تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     06-06-2021

جب اچھی خبر بری بن جائے

''2020-21ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 7.7فیصد تک گر گئی ‘‘۔ ٹھہریں‘ یہ پاکستان کی نہیں انڈیا کی خبر ہے‘ ذرا جذبات کے گھوڑے کو لگام دیں ''جی ڈی پی کی شرح نمو 3.94فیصد تک بڑھ گئی‘‘۔ ''کیا پاکستان کی بات ہورہی ہے ؟ یقینا اعدادوشمار کا ہیر پھیر ہوگا‘‘۔ تشکیک پسند سوال کرتے ہیں لیکن حکومت‘ سٹیٹ بینک‘ عالمی مالیاتی ادارہ‘ عالمی بینک ‘ سب کس طرح غلط ہوسکتے ہیں ؟ ماہرین‘ اکانومسٹ‘ اینکر ز‘ برآمدکنندگان‘ سب خوف زدہ تھے ۔ وہ تباہی کے منڈلاتے ہوئے سائے دیکھ رہے تھے ‘ لیکن اچھی چیز بری اور بری چیز اچھی کیوں ہے ؟ذرا دیکھیں کہ گزشتہ چند ایک برسوں سے پاکستان کے بارے میں تاثر کیا تھا ؟ اسے ایکrogue state ‘ ایک ناکام ریاست ‘ دہشت گردوں کا گڑھ ‘ کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ کیا یہ ایک حقیقت ہے ؟ہر گز نہیں ‘یقینا ایسا نہیں ہے ‘ تو پھر اس کے بارے میں یہ تاثر عام کیو ں ہوا؟ ملک کے بیانیے کے ساتھ کیا مسئلہ تھا؟ ہم اپنا بیانیہ کیوں تشکیل نہ دے سکے ؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دیاجانا ابھی باقی ہے ۔ شاید اس لیے کہ ان کے جوابات اُن کے لیے بہت پریشان کن ہیں جن سے یہ پوچھے جانے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ریاست دشمن منفی تاثر کا توڑ کرنے کے لیے درست جوابات تلاش کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔ ممکن ہے کہ یہ بات اتنی سہل ہوکہ اس میں کوئی تبدیلی نہ لائی جاسکتی ہو۔ جو بھی وجہ ہو‘ ملک کی اس منفی تصویر پیش کیے جانے کی وجہ سے وہ مسائل پیدا ہوئے جو اس کی ساکھ قائم کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔ عام طور پر لوگ بیرونی طاقتوں کی طرف انگشت نمائی کرتے ہیں جب وہ کسی اور ملک کی مخصوص تصویر پیش کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں ۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے عادت سی اپنا لی ہے کہ اپنے بارے میں سامنے آنے والی ہر منفی بات پر یقین کرلیتے ہیں ۔ آئیے اُن عوامل پر غورکریں جو یہ تاثر قائم کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں:
گورننس اور لاتعلقی : ایک اچھی پراڈکٹ کو برانڈ بننے کے لیے مارکیٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتوں نے نہ تو پراڈکٹ بہتر بنانے پر کام کیا اور نہ اس کی مارکیٹنگ پر توجہ دی ۔ اس کی وجہ سے ملک کا تاثر بہتر نہ بنایا جاسکا۔ اگرچہ خطے کے بہت سے ممالک کامیابی کی مثال بن چکے ہیں ‘ پاکستان کو سیاسی غیر یقینی پن‘ ناہموار پالیسی اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے صلاحیت کے فقدان کا سامنا رہا ہے ۔ بھارت نے ماضی میں اور بنگلہ دیش نے حال ہی میں اپنے ملک کے بارے میں تاثر پاکستان سے کہیں بہتر اندازمیں پیش کیا ۔ پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتیں اپنا اقتدار‘ پوزیشن اور دولت بچانے میں اتنی مصروف رہیں کہ ان معاملات پر توجہ ہی نہ دے سکیں ۔ توجہ کی کمی نے ہمارے دشمنوں کوموقع دے دیا ۔ اُنہوں نے ہمارا وہ بیانیہ آگے بڑھا یا جو اُن کے عزائم سے مطابقت رکھتا تھا ۔ انڈیا نے ہمیں دنیا میں دہشت گردی کی ترویج کرنے والی ایک انتہا پسندقوم کے طور پر پیش کیا ۔ اب کہیں جا کر اس بیانیے کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس بیانیے کا توڑ کرتے ہوئے بھارت کو نسل پرستی اور انتہا پسندی کے گڑھ کے طور پر پیش کیا گیا۔
میڈیا ڈی این اے: ہیجان خیزی ناظرین کو متوجہ کرتی ہے ۔ دنیا بھر میں ‘ خاص طور پر پاکستان میں میڈیا اشتعال اور ہیجان خیزی پیش کرتے ہوئے پروان چڑھا ‘ چاہے یہ سکینڈل ‘ الزام‘ دھماکے ‘ افراتفری ‘ تشدد یا انتہا پسندی کی صورت میں ہو ۔ بریکنگ نیوز میں ہمیشہ بہتا ہوا خون ‘ کٹے ہوئے اعضا اور اذیت ناک مناظر ہوتے ہیں۔اس کا موازنہ امریکا سے کیجیے ‘ وہاں گزشتہ پانچ ماہ میں تشدد اور فائرنگ کے 232واقعات پیش آئے ہیں جن میں دفتروں‘ تعلیمی اداروں‘ پارکوںاور گھروں میں درجنوں افراد مارے گئے لیکن ان پر ابتدائی چند گھنٹوں کے بعد کوئی بھی بات نہیں کرتا۔ دوسری طرف ہمارا میڈیا ہے کہ مظلوم شخص کا گھر یا قبر تک تلاش کرلیتا ہے ۔تشدد کے مناظر کئی دنوں تک دہرائے جاتے ہیں پھر یہ مناظر بھارت اور مغرب تک پہنچ کر پاکستان کے بارے میں مخصوص بیانیہ تشکیل دینے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ۔ دوسری طرف کشمیر یا بھارت میں ہونے والے تشدد کی رپورٹنگ محض ایک خبر کے طور پر کی جاتی ہے لیکن اسے ہیجان خیز نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی اس کا اعادہ ہوتا ہے ۔
مظلومیت کی نفسیات: بطور ایک قوم ہمارا مشغلہ اپنی ہی قوم کو ہدف تنقید بنانا ہے ۔ ہم حکومت ‘ نظام ‘ دفاعی اداروں الغرض اپنے سوا ہر کسی کو مورد ِالزام ٹھہرانا پسند کرتے ہیں ۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم بدقسمت ہیں اسی لیے ہرکوئی ہمیں استعمال کرلیتا ہے ۔ یہ منقسم اور منتشر جذبہ ملک کی صلاحیتوں کو تباہ کردیتا ہے ۔ نظام یا حکومت میں تبدیلی لانے کی ذمہ داری قوم پر مجموعی طور پر عائد ہوتی ہے۔ اس کی بڑی مثال کورونا ہے ۔ اگرلوگوں نے تعاون نہ کیا اور ذمہ داری محسوس نہ کی تو یہ دوبارہ واپس آجائے گا۔ یہ کشش کے قانون کی طرح ہے ۔ جب لوگ بدتر کی توقع کرتے ہوئے بدترین صورت حال کی باتیں کررہے ہوتے ہیں تو عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ہمارا میڈیا بری خبروں پر پروان چڑھا ہے ۔ ایک طویل عرصے تک ٹاک شوز کے ناظرین کی تعداد تفریحی پروگراموں سے بھی بڑھ گئی تھی ۔ اب جب ناظرین دوبارہ تفریحی پروگراموں کی طرف جارہے ہیں میڈیا اپنا فارمیٹ تبدیل کیے بغیر اب بری خبر کو بدترین ہیجان خیزی میں تبدیل کرکے پیش کررہا ہے تاکہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوسکیں ۔ بیرونی دنیا کے لیے مثبت بیانیہ رکھنے کے لیے ہمیں پہلے داخلی طور پر مثبت بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔
قیادت کی ذمہ داری: کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اچھے نتائج پیش کرے اور یقینی بنائے کہ اس سے مثبت تاثر جائے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آتے ہی تباہی بربادی کی دہائی دینا شروع کردی گئی ۔ اس میں پہلا سال گزر گیا ۔ حکومت کو ایسی معیشت ملی تھی جو موڈیز کی درجہ بندی میں منفی اور غیر مستحکم تھی۔ کوئی بھی اس کے بارے میں بات نہیں کرتا تھا ۔ حکومت کے علاوہ اراکین قومی اسمبلی کوبھی اس بیانیے میں اپنی آواز ملانا پڑتی ہے ۔ اُنہیں اپنے حلقے کے عوام سے رابطے میں رہتے ہوئے اُنہیں سمجھانا ہوتا ہے تاکہ اُن کے تصورات محض سڑکوں کی تعمیر اور ٹرانسفارمر نصب کرنے سے آگے بڑھ کر نظام کو بہتر بنانے کے ہوں اور اُنہیں بتایا جائے کہ اس میں وقت لگے گا۔
میڈیا کا توازن : میڈیا کو خراب معیشت بھاتی ہے ۔ اس وقت کورونا کے خوفناک سال میں جب طاقتور معیشتیں بھی زمین بوس ہوگئیں‘پاکستانی معیشت چار فیصد کی شرح سے نمو پارہی ہے ۔ اس پر میڈیا ناخوش ہے ۔ وہ تنقید کرنے کی طریقے تلاش کررہا ہے ۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مثبت بیانیے کو بھی اتنی ہی شدومد سے پیش کیا جائے جتنامنفی کواجاگر کیا جاتا ہے ۔ تصویر کا محض ایک پہلو پیش کرنا خود میڈیا کے لیے نقصان دہ ہے کیوں کہ لوگ اُن سے بددل ہوکر دوسرا چینل لگالیں گے ۔
مشترکہ ذمہ داری : بھارت کا ہر شہری اپنے ملک کا سفیر ہے ۔ ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہو‘زیادہ تر بھارتی بیرونی دنیا میں اپنے ملک کی تعریف ہی کریں گے ۔ یہی رویہ درکار ہے ۔ ہر پاکستانی کو خود کو ملک کا سفیر سمجھنا چاہیے ۔ وہ اپنے ملک کا چلتا پھرتا اشتہار ہے ۔ اُنہیں ملک میں ہونے والے اچھے کاموں کو اجاگر کرنا چاہیے ۔ اگر 220 ملین افراد یہ کہیں کہ اُن کا ملک کورونا سے نمٹنے کے لیے ایک مثال ہے کہ اس نے سمارٹ حکمت عملی اپناتے ہوئے اس عالمی وبا کے دوران غریب افراد کو بچایا‘ مشکل حالات کے باوجود معیشت کو ترقی دی تو دنیا اس آواز کو نظر انداز نہیں کرسکے گی ۔
کئی ممالک جن کے پاس وسائل کی قلت اور امن و امان کے سنگین مسائل ہوتے ہیں وہ بھی اچھی خبربن جاتے ہیں ۔سری لنکا اور جنوبی افریقہ دہشت گردی اور تشدد کی تاریخ رکھنے کے باجود لوگوں کے ذہنوں میں اچھا تاثر رکھتے ہیں ۔ اسی طرح کورونا کے مشکل حالات کے دوران معیشت کی بحالی ‘ لوگوں کی جانوں کے ساتھ ساتھ اُن کا روزگار اور آمدنی کے ذرائع بچانے کی کہانی محض ایک مضمون نہیں بلکہ اس دور کی پوری تاریخ کی دستاویز میں جگہ پانے کی حق دار ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved