دل کا بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ یہ مست ہو تو قیامت، سست ہو تو مصیبت۔ یہ غمگین تو دنیا تاریک۔ یہ انبساط کے انبوہِ کثیر سے سرشار ہو تو بے قابو۔ دل جس سے روٹھ جائے اُس کا بیڑہ غرق اور جس پر یہ فدا ہو اُس کی بھی لٹیا ڈبوکر ہی دم لے۔ دل سب کچھ جانتا ہے مگر مانتا نہیں اور کبھی کبھی کچھ نہ جانتے ہوئے بھی مان جاتا ہے۔ اِس ایک دل نے انسان کو کھلونا اور تماشا بنا رکھا ہے۔ اِس ایک عضونے انسان کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں اور مشکلات ہی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ کبھی کبھی بالکل سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ آخر چاہتا کیا ہے۔ اور کبھی کبھی مکمل طور پر سمجھ میں آرہا ہوتا ہے کہ یہ کیا چاہتا ہے مگر کیا کیجیے کہ ایسا ہونے پر بھی کچھ بس نہیں چلتا۔ کبھی کبھی انسان چاہتا ہے کہ سینے میں دل ہی نہ ہو مگر پھر خیال آتا ہے کہ جن کے سینے میں‘ بظاہر‘ دل نہیں پایا جاتا اُن کی زندگی میں کچھ بھی نہیں پایا جاتا! جو دل کو، کسی نہ کسی طور، ''معطّل‘‘ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اُنہیں دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ناکام ہوگئے، جو کچھ پایا تھا وہ بھی کھو بیٹھے۔ یہ سب کچھ تو ازل سے ہوتا آیا ہے۔ دل نے کیا کیا تماشے دیکھے اور دکھائے ہیں۔ جب یہ رونے پر آئے تو رُلا رُلاکر مار ڈالے۔ اور جب ہنسنے ہنسانے کی ٹھان لے تو ہنسا ہنساکر دَم سُکھا ڈالے۔ ہر دور کا انسان دل کا غلام، دل کا بندۂ بے دام پایا گیا ہے۔ معاملہ سمجھ میں آ بھی جائے تو دل کی پیروی ترک کرتے نہیں بنتی۔ بے حد و بے حساب کوشش بھی دل کو مات دینے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ ترکِ دنیا تو انسان کسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی حد تک کرلیتا ہے مگر ترکِ دل؟ اس مرحلے میں بے چارہ پھنس کر رہ جاتا ہے۔ دل کے ہاتھوں آسانی کا معاملہ بھی ہوتا ہے اور الجھن و پریشانی کا بھی۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب!
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
خوب! دل بجھ جائے تو جینے کا مزا جاتا رہتا ہے۔ ایسے میں انسان بھری محفل میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ اور دل ہی تو ہے جو تنہائی کو بھی تنہائی نہیں رہنے دیتا۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
ہے آدمی بجائے خود اِک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں، خلوت ہی کیوں نہ ہو
دل کب کسی کو تنہا رہنے دیتا ہے؟ ایسا تو شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ دل کسی کو آزاد چھوڑ دے، اُس کے افکار و اعمال کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے۔ اگر آپ کسی کو اس حالت میں دیکھیں کہ دل بظاہر اختیار میں ہے تو سمجھ جائیے کہ وہ محنت ِ شاقّہ کے بعد اس منزل تک آ پایا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، دل کب کسی کو یونہی آسانی سے بااختیار چھوڑ دیتا ہے۔ دل کی حشر سامانیاں انسان کو تماشہ بنانے میں کب دیر لگاتی ہیں؟ انسان نے ذرا سی ڈھیل دی اور دل کی پتنگ آسمان میں گم۔ ہر انسان کے لیے عقل اور دل کے درمیان پائی جانے والی کشمکش زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ عقل کہتی ہے ہر معاملے میں ہوش و حواس کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے فیصلے کیے جائیں جو مطابقت کے حامل ہوں۔ دل نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔ وہ مزاحم رہتا ہے، انسان کو برابر ٹہوکے دیتا رہتا ہے کہ تمام بندشوں سے آزاد ہوکر جینا سیکھ۔ وقت کی نزاکت اور حالات کی مجموعی کیفیت برابر صدا لگاتی رہتی ہے کہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے مگر دوسری طرف دل ہے کہ ذہن کی ہر للکار کو ناکام بنانے پر تُلا رہتا ہے۔ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ زندگی کتنی بڑی نعمت ہے۔ جو کچھ ہے زندگی ہی تو ہے۔ یہ دنیا دارالمحن ہے، امتحان گاہ ہے۔ یہاں کی جانے والی ہر کاوش کا بدلہ حیاتِ اُخروی میں ملنا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ ایک ایک لمحہ سوچ سمجھ کر گزارا جائے، ڈھنگ سے بروئے کار لایا جائے تاکہ زندگی کی مقصدیت اور معنویت برقرار رہے۔ مگر کیا ایسا ہوتا ہے؟ کیا انسان کی عمومی روش معقولیت پر مبنی ہے؟ افسوس کہ انسان بہت کچھ جان کر بھی انجان سا بنا رہتا ہے، بہت کچھ سمجھ کر بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ یہ ہے نادانی کا نقطۂ عروج! معلوم بھی ہے کہ دل کا کہا مان کر یعنی خالص بے ذہنی کے ساتھ کیا جانے والا ہر سَودا خسارے کی منزل تک پہنچ کر دم لیتا ہے مگر پھر بھی دل کو سمجھنے، سمجھانے کی کوشش سے گریز! سب کچھ شُترِ بے مہار ایسے دل کو سونپ کر اپنی بربادی کا تماشا دیکھنا؟ جب ایسا ہوگا تو بربادی کیونکر ٹالی جاسکے گی؟
دل کا صرف ایک کام ہے۔ خواہشیں پیدا کرنا، پالنا، پروان چڑھانا۔ وقت گزرتا جاتا ہے اور خواہشیں بے لگام ہوکر زندگی کا تیا پانچا کرتی رہتی ہیں۔ دل کو اس بات سے کیا غرض کہ آپ کی صلاحیت و سکت کس قدر ہے۔ اُسے تو خواہشوں کا بازار سجانے سے غرض ہے۔ یہ کام وہ متواتر کرتا رہتا ہے۔ اور پھر وہ منزل بھی آہی جاتی ہے کہ دل کی پروان چڑھائی ہوئی خواہشوں کے ہاتھوں زندگی سی نعمت بھی بے مصرف و لایعنی ہوکر رہ جاتی ہے ؎
زندگی سی نعمت کو قتل کر گیا آخر
دل کہ جس کے ہاتھوں میں خواہشوں کا خنجر تھا
ایسا نہیں ہے کہ دل ہر معاملے میں صرف خرابی پیدا کرتا ہے۔ دل کی غلامی بھی کبھی کبھی کام آجاتی ہے۔ کب؟ کبھی کبھی! بس یہی بات سمجھنے کی ہے۔ ہمیں درست اندازہ ہونا چاہیے کہ دل کی بات کب مانی جائے اور کب نہ مانی جائے۔ چند ایک معاملات میں دل کا کہا مان لینا زندگی کو تھوڑا بہت سجا‘ سنوار بھی دیتا ہے۔ خوشی کے بعض لمحات میں دل کی بات ماننا انبساط کے لیے وہ کام کرتا ہے جو سونے کے لیے سہاگا کرتا ہے۔ عقل ہمارے لیے بہت کچھ ہے، سب کچھ بہرحال نہیں ہے۔ کبھی کبھی عقل کا ساتھ چھوڑ کر دل کی بات مان لینے میں عافیت کا سامان ہوتا ہے۔ دنیا داری میں عقل سب سے بڑھ کر ہے۔ کہیں کہیں دنیا داری بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے میں مواقع پر عقل کا دامن چھوڑ دل کی انگلی تھام لینے میں کچھ ہرج نہیں۔ اقبالؔ نے یقینا اِسی تناظر میں کہا تھا ؎
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اِسے تنہا بھی چھوڑ دے!
مسئلہ یہ ہے کہ لوگ عمومی سطح پر یعنی معمول کی زندگی میں یہ بات نہیں سمجھ پاتے کہ کن معاملات میں دل کا کہا زیادہ نہیں ماننا چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر معاملات میں عدم توازن در آتا ہے، اعتدال کا معاملہ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ وقت ہمیں قدم قدم پر پکارتا ہے کہ ہاتھ پیر بچاتے ہوئے چلو، کچھ بھی ایسا نہ کرو جس سے زندگی کا توازن بگڑ جائے یا بگڑنے کا احتمال ہو مگر صاحب! دل ہے کہ مانتا نہیں! ع
ہائے کیا کیجیے اِس دل کے مچل جانے کو
اب یہی دیکھیے کہ ہمارے ہاں لوگوں نے اب تک چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا نہیں سیکھا۔ بے ذہنی اور بے عقلی قدم قدم پر آشکار ہے۔ گھر سے کچھ دور، محض چند قدم کے فاصلے پر کسی دکان پر عام سی ''ہینڈ فری‘‘ صرف 100 روپے میں مل جاتی ہے مگر دل عجیب ہی فرمائشیں کرتا ہے اور اُس کے غلام اُس کی ہر بات بلا چون و چرا مانتے چلے جاتے ہیں۔ آن لائن خریداری کا مطلب ہے کوئی ایسی چیز منگوانا جو آسانی سے آس پاس نہ مل پاتی ہو یا بہت مہنگی ملتی ہو۔ اب عمومی سطح کی کمائی والے آسانی سے دستیاب 100 روپے والی ہینڈ فری بھی آن لائن آرڈر کے ذریعے منگواتے ہیں اور ڈلیوری چارجز سمیت 250 روپے تک ادا کرتے ہیں! دل کے نہ ماننے کی یہ ایک مثال اتنی نمایاں ہے کہ آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری زندگی میں جتنا بھی بگاڑ پایا جارہا ہے اُس میں دل کی دہلیز پر سجدہ ریز رہنے کا عمل دخل کس قدر ہے۔ دل اللہ کی تخلیق ہے مگر اُسے قابو میں رکھنے کا ہنر ہمیں سیکھنا ہے۔ ہاں! اس حوالے سے مہارت صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب اللہ سے توفیق کا سوال کیا جائے۔