اقتدار میں آ کر روٹی، کپڑا اور مکان دیں گے:بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''اقتدار میں آ کر روٹی، کپڑا اور مکان دیں گے‘‘ کیونکہ گزشتہ دورِ اقتدار میں دی گئی روٹیاں عوام کھا چکے‘ کپڑا ہنڈا چکے اور مکانات کو بھی استعمال کر کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر چکے ہیں، اس لیے عوام کو چاہیے کہ ہمارے اقتدار میں آنے تک کسی نہ کسی طرح گزارہ کریں کیونکہ اس بار ہم انہیں پراٹھے مہیا کریں گے اور کم از کم دو گھوڑا بوسکی کے سوٹ اور لندن اور دبئی جیسے فلیٹس بنا کر دیں گے یا جو فلیٹس ہمارے ان ملکوں میں ہیں‘ وہ بھی دے سکتے ہیں؛ چنانچہ اس و قت تک روزے رکھا کریں اور جیسے تیسے کر کے ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں بسیرا کر لیا کریں ویسے بھی شاہینوں کا اصل بسیرا چٹانوں ہی میں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے معمول کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
بجٹ کو اپوزیشن بھی سراہنے پر مجبور ہوگی: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''بجٹ کو اپوزیشن بھی سراہنے پر مجبور ہوگی‘‘ اگرچہ کسی چیز کو سراہنے کا اس کا اپنا طریقہ ہے، جیسے کہ وہ حکومت کو بھی سراہتی رہتی ہے اور ہمیں اصل تشویش یہ ہے کہ ترین اینڈ کمپنی بھی کہیں بجٹ کو ایسے طریقے سے سراہنا نہ شروع کر دے جسے انکوائری رپورٹ کے آنے تک بہلا کر رکھا ہوا ہے کیونکہ وزیراعظم انہیں مطلوب چیزیں فراہم کر کے حکومت کی رہی سہی ساکھ کو بھی دائو پر نہیں لگا سکتے، اس لیے ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ اپوزیشن اور ترین گروپ کو نیک ہدایت سے سرفراز کرے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔
بجٹ کے پاس ہونے میں کوئی مشکل نظر نہیں آ رہی: اسد قیصر
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ''بجٹ کے پاس ہونے میں کوئی مشکل نظر نہیں آ رہی‘‘ ویسے بجٹ کا پاس ہونا یا نہ ہونا حکومت کا اپنا مسئلہ ہے لیکن اس میں حکومتی ارکان کا جو کردار رہا ہے، اس سے بھی آنکھیں نہیں پھیری جا سکتیں، اگرچہ آنکھیں پھیرنا سیاست میں انوکھی چیز نہیں ہے؛ تاہم اپوزیشن کو میرے خلاف تحریک عدم اعتماد کا خیال بھی آ سکتا ہے۔ ورنہ تو میں حکومت کے بجائے پورے ایوان کا سپیکر ہوں لیکن صرف ہائوس کے اندر۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عوام وزیراعظم کے لگائے 1 ارب درخت ڈھونڈ رہے : رانا ثناء
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ''عوام وزیراعظم کے لگائے ایک ارب درخت ڈھونڈ رہے ہیں‘‘ کیونکہ ہماری طرح وہ بھی آج کل بالکل فارغ ہیں اس لیے سارے اسی مہم پر نکلے ہوئے ہیں؛ تاہم فی الحال وہ شہروں کی گلیوں ہی تک اپنی تلاش کو محدود رکھے ہوئے ہیں، بہت جلد وہ دیہات کا بھی رخ کریں گے اور یہ معلوم کریں گے کہ ان میں کوئی جنگل بھی ہے یا نہیں‘ جو ہمارے اگلے دور میں چھانگا مانگا کے طور پر کام آ سکے کیونکہ جنگل کی اہمیت ہمارے نزدیک شہر سے بھی زیادہ ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا انتخابی نشان شیر ہے جو جنگل ہی میں دستیاب ہے۔ آپ اگلے روز پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
سرِ شہر غمگساراں
یہ ہمارے دیرینہ دوست بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے ۔انتساب جلتے بجھتے لمحوں کے نام ہے، پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور تعارف کی تحریر ہے۔ اندرونِ سرورق تحریر افتخار عارف (ستارۂ امتیاز، ہلالِ امتیاز) کی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ شاعر نہ صرف یہ کہ ذوقِ صحیح کا مالک ہے بلکہ زبان و بیان کے قرینوں سے بھی واقف ہے اور فن شعر پر بھی کماحقہٗ دسترس رکھتا ہے اور سرِشہرِ غمگساراں کا شاعر اس کتاب کی اشاعت کے بعد شاعری کے شہرِ بے مثال کا مستقل شہری قرار دیا جائے تو یہ حیرت کی بات نہیں ہوگی، کتاب میں امجد اسلام امجد کی توصیفی رائے اور ڈاکٹر ناہید قاسمی کا دیباچہ بھی شامل ہے۔ نمونۂ کلام:
جی لیے، زندگی رہی، سو رہی
جو کمی تھی کہیں، رہی‘ سو رہی
وہ ملا تھا ہمیں بچھڑنے کو
ایک پل جو خوشی رہی‘ سو رہی
شہر میں دوست کون تھا یوسفؔ
جان پہچان تھی، رہی‘ سو رہی
اور‘ اب فیصل آباد سے شہزاد بیگ کی نظم:
فلسطینیوں کے لیے ایک پکار
دیکھ سکتے ہو تو دیکھنا
تم جو بینائی سے آج محروم ہو
اپنی لکنت سے پتھر ہوئے
بول سکتے ہو تو بولنا
چیتھڑے جسموں کے وہ جو ملبہ ہوئے
ان کے نیچے دبی زندگی کی صدا
سن سکو تو سنو
تم جو احساس سے ہو تہی
سب کے سب بے نوا
سب کے سب بے اثر
اپنے مال ومتاع
اپنی آسائشوں میں مگن سب کے سب
سب یہود و نصاریٰ کی شطرنج کے مہرے ہو
شاہ بھی، فیل بھی اور پیادہ ہو تم
بے حسی کا لبادہ ہو تم
لاکھ بھی ہوئے تم، ایک ہونے سے قاصر رہے
بے ضمیری کا پیکر ہو تم
سن سکو تو سنو
کم نسب حیلہ سازو سنو
گڑگڑاہٹ سنو آسماں پر یہ میزائلوں
کی برستی ہوئی گولیوں کی
اور کم سن تڑپتے ہوئے ننھے معصوم
لاشوں کے انبار سے خاک و خوں کا
یہی بازار سج تو گیا
اپنے حصے کی ہمدردیوں کے ریال
اپنے چوغوں سے باہر نکالو
اور خریدو فلسطینیوں کا لہو
ان کی بے چارگی
آج کا مقطع
شاعری اور طرح کی اسے کہتے ہو‘ ظفرؔ
میں پریشاں ہوں کہ یہ شاعری ہے بھی کہ نہیں