تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     08-06-2021

شیخ رشید احمد کی کتابِ زندگی

شیخ رشید احمد کی خودنوشت ''لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ سات آٹھ ماہ قبل منظرعام پر آئی تھی مگر مجھ تک دورِ جام اب پہنچا ہے۔ کوئی شیخ صاحب کے طرزِ سیاست سے اتفاق کرے یا اختلاف‘ مگر یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ جہانِ سیاست میں فرش سے عرش تک پہنچنے کی یہ حیران کن مثال ہے۔ خودنوشت کا حسن یہ ہوتا ہے کہ اس میں حقائق کو چھپایا نہ جائے اور بے ساختگی سے سچ سچ بتایا جائے۔ جناب ِشیخ نے اپنی داستانِ حیات میں اکثر پورا سچ اور کہیں کہیں مصلحتاً ادھورا سچ بولا ہے۔
شیخ صاحب نے اپنے بچپن‘ لڑکپن اور زمانۂ طالب علمی کے حالات بالخصوص خاندانی غربت اور وسائل کی کمی کا تذکرہ کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکار ہوئے بغیر کیا ہے۔ مادرِ ملت کی انتخابی مہم کے دوران شیخ صاحب کی عمر یہی کوئی تیرہ چودہ سال تھی۔ وہ یہ اشعار سائیکل پر سوار ہوکر راولپنڈی کے گلی کوچوں میں اپنی دھن میں مگن ہوکر گاتے پھرتے تھے۔
اک نور بڑھا بڑھنے کے لیے
اک دھول جمی جم جانے کو
اک شمع جلی جلنے کے لیے
اک پھول کھلا مرجھانے کو
یاد رہے کہ مادرِ ملت کا انتخابی نشان لالٹین جبکہ ایوب خان کا نشان گلاب کا پھول تھا۔ یہ اشعار شعلہ بیان مقرر مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کے خودساختہ تھے۔ انہوں نے لیاقت باغ کے تاریخی جلسے میں پہلی مرتبہ ان اشعار کو بڑے جوش و جذبے سے پڑھا اور مجمع لوٹ لیا۔ اس جلسے کے بعد یہی اشعار سارے پاکستان میں زبان زدِ خاص و عام ہوگئے۔ صدر ایوب اور مادرِ ملت کے درمیان صدارتی انتخابی معرکہ 2 جنوری 1965ء کو برپا ہوا تھا۔
شیخ صاحب کی مالی کم مائیگی دیکھئے‘ خاندان کا غریبانہ پس منظر دیکھئے‘ پندرہ سولہ برس کا سن دیکھئے اور اُن کے ارادوں کی بلندی دیکھئے۔ انہوں نے اوائل ِعمری میں ہی نہ صرف کارپوریشن کی کونسلری بلکہ قومی اسمبلی کی ممبری کو اپنا مطمح نظر بنا لیا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے دن رات محنت کی اور بالآخر وہ جواں عمری میں ہی پہلی مرتبہ 1985ء کی قومی اسمبلی میں جا پہنچے۔ اور اُس کے بعد سوائے ایک دو بار کے وہ ہر قومی اسمبلی کی زینت بنے۔ شیخ صاحب نے اسمبلی میں اپنی معرکہ آرا تقاریر کے اقتباسات بھی اس کتاب میں پیش کیے ہیں۔ ان دنوں 2021ء میں بجٹ کی آمد آمد ہے اس لیے 1985ء کی اسمبلی میں شیخ صاحب کی اُن تقاریر کا ہم تذکرہ کریں گے جو بجٹ سے متعلقہ ہیں۔ شیخ صاحب کو کسی جہاندیدہ شخص نے اسمبلی میں جانے سے پہلے ہی یہ بات سمجھا دی تھی کہ بجٹ کے موقع پر آپ کو اسمبلی میں باقاعدہ تیاری کرکے جانا چاہئے کیونکہ اکثر ممبران ایوان میں کسی ہوم ورک کے بغیر اظہارِ خیال کرتے ہیں جس کا کوئی خاص تاثر قائم نہیں ہوتا۔ اب شیخ صاحب کی دبنگ انٹری کی کہانی اُن کی زبانی سنیے۔
''میں اسمبلی کے پہلے اجلاس میں خوب تیار ہوکر گیا اور کئی ماہرینِ معاشیات سے مشورہ کرنے کے بعد ایوان میں پہنچا۔ پہلے پہل جب تنقیدی تقریر کے لیے بلایا گیا تو کوئی بھی تیار نہ تھا۔ میں نے اس قسم کا تاثر دیا کہ میں بھی تیار نہیں مگر چلو تقریر کر لیتے ہیں۔ میں نے بجٹ پر تقریر کی تو ڈاکٹر محبوب الحق ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھتے رہے اور جب میں نے تقریر ختم کی تو کئی ممبران مبارکباد دینے میری سیٹ پر آئے خاص کر بلخ شیر مزاری مجھے نہیں بھولتے جنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے اکنامکس میں کہاں سے گریجویشن کیا ہے۔ لیکن یہ تقریر کر کے میں نے اسمبلی میں اپنا ایک مقام بنا لیا تھا‘‘۔شیخ رشید احمد نے اس زمانے کے ہیوی ویٹ ماہرِ معاشیات اور اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق کی بحث پر تنقید کرتے ہوئے کہا ''لفظوں کا خوبصورت سہارا لے کر اور اچھی شاعری کرکے وزیر موصوف نے غریبوں کا اڑایا ہے مذاق۔ 1960ء میں یہی صاحب یہاں تشریف فرما تھے اور سارے ملک کی لٹیا ڈبو دی اس دفعہ بھی بلیک منی ان ٹو وائٹ منی کا ڈرامہ دکھایا ہے۔ یہ پرائز بانڈ این آئی ٹی بیررز یونٹ کیا چیز ہیں۔ یہ پرائز بانڈ بھی بلیک منی والے ہی خریدتے ہیں‘‘۔ بجٹ کے سلسلے میں صفحہ نمبر115 پر اپنی تقریر میں آگے چل کر شیخ رشید نے ایوان میں یہ کہہ کر ایک ہلچل مچا دی کہ ''مجھے شک ہے کہ وزارتِ خزانہ نے اعدادوشمار کا چکر دیا ہے۔ جناب دنیا میں سب سے بڑا قتل اور سب سے بڑی غداری اعدادوشمار کی غلط تبلیغ کرنا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ محسوس ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں تمام مراعات اونچے اور تنخواہ دار طبقے کو دی گئی ہیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شاید اُن کا مشن یہ ہے کہ اس ملک سے غریب مٹا دیے جائیں‘‘۔
قومی سطح پر یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ 35 برس بعد بھی آج کی اپوزیشن وہی باتیں کہہ رہی ہے جو شیخ رشید احمد نے 1985ء کی اسمبلی میں کہی تھیں۔ فرق بس ہے تو اتنا ہے کہ تب شیخ صاحب اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے تھے اور آج وہ حکومتی بنچوں پر جلوہ افروز ہیں۔ ان دنوں غریب کے مسائل 1985ء کی دہائی سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ آج لوگ زیادہ اذیت سے دوچار ہیں۔ شیخ صاحب نے اُس وقت کہا تھا کہ غریب کو تین وقت کا نہیں دو وقت کا کھانا بھی مشکل سے نصیب ہوتا ہے جبکہ آج کے غریب کیلئے دو وقت کے کھانے کا بندوبست جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ جہاں آٹا 80 روپے کلو‘ دال مونگ 200 روپے‘ چینی 100 روپے‘ اور ایک کلو گھی 300 روپے کا ہو وہاں اگر غریب زندہ ہے تو یہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ یقینا آج بھی شیخ رشید احمد کا دل غریبوں کے ساتھ دھڑکتا ہوگا کیونکہ انہوں نے غربت کے بارے میں کتابوں میں نہیں پڑھا اور نہ ہی بالکونیوں سے اُس کا نظارہ کیا ہے بلکہ براہِ راست اُس کا ذائقہ چکھا ہے۔ اس لیے وہ غریب کا درد تو محسوس کرتے ہوں گے۔
شیخ رشید احمد اپنی کتاب کے صفحہ 140 پر لکھتے ہیں کہ ''میں اقتدار کے وقت تو کسی کو چھوڑ سکتا ہوں لیکن امتحان کے وقت کسی کو چھوڑنا میری شان کے خلاف ہے۔ اپنے قول کی صداقت کیلئے انہوں نے کوچۂ وزارتِ عظمیٰ سے جونیجو صاحب کے نکلنے کے بعد اُن کے ساتھ یکجہتی کی مثال پیش کی ہے اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود وہ اُن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ البتہ بعد کے ادوار میں ہمیں شیخ صاحب کی اسی پالیسی میں کچھ ردوبدل نظر آتا ہے۔
شیخ رشید کی زندگی کی کہانی اُن کی ذاتی اچیومنٹس کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ یہ کتاب نوجوانوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ عزم جواں اور ارادہ پختہ ہو تو پھر بے سروسامانی منزل پر پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ شیخ صاحب صرف گفتار کے غازی نہ تھے بلکہ انہوں نے بڑی محنت سے سیاسی جدوجہد کی ہے۔ اُن کے مداح بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ شیخ صاحب سینئر سیاست دان کی حیثیت سے ایسی مالی و انتخابی اصلاحات کروائیں گے کہ جن کے نتیجے میں غربت میں نمایاں کمی اور غریبوں کے کوچۂ سیاست و انتخاب میں داخلے کا دروازہ کھلے گا؛ تاہم شیخ صاحب ابھی تک ایسی کوئی قانون سازی نہیں کروا سکے۔
شیخ رشید احمد کی ساڑھے تین سو صفحے کی کتاب کو آپ ایک مرتبہ کھولیں تو فی الفور اس کے سحر میں گرفتار ہو جائیں گے۔ اس کتاب میں جہاں شیخ صاحب کے دلچسپ حالاتِ زندگی پڑھنے کو ملتے ہیں وہاں آپ کو پاکستان کی 60 سالہ سیاسی تاریخ کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس ذاتی و سیاسی کہانی کو جناب شیخ کی زبان و بیان نے بہت پُرکشش بنا دیا ہے۔ بجٹ کے اس موقع پر بطورِ خاص اس کتاب کا مطالعہ آپ کے دل و دماغ میں سوچ کے کئی دریچے وا کرے گا۔ دنیا پبلشرز نے شیخ صاحب کی خودنوشت کو نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved