تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     08-06-2021

جیت‘ حکومت کی یا شہباز شریف کی؟

جنہیں الفاظ کی فسوں گری آتی ہے وہ دلیل کو معتبر مانتے ہیں نہ دلائل دینے والے کو۔ وہ عوام کو سپنوں کی ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں کسی شاعر‘ مصور یا سنگ تراش کی سوچ بھی نہیں پہنچ پاتی۔ خوابوں کا یہ جہان بظاہر جتنا حسین ہوتا ہے اس کی تعبیر آنکھوں میں اتنی ہی چبھن چھوڑ جاتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب وقت کی ناؤ ساحل سے کوسوں دور جا چکی ہوتی ہے اور پھر پچھتاوا اور گریہ کرنے کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچتا۔ ساحر لدھیانوی کا ایک شعر یونہی میرے دل کی کیفیت پر طعنہ زنی کر رہا ہے۔
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
تہتر سالوں میں جو بھی حکومت آئی اس نے خود ہی کو عقلِ کل سمجھا۔ جو جی میں آیا وہ کیا اور جو دل کو نہیں بھایا اُسے چھوڑ دیا۔ اپوزیشن کو اس کا آئینی مقام دیا نہ عوام کے جائز حقوق کا خیال رکھا۔ ملکی تاریخ کا ایک ایک صفحہ پلٹ کر دیکھ لیں‘ اہلِ سیاست کا چلن اس سے مختلف نہیں ملے گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی یافتہ ممالک کا بھی یہی وتیرہ رہا ہے؟ کیا خوشحالی اور آسودگی کی سیڑھی یکطرفہ فیصلوں سے چڑھی جا سکتی ہے؟ کیا قومی اتفاقِ رائے کواہمیت دینا غیر ضروری امر ہے؟ ہمارے سیاستدان نجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ روز مرہ کے معاملات حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہوتے ہیں‘ جب کریں‘ جیسے کریں مگر وہ بڑے فیصلے جن کا تعلق آئندہ نسلوں سے جڑا ہوتا ہے وہ تن تنہا کیسے کیے جا سکتے ہیں؟ دنیا بھر میں جب بھی آئین و قانون میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں تو باہمی مشاورت سے کی جاتی ہیں ورنہ اگلی حکومت اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتی جب تک ان تبدیلیوں کو ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینک دیتی۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ چند معاشی اور سیاسی فیصلے ناگزیر ہیں اور اگر ہم نے آج یہ فیصلے نہ کیے تو ہمارا آنے والا کل گزرے کل سے بھی بدتر ہو سکتا ہے مگر قومی نوعیت کے یہ فیصلے زور زبردستی سے نہیں ہو سکتے۔ حکومت اور اپوزیشن کا یک زبان ہونا نہایت ضروری ہے۔ قدیم محاورہ ہے کہ سونے اور ہیروں کے ایسے زیورات کا کیا فائدہ جو کانوں کو کاٹ کھائیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے ایسے قوانین مت بنائے جو بعد ازاں تبدیل کر دیے جائیں۔ آئین میں آٹھویں اور سترہویں ترامیم کا جو حشر ہوا‘ وہ سب کے لیے مقامِ عبرت ہے۔
میاں شہباز شریف اگر بطور اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں کہ نیا ''عمرانی معاہدہ‘‘ کیا جائے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ حکومت کو یہ تجویز بے وقت کی راگنی کیوں لگ رہی ہے؟ پی ڈی ایم کیوں اس تجویز کے پیچھے آن کھڑی نہیں ہو جاتی؟ سیاست کی حرکیات کا فہم رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہی وہ وقت ہے جب اس قسم کی تجویز کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اس وقت سیاسی پارٹیوں، حکومت اورمقتدرہ کے بیچ تناؤ کی کیفیت ہے۔ اپوزیشن کے اپنے مطالبات ہیں اور حکومت کی اپنی ترجیحات۔ رہی بات مقتدرہ کی تو وہ خود کو سیاسی الجھنوں سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن واویلا کر رہی ہے کہ الیکشن میں مداخلت کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے تاکہ عوام کی نمائندہ حکومت کھل کر کام کر سکے۔ حکومت کو بظاہر اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ سیاسی ڈائیلاگ کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔ اب نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ حکومت نے دھاندلی کی بیماری کا علاج الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ڈھونڈ لیا ہے جسے پی ڈی ایم مانتی ہے نہ پیپلز پارٹی۔ مسلم لیگ (ن) نے تو یہ آرڈیننس عدالت میں چیلنج کردیا ہے‘ دیکھتے ہیں حکومت وہاں کیا جواب دیتی ہے۔ میرا احساس ہے کہ اس وقت دو معاملات پر حکومت، اپوزیشن اور مقتدر حلقوں کو ضرور ڈائیلاگ کا آغاز کرنا چاہیے۔ اول انتخابات کو شفاف بنانا اور دوسرامعیشت۔ یہ دونوں پیچیدہ معاملات قوم کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔ انہیں نگلا جا سکتا ہے نہ اُگلا۔
بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان‘ کبھی ایک ہی ریاست کا حصہ ہوا کرتے تھے‘ کتنے افسوس کی بات ہے کہ معیشت اور انتخابات کی شفافیت کے معاملے میں ہم مذکورہ دونوں ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں نگران حکومت بنتی ہے نہ دھاندلی کا شور مچتا ہے۔ الیکشن کمیشن اتنا طاقتور ہے کہ انتظامیہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتی مگر پاکستان میں الیکشن کمیشن کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا۔ دن کے اجالے میں قانون توڑے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ پارٹیوں میں توڑ پھوڑ ہوتی ہے، پیسے سے لوگوں کے ضمیر خریدے جاتے ہیں، امیدواروں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر الیکشن کمیشن کے عملے کی غیر جانبداری کو جانبداری میں بدلا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن خاموش رہتا ہے اور نگران حکومت بھی چپ کا روزہ نہیں توڑتی۔ یقین مانیں‘ یہ وہ منہ زور مسائل ہیں جن کے سامنے بند باندھ کر الیکشن کے نظام کو بہتر کیا جا سکتا ہے مگر حکومت ہے کہ الٹی ڈگر پر چل پڑی ہے۔ وہ نجانے کیوں الیکشن کا نظام تبدیل کرنے پر مصر ہے؟ اگر انتخابات میں دھاندلی صرف کاغذ پر مہر لگانے کی وجہ سے ہوتی تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین ضرور کار آمد ہوتی مگراصل خرابی کہیں اور ہے جس کا ادراک حکومت کو ہے اور الیکشن کمیشن کو بھی۔ کیا حکومت بتائے گی کہ زخم پر مرہم کیوں نہیں لگایا جا رہا؟ کیا جسم میں تکلیف ہو تو خارش کی دوا سے کام چلایا جا سکتا ہے؟ کیا روٹی کھانے سے پیاس بجھ سکتی ہے؟ الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام پر الیکشن کمیشن راضی ہے نہ اپوزیشن، حکومت پھر بھی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتی ہے، کیوں؟ کوئی ہے جو اس ''کیوں‘‘ کا جواب دے سکے؟ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ٹیکنالوجی کا استعمال اتنا آسان کہاں ہوتا ہے جتنا حکومت سمجھ رہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو 2018ء کے الیکشن میں آر ٹی ایس بیٹھ جاتا؟ اور اب بھی کیا گارنٹی ہے کہ دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ موجود ہو گا؟ کیا پاکستان میں شرح خواندگی اتنی ہے کہ سارے ووٹرز اس مشین کا استعمال بہ آسانی کر سکیں؟ حکومت کو چاہیے کنفیوز ہونے کے بجائے مسائل کے حل کی طرف بڑھے ورنہ دھاندلی کی بیماری ناسور بھی بن سکتی ہے۔
پاکستان کی معیشت بھی مسائل کی آماجگاہ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ ایک ایسا معاہدہ کریں جس کی پاسداری کم از کم دو دہائیوں تک کی جائے۔ حکومت بدلتی ہے تو بدل جائے مگر معاشی پالیسیاں تبدیل نہ ہوں۔ بالکل ویسے ہی‘ جیسے بنگلہ دیش نے کیا۔ 2008ء تک بنگلہ دیش کی معیشت پاتال میں گری ہوئی تھی۔ حکومت بدلنے کے ساتھ ہی معاشی ترجیحات بھی تبدیل ہو جاتی تھیں۔ پھر بنگلہ دیش کے اکابرین بیٹھے اور اس معاشی عارضے کا حل یہ نکالا کہ معیشت کو حکومتوں کے اثر و رسوخ سے آزاد کر دیا۔ اب وہاں حکومت حسینہ واجدکی آئے یا خالدہ ضیا کی‘ معیشت کا پہیہ نہیں رکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی صنعت اور زراعت نے حیرت انگیز نتائج دیے ہیں جس کے باعث ملک کا جی ڈی پی بڑھا ہے اور عام بنگالی کی فی کس آمدنی بھی۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ بنگلہ دیش پاکستان سے 45 فیصد زیادہ امیر کیسے ہو گیا؟ ہمیں تجزیہ کرنا ہوگا کہ ہر پاکستانی کی 2 لاکھ 38 ہزار روپے سالانہ آمدن کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے باسی کی آمدن 3 لاکھ 44 ہزار کیسے ہوئی؟ بنگلہ دیش کی برآمدات، زراعت، صنعت، ٹیکس اور تعلیم کا نظام کس طرح بہتر سے بہتر ہوتا گیا؟ اگر ہم صورتحال کا بہتر تجزیہ کرکے اپنی کمزوریوں پر قابو پا سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو۔
حکومت کو اگر ملک کا وقار عزیز ہے کہ تو ضد، انا اور خود پسندی کی چادر اتار کراپوزیشن سے بات چیت کا دروازہ کھولے۔ ہو سکتا ہے الیکشن چوری کرنے کی روایت دم توڑ جائے۔ کیا معلوم اپوزیشن بھی الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام پر راضی ہو جائے۔ کیا خبر پاکستان کی معیشت بھی بنگلہ دیش کی طرح ترقی کے زینے عبور کرنے لگے۔ اگر حکومت اَنا کے اس کھیل میں بڑے پن کا مظاہرہ کر سکی تو جیت شہباز شریف کی نہیں‘ حکومت کی ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved