تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     08-06-2021

غزہ کی جنگ اور ایرانی خاموشی

انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران فلسطینی حقوق کا سرکردہ علم بردار رہا ہے۔ القدس تمام مسلمانوں کے لیے خاص روحانی اور تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔عالم اسلام میں القدس ریلیاں باقاعدگی سے نکالنے کا سلسلہ ایران کی سپورٹ سے ہی قائم رہا مگر اس مرتبہ غزہ پر اسرائیلی حملے گیارہ روز تواتر سے جاری رہے‘ تقریباً 250بے گناہ فلسطینی مارے گئے جن میں عورتیں اور بچے بڑی تعداد میں شامل تھے۔ احتجاج کرنے والے ممالک میں چین ‘ترکی اور پاکستان پیش پیش تھے‘ ایران کی اس مرتبہ خاموشی کئی لوگوں کو حیران کر گئی۔
ہر ملک غزہ جیسے اہم واقعے پر اپنے مخصوص حالات کی بنیاد پر سٹینڈ لیتا ہے مثلاً ترکی کو دیکھیں تو وہ عالم اسلام کے لیڈر کے طور پر ابھرنا چاہتا ہے۔ کمال اتاترک یقینا سیکولر سوچ کے حامل تھے‘ ماڈرن ترکی میں کمال ازم ایک باقاعدہ اصطلاح بن گئی۔کمال ازم بڑی حد تک ماڈرن ازم کے معنی لئے ہوئے ہے لیکن 1990ء کی دہائی میں نجم الدین اربکان کے اقتدار میں آنے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ترکی میں اسلامی سوچ ختم نہیں ہوئی۔ صدر طیب اردوان کی پارٹی (Adalet ve Kalkinma Partisi, AKP) یعنی Justice and Development پارٹی بھی مذہبی سوچ کی حامل ہے۔ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں اور چھ ارب ڈالر کی سالانہ تجارت بھی ہے‘ لیکن اپنے عوام کی سوچ کے مطابق صدر اردوان فلسطینی حقوق کا علم بھی بلند رکھتے ہیں۔
پاکستانی عوام القدس سے شدید روحانی لگاؤ رکھتے ہیں اور عوامی سوچ کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومتوں نے ہمیشہ فلسطینی عوام کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں بھی اکثر اسلامی ایشوز پر عوام کو سڑکوں اور چوراہوں میں لے آتی ہیں‘ مگر اس دفعہ حکومت اور پارلیمنٹ‘ دونوں اس ایشو پر یک زبان تھیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایک ہی پیج پر نظر آئے۔ عرب دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں سیاسی آزادی نمایاں ہے۔ خلیجی ممالک میں خارجہ پالیسی کے معاملات پر عوام اکثر خاموش رہتے ہیں۔ ایک خلیجی ملک کی حکومت نے تو دورانِ جنگ یہاں تک کہہ دیا کہ اگر حماس نے اسرائیل پر میزائل برسانے بند نہ کئے تو ہم غزہ میں سرمایہ کاری بند کر دیں گے۔ وہاں خارجی امور پر نظریات کے بجائے اقتصادیات حاوی ہے۔
اور اب واپس آتے ہیں موضوع کی جانب۔ ایران کو خارجہ امور کا صدیوں کا تجربہ ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ خارجہ تعلقات کا مقصد اول اور آخر قومی مفاد کا حصول ہے۔ اس مرتبہ ایران کا قومی مفاد اس بات میں تھا کہ خاموشی اختیار کر لی جائے اور فلسطینیوں کے حق میں زیادہ نعرے نہ لگائے جائیں۔ وجہ یہ ہے کہ جنیوا میں ایرانی ایٹمی معاہدے کی احیائے نو کے بارے میں مذاکرات ہو رہے ہیں جہاں خاصی پیش قدمی نظر آ رہی ہے۔ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ 2015ء کے ایٹمی معاہدے اور پلان آف ایکشن کی طرح ایران کی یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت محدود کر دی جائے جبکہ ایران کی شدید خواہش ہے کہ اُس پر لگائی گئی اقتصادی پابندیاں ہٹائی جائیں تاکہ عام آدمی کی زندگی بہتر ہو سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایران پر لگائی گئی اقتصادی پابندیوں نے ایران کی معیشت کا بُرا حال کر دیا ہے۔ شہنشاہ کے زمانے میں ایران ترکی سے بہتر معیارِ زندگی کا حامل تھا۔ آج ایران کی فی کس سالانہ آمدنی ترکی کے نصف سے بھی کچھ کم ہے۔ 2017ء میں ایران کے 34فیصدمرد بے روزگار تھے‘ خواتین میں یہ شرح 40 فیصدسے متجاوز تھی۔ صدر ٹرمپ کے زمانے میں پابندیاں مزید سخت کر دی گئیں۔ ایران کو ہتھیار ایکسپورٹ کرنے پر پابندی پہلے سے تھی۔ اب یہ کہا گیا کہ کسی ملک کی کوئی بھی کمپنی ایران سے لین دین کرے گی تو اُس پر بھی پابندی لگے گی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن نہ بن سکنے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ ایرانی بینکوں اور انشورنس کمپنیوں سے بزنس کرنے کی بھی پابندی ہے۔ کوئی امریکن فرم ایرانی کمرشل طیاروں کے سپیر پارٹس اور مرمت کے لیے دیگر سامان ایران ایکسپورٹ نہیں کر سکتی۔
اقتصادی پابندیوں نے ایرانی کرنسی پر بھی بڑا منفی اثر ڈالا ہے۔ لوگ شکوہ کر رہے ہیں کہ اشیائے ضرورت کی قیمتیں ہر روز بدلتی رہتی ہیں۔ سرکاری افسر کہتے ہیں کہ ایسی غیر یقینی صورت حال میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا بے حد دشوار ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال کے آغاز میں پٹرول کی قیمتیں بڑھانے پر ایرانی عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ 2016ء کے آغاز میں ایک ڈالر تیس ہزار ایرانی ریال کے برابر تھا اور 2020ء میں بیالیس ہزار کے مساوی ہو گیا۔ تو پھر چہ عجب کہ ایرانی حکومت اور عوام دونوں کی خواہش تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن ہار جائے اور جوبائیڈن سرخرو ہو جائے۔
اور اب آتے ہیں ایک اور اہم فیکٹر کی جانب‘ 18جون کو ایران کا صدارتی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ امیدواروں کی چھانٹی کا اختیار گارڈین کونسل کو ہے جس میں دینی طبقہ اکثریت میں ہے۔ سابق صدر محمود احمدی نژاد اور سابق سپیکر علی لاریجانی جیسے امیدوار ریجیکٹ کر دیے گئے ہیں۔ محمود احمدی نژاد امریکہ اور مغربی ممالک کے متعلق بہت سخت رویہ رکھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ گارڈین کونسل اس مرتبہ کسی معتدل مزاج شخص کو آگے لانا چاہتی ہے ایران کے روحانی پیشوا علی خامنائی نے گارڈین کونسل کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔
ایرانی صدارتی الیکشن میں یوں تو سات امیدوار ہیں لیکن زیادہ مضبوط دو ہیں ان میں سے سید ابراہیم رئیسی ہیں جو آج کل ایرانی چیف جسٹس ہیں۔ دوسرے مضبوط امیدوار ابو نصر ہمتی ہیں جو ایرانی سینٹرل بینک کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی خواہش ہے کہ کوئی معتدل مزاج امیدوار اس مرتبہ ایران کا صدر بنے تا کہ ایٹمی پروگرام اور دیگر معاملات پر ایران سے مذاکرات کرنے میں آسانی ہو۔ محمود احمدی نژاد کے کاغذات نامزدگی رد ہونے سے یوں لگتا ہے کہ مغربی ممالک سے صلع جوئی کو اب ایرانی قیادت اہمیت دینے لگی ہے تا کہ اقتصادی پابندیاں اٹھ جائیں۔ ایران پر یہ تہمت بھی لگتی رہی ہے کہ وہ خطے کے ممالک میں اپنے حامی پال کر اپنا اثرو رسوخ بڑھاتا ہے۔ اس سلسلے میں حزب اللہ کا نام لیا جاتا ہے جو لبنان میں حکومت کا حصہ ہے اور شام میں بھی صدر بشار الاسد کے دفاع میں پیش پیش رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایران بشار الاسد کا ساتھ نہ دیتا تو عین ممکن ہے کہ ان کی حکومت جا چکی ہوتی۔ روس اور ایران نے مل کر شام کی حکومت کو سہارا دیا۔اسی طرح سے ایران پر یہ بھی الزام لگتا ہے کہ یمن کے حوثی باغیوں کی سپورٹ کرتا ہے۔ عراق اور بحرین میں بھی ایران دوست ہیں۔
خلیجی ممالک بار بار امریکہ اور یورپی یونین سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ایرانی ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کے سلسلے میں انہیں اعتماد میں لیا جائے اور ایران سے خطے کے ممالک میں مداخلت نہ کرنے کی ضمانت لی جائے۔ عزہ کی جنگ کے دوران ایران کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ وہ امن کی جانب بڑھ رہا ہے اور یہ امر ایران کی خارجہ امور میں فکری پختگی کی دلیل ہے کہ معتبر خارجہ پالیسی کبھی جامد نہیں رہتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved