تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     08-06-2021

ہماری تاریخ کے گم نام اور گم شدہ کردار

1825 ء میں اودھ کی ریاست میں افتخار النسا کے نام کی بچی پیدا ہوئی۔ ہم نہیں جانتے کہ اُس کے والدین کون تھے اور کیا کرتے تھے‘ صرف یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بچی کو رقص کی تربیت دی او روہ بڑی ہو کر سماجی تقریبات میں اپنے فن کے مظاہرے کرنے لگی‘ یہی اُس کا ذریعۂ معاش تھا۔ اودھ کی ریاست کے اُس وقت کے بادشاہ واجد علی شاہ نے اُسے رقص کرتے دیکھا تو اُنہیں اس خوبصورت اور نوعمر رقاصہ پر فریفتہ ہو جانے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ شاہ ِاودھ کے حرم میں بیویوں اور لونڈیوں کا جم غفیر پہلے سے موجود تھا‘ ایک اور خاتون کا اضافہ کوئی بڑی خبر نہ تھا مگر شاہی محل کے حرم کی شمولیت کے بعد حضرت محل کا خطاب پانے والی خاتون نے یہ کمال کر دکھایا کہ وہ ایک بیٹے (برجیس قدر ) کی ماں بن گئی جس کی بدولت اُسے ملکہ کا بلند رتبہ مل گیا۔
1857 ء کی جنگ آزادی کی آگ کے شعلے بھڑکے تو اُس نے اودھ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اہالیانِ اودھ کی تحریک مزاحمت کی قیادت کی باگ ڈور اس خاتون کے ہاتھ میں آئی تو اُس نے قائدانہ جوہر دکھائے۔ 7 فروری 1856 ء کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج اودھ پر قابض ہو گئی تو اودھ کی فوج یا عوام نے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہ کی۔ ظاہر ہے کہ سابق رقاصہ کا جنگی علوم سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ اُس نے ہنگامی حالات میں اپنے جن بہادر اور وفادار جرنیلوں کی قیادت کی کٹھن ذمہ داری سنبھالی اُن میں سرفہرست راجہ جے لال سنگھ تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ انیسویں صدی کے وسط میں خصوصاً 1857ء کے ہنگاموں کے دوران‘ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی نہ تھی او روہ برطانوی راج کے خلاف یک جان اور دو قالب ہو کر لڑے۔ حضرت محل نے پہلا قدم تو یہ اُٹھایا کہ جولائی 1857 ء میں اپنے بارہ سالہ بیٹے کے سرپر اودھ کی بادشاہت کا تاج رکھ دیا۔واجد علی شاہ اپنے بیٹے (خصوصاًجو ابھی اتنا کم عمر تھا) کے ہاتھوں اپنی تخت و تاج سے معزولی پر کتنا ناراض او رمضطرب ہوا ہوگا اُس کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں مگر وہ بے بس تھا کیونکہ مغل بادشاہ بہادر شاہ دوم نے نئے بادشاہ کی تقرری کی شاہی منظوری دے دی تھی۔ لکھنؤ سلطنت اودھ کا صدر مقام تھا‘ نئے بادشاہ نے اس شہر کی ناکہ بندی کرنے اور محاصرہ کرنے والی برطانوی فوج کو شہر پر قابض ہونے سے روکنے میں اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ اُس کے دشمن کو بھی اعتراف کرنا پڑا۔ بدقسمتی سے اودھ کا حکمران طبقہ (جاگیر دار اور جرنیل) مزاحمت کو جاری رکھنے کے بجائے حملہ آوروں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر تیار ہوگیا۔بیگم حضرت محل نے اُن میں سے ایک (راجہ مان سنگھ) کو سزا دینے کیلئے اُس کی ساری جائیداد بحق سرکار ضبط کر لی۔ جب برطانوی افواج کے جوابی حملوں میں شدت پیدا ہوئی اور لکھنؤ کے دفاع میں کامیابی کے امکانات منہدم ہونا شروع ہوئے تو حضرت محل نے دربارِ عام منعقد کیا جس میں خاص و عام نے شرکت کی۔بیگم حضرت محل نے جو تقریر کی وہ تاریخ کا لازوال حصہ بن چکی ہے۔ اُس نے کہا ''ساری فوج اس وقت لکھنؤ میں ہے مگر وہ بہادری اور جرأت جیسی خوبیوں سے محروم ہے۔ وہ عام باغ (جہاں انگریز فوج نئی صف بندی کر کے مورچہ نشین تھی) پر حملہ کیوں نہیں کرتی؟ کیا وہ انتظار کر رہی ہے کہ انگریزوں کو کمک مل جائے اور وہ لکھنؤ کے گرد گھیرائو تنگ ہو جائے؟
یکم نومبر 1858 ء کو برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ نے ایک فرمان جاری کیا جس کی رُو سے ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ختم کر کے برطانوی حکومت نے نظم و نسق کی باگ ڈور خود سنبھال لی۔ اگلے دن بیگم حضرت محل نے اس کے جواب میں سخت زبان میں وکٹوریہ کے شاہی فرمان کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ انگریز ہر گز قابلِ اعتبار نہیں۔ انگریز کی سرشت میں دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا نہیں۔ کمپنی کی حکومت کو ختم کرنا ایک بے معنی‘ نمائشی اور کھوکھلا فیصلہ ہے۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام (عدالتی‘ مالیاتی اور انتظامی) جوں کا توں رہے گا۔ حضرت محل نے انگریزوں کی تمام بدعہدیوں اور وعدہ خلافیوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ وکٹوریہ کے بچھائے ہوئے جال میں ہر گز گرفتار نہ ہوں گی اور نہ اودھ کے لوگوں کو ہونے دیں گی۔
حضرت محل اور جھانسی کی رانی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ موخرالذکر کا تعلق ایک اعلیٰ نسب اور مہذب اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا جن کا حکمران (پیشوا) گھرانے سے قریبی رشتہ داری تھی جبکہ حضرت محل نے بڑی غربت میں ہوش سنبھالی۔ اُس کے والدین کا سماجی درجہ حد درجہ پست تھا چونکہ اُن کا تعلق اُن لوگون سے تھا جو لوگوں کی تفریح کیلئے گانے بجانے کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی بیٹی کو گانا اور رقص سکھایا۔ لکھنؤ کے جاگیردارانہ ماحول میں افتخار النسا کو طوائف سمجھا جاتا تھا۔ وہ واجد علی شاہ کی بیوی بن کر شاہی حرم میں داخل ہوئی تو اپنے ایک جاننے والے (مامون خان) کو بھی ساتھ لائی۔ وہ بیگم حضرت محل بن گئی مگر مامون خان سے رشتہ نہ ٹوٹا۔ جب بیگم حضرت محل میدانِ جنگ میں اُتری تو اُس کی توقع یہ تھی کہ میدانِ عشق کا کھلاڑی میدانِ جنگ میں بھی دادِ شجاعت دے‘ مگر مامون خان اس (مقابلتاً زیادہ سخت) امتحان میں ناکام رہا۔ جونہی اُس کی بزدلی کا پول کھلا حضرت محل نے اسے اپنی قربت اور شاہی سرپرستی سے محروم کرتے ہوئے ہر لحاظ سے بے دخل کر دیا۔ مامون خان نہ صرف بزدل تھا بلکہ اتنا بے وقوف تھا کہ حضرت محل کی چھتری کے نیچے سے نکل کربھاگا تو سیدھا انگریزی فوج کے پاس گیا تاکہ وہاں اپنی غداری کا معاوضہ وصول کر سکے۔ انگریزوں نے اُسے پھانسی پر لٹکایا تو مامون خان کی رومانوی اور رنگین زندگی عبرت انجام تک پہنچی۔ اب حضرت محل کی زندگی میں جو دوسرا مرد رہ گیا وہ اُس کا شوہر ‘اودھ کا بادشاہ واجد علی شاہ تھا جو 30 جولائی 1822 ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوا اور انگریزوں کا قیدی بن کر کلکتہ میں 21 ستمبر1887ء کو 65 برس کی عمر میں وفات پائی۔ اُس نے چون و چرا کئے بغیر اتنے سکون سے اپنے آپ کو انگریزوں کے سپرد کیا کہ انگریز فوجی افسر (خصوصاً میجر جنرل Outraum ) حیرت زدہ رہ گئے۔ واجد علی شاہ کو کلکتہ میں فورٹ ولیم نامی قلعہ میں قیدی بنا کر رکھا گیا۔ انگریزحکام نے سالہا سال اُس پر زیادہ سے زیادہ نفسیاتی دبائو ڈالا کہ وہ اودھ کے برطانوی سلطنت سے الحاق کے معاہدہ پر دستخط کر دے تاکہ فوجی قبضہ کو قانونی شکل دی جا سکے۔ واجد علی شاہ (اپنی تمام بشری کمزوریوں کے باوجود) نے اس دبائو کا 19 سال مقابلہ کیا مگر الحاق کی دستاویز پر دستخط نہ کرنے کے عزم پر قائم رہا۔
بیگم حضرت محل کا جس تیسرے مرد سے پالا پڑا وہ فیض آباد کے مولوی سکندر شاہ تھے۔ مولوی صاحب اپنی برتری اس بنیاد پر جتاتے تھے کہ فنِ سپہ گری جانتے تھے اور جنگی تجربہ بھی رکھتے تھے۔ مولوی صاحب نے حضرت محل کو اپنا کمانڈر تسلیم کرتے ہوئے فوج میں شامل ہو کر انگریزوں کے خلاف نواب گنج کے مقام پر جنگ لڑی جس میں ان دونوں کو شکست ہوئی۔بیگم حضرت محل اپنے بیٹے (برجیس قدر) کو لے کر نیپال چلی گئی جہاں اُس نے 1879 ء میں (21 سال کی جلاوطنی اور خانہ بدوشی کے بعد) وفات پائی۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اُنیسویں صدی کے وسط میں اودھ کی فوج نے اپنی قیادت کیلئے مولوی سکندر شاہ صاحب پر بیگم حضرت محل کو ترجیح دی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved