چلنے کے لیے راستے پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ راستہ اپنی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے‘ دوسروں کی آنکھوں سے نہیں۔ اوروں کی بینائی اُن کے لیے ہوتی ہے۔ راستے کے تمام نشیب و فراز کو سمجھنا اور اُن سے مطابقت رکھنے والی حکمتِ عملی اختیار کرنا ہر انسان کا اپنا معاملہ ہے۔ ایک دوسرے کی مدد ضرور کی جاسکتی ہے مگر حتمی تجزیے میں معاملات کی ذمہ داری تو اپنے ہی کاندھوں پر آ پڑتی ہے۔ دنیا کا کاروبار گھوم پھر کر انفرادی معاملات تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ قائدین بھی تو انفرادی خصوصیات ہی بنیاد پر فیصلے کرتے‘ حکمتِ عملی اپناتے اور راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
ہر صورتِ حال کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ کسی بھی مشکل کو آسان کرنے کا ایک خصوصی طریقہ ہوتا ہے۔ مسائل کو حل کرنے کا کوئی خاص طریقہ تمام معاملات میں بروئے کار نہیں لایا جاسکتا۔ ایسا کرنے سے مسائل مزید پیچیدگی اختیار کرتے ہیں۔ ہم معمول کی زندگی میں بھیڑ چال کا شکار رہتے ہیں۔ زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہم دوسروں کی دیکھا دیکھی کرتے ہیں۔ سبھی ایک دوسرے کی نقّالی کرتے ہیں اور اس کا جو نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے وہی تو برآمد ہو رہا ہے۔ بھیڑ چال میں کیا ہوتا ہے؟ بے ذہنی جب رواج پا جاتی ہے تو دانش سے کام لینے کی روایت دم توڑنے لگتی ہے۔ شدید بے ذہنی کی حالت میں زندگی بسر کرنے سے انسان اپنے پورے وجود کو زنگ لگا بیٹھتا ہے۔
کسی کی بھینس بیمار ہوگئی تو اُس نے چوپال میں ذکر کیا۔ کسی نے پوچھا بھینس میں بیماری کی علامات کیا کیا ہیں؟ اُس نے علامات بتائیں تو دوا تجویز کی گئی۔ یہ دوا بھینس کو دی گئی۔ اگلے ہی دن بھینس مرگئی۔ وہ بے چارا چوپال میں پہنچا اور بتایا کہ تجویز کردہ دوا دینے پر بھینس مرگئی۔ جس نے دوا تجویز کی تھی اُس نے کہا :میری بھینس بھی مرگئی تھی! ہم بھی سیلف میڈیکیشن کے مرحلے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ جو کچھ دوسروں نے کیا ہو اُسی کو کافی سے زیادہ سمجھ کر کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر انسان کے مسائل مختلف ہوتے ہیں اور اُنہیں حل بھی مختلف طریقوں سے کیا جاسکتا ہے۔ ہم کسٹمائزیشن کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب کو اپنے مسائل کی نوعیت اور خصوصیات کے لحاظ سے حل تلاش کرنا چاہیے۔ ہر انسان کو اپنے مخصوص حالات کی بنیاد پر جینا ہوتا ہے۔ اپنے تناظر سے ہٹ کر جینے میں الجھنیں ہی الجھنیں ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ اپنے تناظر سے ہم آہنگی پیدا کرنا لازم ہے تاکہ کسی بھی معاملے میں خواہ مخواہ دُوئی اور دو رنگی پیدا نہ ہو۔ ہمارا تہذیبی پس منظر ہمیں بہت سے معاملات میں غیر معمولی اعتماد کی دولت سے نوازتا ہے۔ اپنی ثقافت اور تہذیب سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جینے والے زندگی میں معنویت پیدا کرنے میں نمایاں طور پر کامیاب رہتے ہیں۔ معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی‘ مطابقت پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ مطابقت یقینی بنائے بغیر ہم اپنی صلاحیت و سکت کو کماحقہ بروئے کار لانے میں ناکام رہتے ہیں۔ معاشرے صرف اُس وقت پروان چڑھتے ہیں جب وہ اپنے مسائل کو اپنے وسائل کے ادراک سے ہم آہنگ کرتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زمینی حقیقتوں کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستانی معاشرے کی چند نمایاں خرابیوں اور خامیوں میں بھیڑ چال اور بے ذہنی پر مبنی نقّالی سرِفہرست ہے۔ زندگی جیسی نعمت سے فیض یاب ہونے کی سنجیدہ کوشش کے بجائے ہم کسی نہ کسی طور وقت گزارے چلے جارہے ہیں۔ کسی کے مخصوص حالات کو ذہن نشین رکھے بغیر ہم بھی وہی کرنا چاہتے ہیں جو اُس نے کیا ہو۔ کیوں؟ ایسا کرنے میں آسانی ہی آسانی ہے۔ مسائل کی نوعیت پر غور کیے بغیر کسی دوسرے کے اپنائے ہوئے حل کو ہم اپنے مسائل پر بھی منطبق کرنے لگتے ہیں۔ یہ خطرناک عمل ہے۔ انفرادی سطح پر ہر انسان اپنے مسائل کو اپنے وجود کے پس منظر میں دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ اپنے آپ کو مسائل کے حل کے لیے تیار کرنے کا یہی معقول ترین طریقہ ہے۔ اگر ہم کسی چیز سے متاثر ہوکر اُسے اپنانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو بہت سے معاملات توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ مطابقت کس حد تک ہے۔ ضروری تو نہیں کہ جو چیز کسی کے لیے بہت مفید ہو وہ ہمارے لیے بھی مفید ہی ثابت ہو۔ اگر مطابقت نہ دیکھی جائے تو وہی بھینس والا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ کسی نے اپنے مسائل حل کرنے کے لیے جو طریق اختیار کیا ہو اُس کے نتائج کے بارے میں جاننا لازم ہے تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ ہمارے معاملے میں وہ طریق کس حد تک بارآور ثابت ہوسکے گا۔ کسی کو کسی خاص صورتِ حال میں کچھ کرنے سے جو کچھ حاصل ہوا ہو وہ جانے بغیر ڈھنگ سے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ ایسا نہ کیا جائے تو ہماری بھی بھینس مر ہی جاتی ہے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ اہلِ مغرب نے ہزاروں سال کی روایات کو بالائے طاق رکھ کر ایک ایسی طرزِ زندگی اپنائی ہے جو کسی بھی اعتبار سے انسانی مزاج اور اُس کی ضرورتوں سے پوری یا تسلّی بخش مطابقت نہیں رکھتی۔ جدیدیت کے نام پر ہر اوٹ پٹانگ رجحان کو اپناکر زندگی کا تیا پانچا کردیا گیا ہے۔ ترقی کے نام پر وہ تمام اقدار پامال کردی گئی ہیں جو دسیوں صدیوں میں پروان چڑھی تھیں۔ زندگی کا مادی پہلو یقینی بنانے کے نام پر زندگی کا روحانی پہلو یوں نظر انداز کردیا گیا ہے کہ اب کچھ سُوجھتا ہی نہیں۔ مغرب نے بزرگوں کی ہزاروں سال کی میراث کو ترک کرکے جو غیر شخصی (impersonal) زندگی اپنائی ہے اُس کا کھوکھلا پن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ چار پانچ صدیوں کے دوران مغربی معاشرے اخلاقی اعتبار سے صرف گراوٹ کی طرف گئے ہیں۔ دنیا کو پانے کی دھن میں سبھی کچھ داؤ پر لگادیا گیا ہے۔ صرف مادی ترقی ہی زندگی کا منتہائِ مقصود ہوکر رہ گئی ہے۔ خالص مادہ پرستی نے زندگی کے ہر معاملے‘ ہر پہلو کو صرف اور صرف جلبِ منفعت تک محدود کردیا ہے۔
مشرقی معاشروں کے پاس ایسا بہت کچھ نہیں جو مغربی معاشروں کے پاس ہے مگر یہ کیا کم ہے کہ انہوں نے ہزاروں سال کی اخلاقی و تہذیبی اقدار کو کسی نہ کسی طور اپنا رکھا ہے‘ زندہ رکھا ہے۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں یہ بات صاف محسوس کی جاسکتی ہے کہ ماضی کی تابندہ روایات سے جُڑے رہنے ہی میں عافیت ہے۔ مادی ترقی نے تمام معاملات کی بساط لپیٹنے کی ٹھان رکھی ہے۔ فطری علوم و فنون کی بے مثال‘ حیرت انگیز ترقی نے زندگی کو آسان کم بنایا ہے‘ مشکلات زیادہ بڑھادی ہیں۔ ایسے میں رہی سہی کسر اس بھیانک مشق نے پوری کردی ہے کہ دنیا بھر میں پس ماندہ معاشرے مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں کی تقلید میں اپنی روایات اور اقدار سے ہاتھ دھوتے جارہے ہیں۔ معاملہ وہی بھینس کے علاج والا ہے۔ مغرب نے جب فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بنائی تو کچھ نیا کرنے کا سوچا۔ زندگی کو نیا روپ دینے کے نام پر ماضی کو بالکل ترک کرنے کی روش اپنائی گئی۔ ہزاروں سال کے تفاعل میں پنپنے والی اقدار کو ترک کرکے مغرب نے غیرت‘ شرم اور حِس سے عاری طرزِ زندگی اپنائی ہے اور ادھر ہم‘ یعنی پس ماندہ معاشرے‘ ہیں کہ سوچے سمجھے بغیر مغرب کی تقلید کیے جارہے ہیں۔ اب مغرب کے اپنے ماہرین اور اہلِ دانش بھی باقی دنیا سے کہہ رہے ہیں کہ کچھ ہوش کرو‘ ذہن کو بروئے کار لاؤ‘ غور و فکر کرو‘ ہر معاملے میں ہماری تقلید نہ کرو کیونکہ ایسا کرنے سے تمہاری بھینس بھی مر جائے گی! ہمیں وہی کرنا ہے جو ہماری ضرورت کے مطابق ہو۔ نئی طرزِ زندگی اپنانا بھی پڑے تو وہی جو ہماری ضرورتوں ہی نہیں‘ خواہشوں اور امنگوں سے بھی مطابقت رکھتی ہو۔ ہر اعتبار سے قابلِ قبول حد تک متوازن طرزِ زندگی یقینی بنانا اُسی وقت ممکن ہے جب حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف وہی کچھ اپنایا جائے جو معقولیت سے مزین ہو۔ اندھی تقلید ہمیں اندھے کنووں میں گراتی آئی ہے اور گراتی رہے گی۔ عہدِ حاضر کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی اہم کام عقل کو بروئے کار لائے بغیر نہ کیا جائے۔