پاکستان میں آجکل خوشحالی کا دور دورہ ہے لیکن یہ دیکھنے کے لیے شرط یہ ہے کہ حکومتی اعدادوشمار پر یقین کیا جائے۔ رواں مالی سال کے ماہ اپریل میں ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کر لیا گیا۔ ہدف 350 ارب روپے تھا لیکن ایف بی آر نے نو اعشاریہ سات فیصد زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق 384 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا گیا ہے جو کہ پچھلے سال اسی ماہ کی ٹیکس آمدن سے 57 فیصد زیادہ ہے۔ پچھلے سال ماہ اپریل میں ٹیکس آمدن 244 ارب روپے تھی۔ یہ موجودہ مالی سال میں دوسری بڑی ٹیکس آمدن ہے۔ اس سے پہلے مارچ 2021ء میں بھی ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا گیا تھا۔ 439ارب روپے کا ہدف طے کیا گیا تھا جبکہ آمدن 475ارب ریکارڈ کی گئی جو کہ آٹھ اعشاریہ دو فیصد اضافہ ہے۔
اگر مارچ 2020ء سے موازنہ کیا جائے تو 46فیصد اضافہ ہوا۔ پچھلے سال اسی ماہ میں ٹیکس آمدن326ارب روپے تھی‘ لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ پچھلے سال کی کارکردگی سے موازنہ کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ پچھلے سال اس ماہ میں ملک میں لاک ڈاؤن تھا‘ آج پورا ملک کھلا ہے؛چنانچہ حالات چاہے جیسے بھی ہوتے پچھلے سال سے تو بہتر ی ہی رہنے تھے۔ شرح نمو3.94 فیصد رپورٹ کی جا رہی ہے جبکہ (ن) لیگ کے سابق دور میں یہ پانچ اعشاریہ پانچ فیصدتھی۔ سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جبکہ ذرائع یہ تصدیق کر رہے ہیں کہ سٹاک ایکسچینج میں بہتری ایک کمپنی کے شیئرز کی خریدو فروخت سے ہوئی ہے جس کے بارے میں یہ خبر آئی ہے کہ پاکستان کا ایک بڑا گروپ اس کمپنی کے شیئرز خرید رہا ہے۔ اس کے بعد نقصان میں بکنے والے شیئرز کی قیمت ہر منٹ کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ گندم‘ مکئی اور سبزیوں کی فصلیں توقع سے زیادہ پیداوار دینے لگی ہیں جس کے بارے میں ثبوت موجود ہیں کہ فیڈرل کمیٹی آف ایگریکلچر کے مطابق گندم کی پیداوار چھبیس اعشاریہ پانچ ملین میٹرک ٹن ہے جبکہ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے ستائیس اعشاریہ تین ملین میٹرک ٹن گندم کی پیداوار بتائی ہے جو کہ شک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔
آجکل حکومتی اعدادوشمار دیکھ کر مجھے پرویز مشرف کا دور یاد آ گیا۔ صرف چند دنوں میں پراپرٹی کی قیمتیں بڑھ گئیں‘ الیکٹرانکس کا انقلاب سا آگیا‘ گاڑیاں سائیکلوں کی مانند بکنے لگیں‘ سی این جی لائسنس کا جمعہ بازار لگ گیا‘ بینکوں نے قرضوں کے منہ کھول دیے۔عام آدمی کی حالت میں فرق آیا‘ قرض لے کر گھر بننے لگے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شوکت عزیز صاحب کہا کرتے تھے کہ دعا کریں کہ پاکستان کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ مجھے اُس وقت یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن جیسے ہی پرویز مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو پتہ چلا کہ ملکی خزانے میں اتنے پیسے بھی نہیں کہ دو ماہ تک ملک چلا سکیں مجبوراً آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑا۔ اس وقت چین سمیت تمام دوست ممالک سے رابطہ کیا گیا لیکن کسی نہ ایک دھیلا بھی دینے سے انکار کر دیا۔ آئی ایم ایف سے بھیک مانگی گئی اور تاریخ کی بدترین مہنگائی سامنے آئی۔ جب شوکت عزیر کا اقتدار ختم ہوا تب سمجھ آئی کہ وہ نظر لگنے کی بات کیوں کر رہے تھے۔ وہ دراصل جانتے تھے کہ انہوں نے معیشت کے غبارے میں عارضی ہوا بھر رکھی ہے‘ جیسے ہی وہ نکلے گی حقیت عیاں ہو جائے گی۔حقیقت میں ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ جیسے ہی ان کا اقتدار ختم ہوا تو پتہ چلا کہ ملک میں بجلی نہیں ہے‘ گیس ختم ہونے کے قریب ہے‘ پورے ملک میں آٹا لینے کے لیے لائنیں لگی ہوئی تھیں اورخزانے خالی تھے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ آنے والے سالوں میں کیا ہوگا‘ ایک نظر ماضی قریب پر بھی ڈالنا ضروری ہے۔ پچھلے مالی سال میں ٹیکس آمدن تین اعشاریہ نو ٹریلین روپے بتائی گئی۔ جب اس سال اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو اکاؤنٹس فائنل کرنے لگے تو معلوم ہوا کہ سو ارب روپوں کی گرانٹ کو آمدن میں شامل کر لیا گیا تھا۔ یہ گرانٹ ٹیکس ریفنڈ کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔ اے جی پی آر کے مطابق اسے ریونیو میں شامل کرنا کرپشن ہے۔ یہ اعدادوشمار کو بڑھا چڑھا کر بتانے کے زمرے میں آتا ہے جو کہ ایک جرم ہے۔ اس کے مطابق آمدن کی رقم تین اعشاریہ آٹھ نو آٹھ ٹریلین روپے بنتی ہے۔ اس حوالے سے وزارتِ خزانہ سے جب رابطہ کیا گیا تو جواب نہیں ملا۔ ذرائع کے مطابق وزرات خزانہ میں اس ایشو پر میٹنگ بلا لی گئی ہے‘ جب کوئی جواب آئے گا تو آپ کو بتادیا جائے گا۔ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوئی‘ اے جی پی آر کے مطابق موجودہ مالی سال میں ٹیکس آمدن چار اعشاریہ ایک سات ٹریلین روپے ظاہر کی گئی ہے جو کہ غلط ہے۔ ان میں چالیس ارب روپے وہ بھی شامل کر لیے گئے ہیں جو ٹیکس ریفنڈ کے لیے گرانٹس کے طور پر ملے تھے۔ ادارے نے وزارتِ خزانہ سے کہا ہے کہ اس رقم کو آمدن میں سے نکالا جائے تا کہ وہ اکاؤنٹس فائنل کر سکیں۔ ان اعدادوشمار کے ساتھ اکاؤنٹس جاری نہیں کیے جائیں گے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ وفاق کو حاصل ہونے والی آمدن کو صوبوں میں طے شدہ فارمولے کے تحت تقسیم کیا جاتا ہے۔ سیون نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت وفاق کی آمدن کا ستاون اعشاریہ پانچ فیصد صوبوں کو دیا جانا ضروری ہے۔ اگر گرانٹ کی رقم کو آمدن بنایا جائے گا تو اسے بھی صوبوں میں تقسیم کرنا ہو گا‘ لیکن یہاں بھی حکومت قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مرضی کرتی دکھائی دی۔ پچھلے سال اگست میں وزرات خزانہ نے صوبوں کو وہی رقم تقسیم کی جو اصل میں ٹیکس مد میں وصول ہوئی تھی۔ ٹیکس صوبوں کو تقسیم کرتے وقت گرانٹ کی رقم کو نکال دیا گیا تھا لیکن ایف بی آر میں ٹیکس آمدن کی رقم کو درست نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایف بی آر نے غلطی سے گرانٹ کو آمدن میں شامل نہیں کیا بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ہوا ۔
میں نے ابھی اے جی پی آر کے ٹیکس آمدن پر اعتبار کے حوالے سے آپ کے سامنے حقائق رکھے ہیں۔ میں نے پچھلے کالم میں جب حکومت کی طرف سے شرح نمو کے تین اعشاریہ نو چار فیصد دعوے کا پوسٹ مارٹم کیا تھاتو میں نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ ٹیکس آمدن کے حوالے سے بھی اعدادوشمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے جا رہے ہیں جن کا ثبوت آج کے کالم میں دے دیا ہے۔ حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ عوام کے سامنے سچ رکھے‘ جھوٹ سے پرہیز کی جائے کیونکہ ایک دن سچ سامنے آجائے گا جس سے آپ کو سیاسی نقصان ہو گا۔ دراصل یہ کام شوکت ترین صاحب کے آنے کے بعد ہوا ہے‘ وہ پرانے کھلاڑی ہیں اور داو ٔپیچ بھی خوب جانتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ہم دکھائیں گے کہ غربت کا خاتمہ کیسے کیا جاتا ہے۔ جہاں تک مجھے ان کے ٹریک ریکارڈ کا پتہ ہے یہ اعدادوشمار کی حد تک ہی ہو گا لیکن یاد رکھیے کہ ان کے جانے کے بعد اصل راز کھل جائیں گے جیسا کہ حفیظ شیخ صاحب کے کھل رہے ہیں کہ انہوں نے چھ ارب ڈالرکے قرض کی بحالی کا نام لے کر پاکستانیوں پر تنخواہ کی مد میں ستائیس ارب روپوں کے مزید ٹیکسز لگانے کا وعدہ کیا تھا۔ جسے اب کم کر کے پانچ ارب کیا گیا ہے لیکن آئی ایم ایف مانتی ہے یا نہیں ‘کچھ کہا نہیں جا سکتا۔