی اپنی آزادی کی جنگ خالصتان کے حصول کے لیے لڑ رہے ہیں۔تقسیم کے وقت اس قوم سے خودمختار صوبے کا وعدہ کیا گیا تھامگر یہ برطانیہ اور برہمن کی بہت سی چالوں میں سے ایک چال ہی ثابت ہوا۔یہاں ایک بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کے افکار میں برہمن سوچ کی واضح نفی موجود ہے لہٰذابرہمن یا انڈیا میں راج کرنے والی برہمن ذات کے لوگ اس بات کو بہت محسوس کرتے ہیں۔ اس بات کا مظہر بھارتی آئین کی وہ شق ہے جو اس بات کا برملا اظہار کرتی ہے کہ سکھ ہندوئوں میں سے ہیں‘سکھوں کی آزادی کا ہیرو جرنیل سنگھ بھنڈراںوالا کا برہمن اندراگاندھی سے اختلاف کی ایک بڑی وجہ بھارتی آئین کی یہ شق بھی تھی۔یکم سے10جون ء 1984 کوسکھوں کی سب سے بڑی اور مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج نے آپریشن بلیو سٹار کے نام سے جو بہیمانہ ظلم کیا اور اس گردوارہ کا بڑا حصہ بھی تباہ کردیااس کا پس منظر بہت منافقانہ ہے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ اگر جرنیل سنگھ کچھ غلط کر رہا تھا تو اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیوں نہ کروایا گیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگراس عبادت گاہ کا صرف محاصرہ کر لیا جاتا تو اندر مکین لوگ کتنا عرصہ نکال سکتے‘ ہفتہ نہ سہی مہینہ لگ جاتا ‘اس بلڈنگ کا پانی اور بجلی کاٹ دی جاتی تو پر امن گرفتاری اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عبادت کے لیے آئے اور مارے جانے والے یاتری بھی بچ سکتے تھے۔ لیکن بھارتی حکومت کا بنیادی مقصد یہ ظلم کا میدان گرم کرنا تھا۔سکھ قوم کے لوگ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس حادثے کے بعد سکھوں کے اندر خوف اتنا بڑھ گیا کہ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے سکھ افسر بھی اس خوف میں مبتلاتھے کہ پتہ نہیں کس وقت ان کو بھی مار دیا جائے گا۔اسی خوف اور ظلم کی فضا میں اندرا گاندھی کا قتل ہوا۔اس واقعے میں شامل ایک سکھ کوموقع پر مار دیا گیا جبکہ دوسرا گرفتار کر لیا گیا مگر اس کے باوجود بھارت میں ہزاروںسکھوں کو جان سے مار دیا گیا اور ان کی املاک جلا دی گئیں ۔ اس کے بعد منتخب ہونے والے اندرا گاندھی کے بیٹے‘ بھارت کے اگلے وزیر اعظم راجیو گاندھی سے سکھوں کے اس کھلے قتل ِعام پر سوال کیا گیاتو اس نے اپنے جواب سے برہمن سوچ کی عکاسی ایک بار پھر کر دی‘ اس نے کہا تھا کہ جب بڑا درخت گرتا ہے تو زمین لرزتی تو ہے۔
اب اس خطے میں مغربی دنیا کی مداخلت کا ایک تازہ ترین نمونہ جس کو ایک کتاب میں ایک امریکی مصنف نے عیاں کیا ہے۔اس کتاب کا نام Sikh Caucusہے ۔ اب یہ Caucusلفظ بھی شاید بعض لوگوں کے لیے نیا ہو ۔یہ امریکی سیاست کا دیا ہوا ایک نیا انداز ہے‘ کاکس کا مطلب کسی خاص قوم کے لوگوں کا ایک ایسے طریقے سے اکٹھا ہوناہوتا ہے جس سے وہ امریکی سیاست میں منتخب ہونے والے لوگوں کی اپنے مسائل اور ترجیحات کے معاملے میں توجہ اور مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی بڑی مثال حالیہ الیکشن میں آرمینیا کاکس کی کامیابی ہے جنہوں نے امریکہ کی پچاس میں سے 49ریاستوں میں سیاسی حمایت حاصل کر لی ۔چونکہ یہ حمایت عیسائیت مذہب کے لوگوں کی تھی اور اس میں ترکی کو ایک سخت پیغام دینا بھی مقصود تھااس لئے بھاری کامیابی مل گئی مگر دہائیوں سے جاری سکھوں کی جدوجہد کو ایک روایتی سازش کے ذریعے سبوتاژ کردیا گیا۔ آر ایس ایس‘اور بھارتی ایجنسی RAW نے مل کر سکھ کاکس کے سرکردہ لوگوں کو بھاری رقوم کے عوض خرید کر‘یا شاید کرائے پر لے کر سکھ تحریک اور سکھ کاکس کو بانجھ کر دیا ۔اب یہ سکھ کاکس Coreمطالبات اور ایشوز کی بجائے صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہے جس کو انگلش میں Core to Cosmetic Policy کہاجاتا ہے۔حالانکہ بھارتی دارالحکومت میں جاری بھارتی پنجاب کے کسانوں کے مظاہروں کے تناظر میں سکھوں کے لیے امریکہ میں Sikh Caucusکے لیے سیاسی حمایت اور مدد حاصل کرنے کا یہ سنہری موقع تھا۔اس بھیانک کھیل میں بھارتی ایجنسیاں اس حد تک ملوث تھیں کہ بھارتی کسانوں کے نام سے سکھ کاکس کے نام جعلی خط بھی لکھے گئے‘یہ سب کچھ اسی وقت ممکن تھا جب امریکی سرکار کی اشیر باد شامل ہوتی۔دوسری طرف آپ کو یاد ہو گا کہ بھارت میں کسانوں کا مارچ اور مظاہرے اس قدر بھرپور اور جاندار تھے کہ بھارتی سرکار بالکل بے بس ہو گئی تھی‘یہاں تک کہ بھارت حکومت کے اقتدا ر اور طاقت کی پہچان سمجھے جانے والے لال قلعہ پر بھارت کے پرچم کی جگہ خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا گیا تھا۔
اس گمبھیر اور عالمی سازش کو بے نقاب کرنے والا امریکی مصنف Pieter Friedrichہے۔اس صحافی نے بجا طور پر کتاب کے سرورق سے ہی بات تمام کردی‘ اس نے کتاب کے نام کا بڑا ٹائٹل تو Sikh Caucusرکھا ہے مگر Sub Title کی ایک مختصر لائن میں سب کچھ کہہ دیا ہے :Siege in Delhi, Surrender in Washington

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved