گزشتہ چند دنوں کے دوران گورنر کے پی نے صوبائی گورنمنٹ کی ایڈوائز پر صوبے کی تین سرکاری یونیورسٹیز کے وائس چانسلر کو جبری رخصت پہ بھیج کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسی روایت قائم کی جس کے مضمرات کا وسیع تناظر میں جائزہ لینا تو مشکل ہو گا لیکن اِس پیش دستی نے تعلیمی پالیسی بارے حکمران اشرافیہ کی تہی دامنی کا پردہ چاک کرکے مستقبل کے خدشات کی نشاندہی ضرور کر دی ہے۔ اگرچہ تینوں وائس چانسلرز نے عدالتِ عالیہ سے رجوع کرکے عارضی ریلیف حاصل کر لیا ہے لیکن اسی مہمل کارروائی نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ساکھ اور نفسیاتی وجود پہ جو مہلک اثرات مرتب کیے ہیں ان کی تلافی نہیں ہو سکے گی۔
دراصل تعلیمی نظام کسی بھی معاشرے کے اُس اجتماعی شعورکا عکاس ہوتا ہے جو اپنی نوخیز نسلوں کیلئے مستقبل کے دبستانوں کو منور بنانے کا خاکہ تیار کرتا ہے۔ بلاشبہ صرف تعلیم ہی انسانیت کی سائنسی، ذہنی، اخلاقی اور فنی میراث کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کا وسیلہ بنتی ہے لیکن ہمارے صاحبانِ اختیار اپنے رویوں سے اُنہی راہوں میں کانٹے بچھانے میں مشغول ہیں جن پر چل کے ہماری آئندہ نسلوں نے اس کھوئے ہوئے نصب العین کو پانا تھا جس کی جھلک ہمیں پیغمبر اسلامﷺ کے ارشاداتِ عالیہ میں ملتی ہے۔ بہرحال ہمیشہ کی طرح اب بھی اس کتربیونت میں زیادہ خسارہ گومل یونیورسٹی کے حصہ میں آیا جسے ہر عہد کے حکمراں تختہ مشق بنانے میں آسودگی پاتے رہے۔ ستم ظریفی دیکھئے بظاہر صوبائی گورنمنٹ ڈیرہ اسماعیل خان کیلئے نئی زرعی یونیورسٹی کا قیام چاہتی ہے لیکن عملاً پہلے سے موجودگومل یونیورسٹی کو منقسم کرنے کی راہ نکال کے اِس نظرانداز خطے کی رہی سہی تعلیمی سہولتوں کو بھی پراگندہ کردیا۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے مکینوں نے جامع گومل کے قیام سے قبل یہاں دامان زرعی یونیورسٹی بنانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پشاور میں بیٹھے اربابِ اختیار نے ڈی آئی خان کے بجائے پشاور جیسے نان ایگریکلچر ایریا میں زرعی یونیورسٹی بنا کر جنوبی اضلاع کے لوگوں کا احساسِ محرومی بڑھا دیا۔ 1974ء میں ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی یہاں گومل یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھتے وقت امید دلائی تھی کہ وسیع زرعی اراضی کے حامل اس زرخیزخطے میں زرعی یونیورسٹی ضرور بنائی جائے گی لیکن انہیں مہلت نہ مل سکی، بعدازاں گومل یونیورسٹی نے اپنے وسائل سے یہاں زرعی فیکلٹی قائم کی جسے کئی بار پشاور منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا؛ تاہم عوامی غیظ و غضب ہمیشہ راہ میں حائل ہو گیا۔ 2016ء میں مولانا فضل الرحمن کی دعوت پہ وزیراعظم نواز شریف یہاں تشریف لائے تو انہوں نے دیگر ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ یہاں مفتی محمود زرعی یونیورسٹی بنانے کی نوید بھی سنائی، جسے اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے پراسیس میں ڈال دیا۔ ابتداء میں مجوزہ زرعی یونیورسٹی کا ایک ڈائریکٹر مقرر کر کے ابتدائی انتظامی ڈھانچہ استوار کیا گیا، پھر ہائرایجوکیشن کمیشن سے این او سی ملنے کے بعد زرعی یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کا باقاعدہ ایکٹ بناکے وی سی تعینات کردیا گیا۔ پچھلے تین سالوں کے دوران متذکرہ زرعی یونیورسٹی کیادو بار آڈٹ اور سنڈیکیٹ کا ایک باضابطہ اجلاس منعقد ہو چکا ہے لیکن تین سال بعد‘ پہلے سے قائم شدہ زرعی یونیورسٹی کے بجائے صوبائی حکومت نے گومل یونیورسٹی کی زرعی فیکلٹی کو اَپ گریڈ کر کے ایک دوسری ایگریکلچر یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کر لیا، گویا عملاً یہاں بیک وقت دو زرعی یونیورسٹیز وجود میں آ چکی ہیں، ایک وہ جس کا اعلان میاں نوازشریف نے کیا، جس کا ایکٹ، سنڈیکیٹ اور آڈٹ کا نظام تین سال سے فعال ہے اور دوسری گومل یونیورسٹی کی وہ زرعی فیکلٹی جسے اَپ گریڈ کرنے کی منظوری صوبائی کابینہ نے دی۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس غیرحکیمانہ سیاسی مداخلت کے حوالے سے وی سی گومل یونیورسٹی نے وزیراعظم کو خط لکھ کے بتایا تو گورنر صاحب نے انہیں جبری رخصت پر بھیج کے معمول کی دیکھ بھال کا چارج زرعی یونیورسٹی کے وی سی کے حوالے کر دیا، لیکن عبوری وائس چانسلر نے صوبائی گورنمنٹ کے ایما پر گومل یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا 107واں اجلاس طلب کر کے جامعہ گومل کے اثاثہ جات کی تقسیم کا تہیہ کر لیا؛ تاہم جبری رخصت کے حامل وائس چانسلر نے اپنے اختیارات استعمال کر کے سنڈیکیٹ کا مجوزہ اجلاس ملتوی کرا دیا۔ اب جب یونیورسٹی سکنڈیکیٹ کے اجلاس سے قبل پشاور میں منعقد ہونے والی خفیہ میٹنگ کے منٹس سامنے آئے تو ان سے وی سی گومل یونیورسٹی کے خدشات کی توثیق ہو گئی۔
کچھ عرصہ قبل گورنمنٹ نے وی سی کو یہ تجویز دی تھی کہ گومل یونیورسٹی سے زرعی یونیورسٹی کو 1000 کنال اراضی منتقلی کے بدلے 30 کروڑ دیے جائیں گے لیکن متذکرہ میٹنگ منٹس سے پتا چلتا ہے کہ جامعہ گومل کے مین کیمپس سے 1300 کنال اراضی کے علاوہ سٹی کیمپس کی 400 کنال زمین‘ عمارات سمیت بغیر کسی معاوضہ کے زرعی یونیورسٹی کے حوالے کی جانا تھی۔ گومل یونیورسٹی کے بائیوکیمسٹری کے سب سے بڑے ریسرچ سنٹر (GCB) سمیت چار بڑے ڈیپارٹمنٹس کے علاوہ فیکلٹی آف ویٹرنری سائنسز اورایگریکلچر فیکلٹی مجوزہ زرعی یونیورسٹی کے حوالے کر کے جامعہ گومل کے ساڑھے چارہزار طلبہ بھی ایگریکلچر یونیورسٹی شفٹ ہونا تھے۔ ذرائع کے مطابق 2017ء میں سنڈیکیٹ نے ویٹرنری کالج کوخود مختار فیکلٹی کا درجہ دے دیا تھا جسے اب کسی بھی دوسری یونیورسٹی میں ضم نہیں کیا جا سکتا۔ گومل یونیورسٹی کے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف میں سے 91 پروفیسرز اور 108 نان ٹیچنگ سٹاف سمیت گاڑیاں، جانور، کتابیں، ہاسٹلز، زمین، لائبریری، فارم مشینری اور لیبارٹریز تک مجوزہ زرعی یونیورسٹی کو منتقل کرنے کی سکیم بنائی گئی تھی۔ اگر جامع گومل کے 80 فیصد اثاثہ جات اور ساڑھے چار ہزار سے زیادہ طلبہ مجوزہ زرعی یونیورسٹی کو منتقل ہوئے تو جامع گومل اندر سے کھوکھلی ہو جائے گی۔ اپنے منصب کے تقاضوں کے عین مطابق وی سی گومل یونیورسٹی نے نوکری دا ئوپر لگا کر اس سکیم کو طشت ازبام کیا۔ اگر صوبائی حکومت اور منتخب قیادت خطے کی بھلائی چاہتی ہے تو یہاں زرعی تحقیقاتی مرکز کی وسیع و عریض زمین پہ ایگریکلچر یونیورسٹی بنا کے اس اجڑے ہوئے تحقیقاتی مرکز کی حیاتِ نوبخش سکتی ہے۔ اسی طرح پندرہ سال سے بند پڑی ایگریکلچرانجینئرنگ ورکشاپ کی سینکڑوں کنال اراضی اور بلڈنگز کے علاوہ زراعت کے شعبۂ توسیع کے زیر قبضہ ہزاروں کنال اراضی بھی مجوزہ زرعی یونیورسٹی کے موزوں ترین جگہ تھی لیکن ہمارے پالیسی ساز شاید نئے تعلیمی ادارے بنانے کے بجائے پہلے سے موجود اداروں کی توڑپھوڑ پہ تل چکے ہیں۔ بدقسمتی سے اب یہ جنگ عدالتوں میں پہنچ گئی ہے۔ وائس چانسلر نے اپنی جبری رخصت اور صوبائی حکومت کے اسی غیر منصفانہ فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کرکے مزاحمت کی راہ اختیار کی تو وی سی کی ملازمت سے برطرفی کا حکمنامہ جاری کر دیا گیا، حالانکہ 14 مئی کی ابتدائی سماعت کے دوران جب وائس چانسلر کے وکیل نے گورنر ہائوس کی طرف سے کسی ممکنہ انتقامی کارروائی کا خدشہ ظاہر کیا تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو لکھ کر دیا تھا کہ اس ضمن میں مزید کوئی کارروائی نہیں ہو گی لیکن لاء آفیسر کی تحریری یقین دہانی اور زیرسماعت معاملے کی پروا کیے بغیر وی سی کی برطرفی کا پروانہ جاری کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کی گئی؛ تاہم دوسری سماعت پر پشاور ہائیکورٹ نے برطرفی کے حکم نامہ کو معطل کرکے جبری رخصت کی درخواست نمٹانے کیلئے 10 جون کی تاریخ مقررہ کر دی۔ قانونی جنگ سے قطع نظر‘ گورنمنٹ کی اجتماعی دانش جس طفلانہ انداز میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی توڑپھوڑ میں مشغول ہے اس سے ان لوگوں کے موقف کی تائید ہوئی جو اعلیٰ تعلیمی نظام کو صوبوں کے حوالے کرنے کی مخالفت کرتے تھے۔ بلاشبہ وقت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کوملنے والی لامحدود خود مختاری سے سب سے زیادہ نقصان ہائرایجوکیشن سسٹم کو پہنچا ہے۔ لاریب تعلیم ہی روحِ عصر کی نمائندہ ہوتی ہے‘ اگر ہمارے پالیسی ساز اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سیاسی مداخلت سے آزاد کر دیں تو یہی درسگاہیں ایک ایسے نیر رخشاں کے طلوع کا باعث بنتیں جس کی ضیا سے ہم علمِ انسانی کی حدود معلوم کر سکتے۔ پاورپالیٹکس کے بے ثمر تخیلات، غلط قدردانیاں اورمن مانیاں ہی غلطیوں کے وہ بادل ہیں جو اضطراب کا سامان پیدا کرتے ہیں۔