تحریر : اقتدار جاوید تاریخ اشاعت     07-06-2021

لوح

مجھے اس لیے بھی ''لوح‘‘ کے ناول نمبر کا انتظار تھا کہ دیکھ سکوں اس کے مدیر ممتاز شیخ نے کن کن اور کیسے کیسے موتیوں کو ایک تسبیح میں پرویا ہے؟ دیکھوں کہ اردو ناول کے لیے کہاں کہاں کام ہو رہا ہے اور اردو کے لیے کون کون سا ناول نگار کس کس علاقے سے اپنا حصہ ڈال رہا ہے؟ کچھ عصبیت اپنے پنجابی ہونے کی بھی ہے۔ اردو نظم اور بالخصوص جدید اردو نظم میں پنجاب کے جن اصحاب کا حصہ ہے وہ ہر کسی کے علم میں ہے۔ اقبالؔ سے لے کر میرا جی، ن م راشد، مجید امجد، تخت سنگھ، کمار پاشی، منیر نیازی، وزیر آغا، اختر حسین جعفری اور پھر ان کے بعد آنے والے زیادہ تر نظم نگار پنجاب سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ تنقید میں تو پنجاب کی حکمرانی مسلّم ہے ہی غزل میں بھی جس طرح ظفر اقبال نے نئی صورت گری کی ہے وہ بھی ازحد اہم ہے۔ اسی طرح میں ناول کو بھی اسی نکتے کو مدنظر رکھ کر دیکھنا چاہتا تھا۔
1947ء کے بعد کا ناول نمبر میرے سامنے ہے۔ لوح کو اس کے مدیر ممتاز شیخ نے ترتیب دیا ہے۔ اس میں 44 نمائندہ ناول نگار شامل ہیں۔ جن میں 22 سے زیادہ لکھاریوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ان میں بلونت سنگھ، ممتاز مفتی، راجندر سنگھ بیدی، عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، جمیلہ ہاشمی، الطاف فاطمہ، مستنصر حسین تارڑ، انیس ناگی، محمد خالد اختر، خالدہ حسین، مرزا اطہر بیگ، محمد حمید شاہد، یونس جاوید، مرزا حامد بیگ، محمد الیاس، خالد فتح محمد، حفیظ خان شامل ہیں‘ ان کے علاوہ بھی اور ضرور ہوں گے۔
ناول کے پہلے دور میں جن پانچ عظیم ناول نگاروں کے نام شامل ہیں ان میں پریم چند، عزیز احمد، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور سجاد ظہیر ہیں‘ یہ سب ان علاقوں سے تعلق رکھتے تھے جہاں شرح خواندگی پنجاب سے کہیں زیادہ تھی اور شمالی ہندوستان تو جیسے دہلی میں ختم ہو جاتا تھا۔ پنجاب کو گویا شمالی ہندوستان کا حصہ سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ جب پنجاب میں جدید تعلیم کا دور آیا تو ناول کی دیوی بھی پنجاب پر ہی مہربان ہو گئی۔ اس کو اگر ایک اور حوالے سے دیکھیں تو ناول نگاری شمالی ہند ہی نے کی ہے۔ اس شمالی ہند میں پریم چند، قرۃ العین، عصمت چغتائی اور شمس الرحمن فاروقی کا یو پی‘ بس ایک جنوبی ہند کے عزیز احمد بچتے ہیں جو اُس علاقے میں پیدا ہوئے جو آج کل ریاست تلنگانہ میں شامل ہے۔
ظاہر ہے جس علاقے کا ناول نگار ہو گا وہ اسی تہذیب کی نماندگی کرے گا جہاں اس نے زندگی گزاری ہے۔ اگرچہ یہ کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے۔ میں تو صرف ان ناولوں میں بالخصوص یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ پنجاب کی ترجمانی کرنے والوں نے پنجاب کے کس کلچر اور کس تہذیب کی بات کی ہے۔ ترتیب کے لحاظ سے دیکھیں تو بلونت سنگھ کا ناول ایک معمولی لڑکی پہلا ناول ہے۔ یہ پچاس کی دہائی میں شائع ہوا۔ اس ناول کے منتخب باب میں بیروزگاری ہے، آزادی کی تڑپ ہے، ایک معمولی لڑکی ہے جس پر کبھی آریائی اور منگول ہونے کا شبہ ہوتا ہے اور لاہور ہے۔ بلونت سنگھ میرے پسندیدہ ناول نگار ہیں۔ انہوں نے معمولی لڑکی کے نین نقش لکھتے ہوئے بین السطور بہت گہری باتیں کی ہیں جن میں یہاں آریائی حملوں اور منگول حملوں اور ان کی کارستانیوں اور ظلم و بربریت، لوٹ کھسوٹ اور عصمت دری کی وجہ سے مکسڈ نسل کا ظہور پذیر ہونا مذکور ہے۔ لکھتے ہیں: ''ناک کی بناوٹ آریائی نہیں تھی بلکہ اس کی ساخت کچھ منگول ٹائپ کی تھی لیکن قطعاً منگولی نہیں تھی‘‘۔ بلونت سنگھ چک بہلول گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے۔ ''علی پور کاایلی‘‘ ممتاز مفتی کا ناول ہے جو بلونت سنگھ کے ناول کے ساتھ ہی‘ ایک دو سال کے وقفے میں شائع ہو گیا تھا، یہ ایک ضخیم ناول ہے۔ علی پور کا ایلی نے ناول کی پرانی عمارت گرا کر نئی بنیاد کھڑی کر دی۔ محلہ آصفی کی وساطت سے تاریخ، معاشرت اور جنس کو باہم آمیز کر کے ایلی الیاس‘ اس کی بہن فرحت، ماں ہاجرہ اور سوتیلی ماں صفیہ کے ذریعے کہانی کو بڑھایا گیا۔ ''ایک چادر میلی سی‘‘ راجندر سنگھ بیدی کا یہ ناول ساٹھ کے عشرے میں شائع ہوا۔ بیدی دلیوالی سیالکوٹ کا رہنے والا‘ اپنے پنجاب‘ اپنے شہروں کو کیسے بھول سکتا تھا۔ اس کے مذکورہ ناول میں پنجاب کے دیہات کے شب و روز کا تو احوال ہے ہی ناول میں کہیں سیالکوٹ ہے‘ کہیں جہلم ہے‘ کہیں جہلم کے داماد کا تذکرہ ہے۔ جس طرح بیدی نے اس ناول میں پنجاب کی عورت کا نقشہ اور اس کی نفسیات کا مطالعہ کیا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔ انہوں نے پنجاب کے ماضی کے بجائے اس کے حال سے تعلق بنایا ہے۔
''ماتا رانی کے دربار میں جوتیں جل رہی ہیں‘ میا رانی کے دربار میں جوتیں جل رہی ہیں۔ اور ان جوتوں کی چمک اس کی پھیلتی، کانچ ہوتی آنکھوں میں چلی آتی تھی۔ بیچ میں اس کا رنگ ایکا ایکی پیلا پڑ جاتا اور پھر ایک دم لال کیسری ہو اٹھتا۔ پھر اس نے کود کود کے اور اچھل اچھل کے لپک لپک کے گانا شروع کر دیا
ہے میا تسیں ستے بھیناں گوریاں
سر لال پھلاں دیاں جوڑیاں
میا رانی دے دربار جوتاں جگدیاں‘‘
عبداللہ حسین‘ جن کا اصل نام محمد خان تھا‘ گجرات کے رہنے والے تھے۔ گجرات ضلع کے دو حصوں میں تقسیم ہونے سے اب ہمارا گجراتی ہونے کا دعویٰ خود ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ ان کی زندگی میں گجرات ہمیشہ ساتھ رہا۔ اداس نسلیں کا موضوع تو برطانیہ کا غیر منقسم ہندوستان ہے البتہ کہیں گھوکلے کا ذکر ہے اور کہیں تقسیم بنگال کا۔ ان کے ایک کردار روشن آغا کا گائوں روشن پور کے بارے میں یہ فیصلہ ہی نہیں پاتا کہ اس کی حدود پنجاب میں شامل ہوتی ہیں یا دہلی میں۔ ویسے دہلی بھی پنجاب کا ہی حصہ تھا۔ بانو قدسیہ اسی عصر سے تعلق رکھتی ہیں مگر ستر کی دہائی کی سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے معاشرت کی نئی حد بندی ہوئی‘ راجہ گدھ اسی عہد کی کہانی ہے۔ اندرونِ لاہور کے لڑکے اور گلبرگ کی لڑکی کی داستان محبت بھی۔ یونیورسٹی میں پہلے دن اور پہلی کلاس میں محبت شروع ہوتی ہے اور گلبرگ کی رہنے والی آفتاب کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اس کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ ان دونوں کا تعلق لاہور سے ہے اور اسی شہر کی معاشرت کا ذکر ہے۔
قصہ مختصر‘ ان منتخب بیالیس ناول نگاروں کی فہرست میں بائیس کا تعلق پنجاب سے ہے۔جن میں انور سجاد، جمیلہ ہاشمی، الطاف فاطمہ، مستنصر حسین تارڑ، انیس ناگی، محمد خالد اختر، خالدہ حسین، مرزا اطہر بیگ، محمد حمید شاہد، یونس جاوید، مرزا حامد بیگ، محمد الیاس، حفیظ خان اور میرے عہد کے پسندیدہ ناول نگار خالد فتح محمد شامل ہیں۔ خالد فتح محمد ہر تجربے کے بعد دوسرا بڑے تجربہ شیئر کرتے ہیں۔ ابھی شہرِ مدفون‘ ٹبہ اور خلیج کے اسرار سے باہر نہیں نکلے تھے کہ سودوزیاں کے درمیاں کی ایک نئی کہانی اور ایک نیا مواد لیے ناول لے آئے ہیں۔ وہ اپنے علاقے سے جس طرح والہانہ محبت کرتے ہیں اس کا اظہار ہر ناول میں کرتے ہیں۔ ٹبہ تو گوجرانولہ کے قریب ایک گائوں کی کہانی ہے۔ کہیں حافظ آباد ہے اور کہیں منڈی بہاء الدین۔ پری، خلیج، ٹبہ، سانپ سے زیادہ سیراب، شہرِ مدفون، کوہِ گراں، اے عشقِ بلاخیز، زینہ اور سود و زیاں کے درمیاں‘ ایک سے ایک نیا رنگ ایک نیا روپ۔ ہمارے علم میں نہیں ہے کہ اس قدر کم عرصے میں کسی اور ادیب نے اس محبت سے اردو کے دامن کو وسیع کیا ہو۔ ان کے اتنا کچھ کہنے کے لیے حیرت ہوتی ہے۔ خالد ایک بھرا ہوا ناول نگار ہے۔
اب نیٹ کا زمانہ آ گیا‘ فیس بک نے ادیبوں اور شاعروں کو ایسا پلیٹ فارم مہیا کر دیا کہ وہ ادبی پرچوں سے رفتہ رفتہ بے نیاز ہوتے چلے گئے۔ خود مدیران نے پرچے کی سافٹ کاپی بھیجنے کا رواج شروع کر دیا اور ای میل کے ذریعے ان کی ترسیل شروع ہو گئی۔ اب اپنے ملک میں بھی ڈاک سے زیادہ سوفٹ کاپی چل رہی ہے۔ انڈیا سے تو تمام پرچے ای میل کے ہی ذریعے ملتے ہیں۔ ان میں امروز‘ استفسار اور تفہیم قابلِ ذکر ہیں۔ لوح ایک منفرد پرچہ ہے‘ ایک دستاویز ہے‘ ہر بار کامیابی کی نئی داستان ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved