آپ کو کیا لگتا ہے قومی اسمبلی میں ٹرین حادثے پر جو ممبر تقریریں کررہے تھے وہ واقعی دل سے افسردہ تھے کہ پچاس سے زائد انسانی جانیں چلی گئیں؟آپ کو کسی کی آواز یا گفتگو سے لگا کہ وہ واقعی اس جانی نقصان پر افسردہ تھا؟
کوئی بھی حادثہ جب سڑک یا ٹرین ٹریک پر ہو تو یقین رکھیں وہ man madeہوتا ہے ‘جس سے انسانی تدبیر کے ذریعے بچا جاسکتا تھا‘ تدبیر اور حکمت اسی کا نام ہے جس پر اسلام میں بھی زور دیا گیا ہے۔ مان لیا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے تو پھر جستجو‘ کوشش‘ احتیاط‘ علاج‘ تدبیر اور دعائوں پر بھی تو زور دیا گیا ہے۔ خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ جان بچانے کیلئے حرام جانور بھی کھانا پڑے یا نماز توڑنی پڑے تو بھی ان مخصوص حالات میں جائز ہے۔انسانی جان اسلام میں اتنی قیمتی قرار دی گئی ہے کہ کہا گیا ہے: جس نے ایک انسانی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔تو پھر ہمارے ہاں کیوں یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ‘لہٰذا کوئی سڑک پر مرے‘ ریل حادثہ ہو یا جہاز مارگلہ پہاڑیوں سے ٹکرا جائے اس پر چپ کر جائیں کہ اس کا دن آیا ہوا تھا‘ مرنے والے مر گئے اب کیا ہوسکتا ہے۔اسی تصور کی وجہ سے یہاں ہر روز انسانی جانیں حادثات کا شکار ہوتی ہیں۔ میرا ملتانی یار ناصر محمود شیخ ہر ماہ ہمارے ساتھ اعدادوشمار شیئر کرتا ہے کہ سرائیکی علاقوں میں کیسے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ سڑک کے حادثوں میں مارے جاتے ہیں۔ پورے پنجاب میں یہ تعداد سالانہ تین چار ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ جتنے لوگ ہر سال سڑک حادثوں میں مارے جاتے ہیں اتنے تو دہشت گردی میں نہیں مارے گئے‘مگر کوئی ادارہ‘ وزارت یا حکمران ان جانوں کے ضیاع کو اہمیت نہیں دیتا۔ ایک بیان ٹوئٹ کر کے ذمہ داری پوری کر لی جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک ڈرائیور یا ڈی ایس کو معطل کر دیا جاتا ہے اور قوم اگلے بڑے حادثے تک خاموش ہوجاتی ہے۔ پھر ایک اور ریلوے کا حادثہ ہوتا ہے تو اچانک سب جاگ جاتے ہیں۔آپ کا کیا خیال ہے کہ اس قوم کے حکمران اس کی حالت بدلنے میں بہت سنجیدہ ہیں؟ اگر آپ بھی ان میں سے ہیں تو اپنی سوچ بدلیں۔ اب تو تینوں بڑی جماعتیں اور ان کے اتحادی حکومتیں کرچکے ہیں‘ ایک پی ٹی آئی رہ گئی تھی وہ بھی تین سال پورے کرچکی ‘ اب اس کے پاس بھی بہانہ نہیں رہا کہ وقت نہیں ملا۔ ویسے ان تین سالوں میں خان صاحب کا ریلوے کیلئے چوائس کیا تھا‘ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ریلوے کو بہترین سروس بنانے میں کتنے سنجیدہ تھے۔ پہلے شیخ رشید تو پھر بشیر احمد المعروف اعظم سواتی۔ لا ریب! سگار پینے اور ٹی وی کیمروں کے سامنے بڑھکیں مارنے میں شیخ رشید صاحب کا کوئی ثانی نہیں! شیخ صاحب کے بارے میں میری ایک ہی رائے ہے کہ وہ جس وزارت میں بھی ہوتے ہیں وہ اس کے علاوہ دنیا بھر کی گفتگو کا فن جانتے ہیں۔ ریلوے میں تھے تو سارا دن سیاسی گفتگو کرتے تھے ‘مجال ہے ایک دن بھی ریلوے کو ٹھیک کرنے کا سوچا ہو۔ روز وہ طوطا فال نکالتے تھے۔ شاید آپ کو مذاق لگے لیکن میری اطلاع کے مطابق انہوں نے باقاعدہ ایک نجومی رکھا ہوا ہے جو انہیں سیاسی پیش گوئیاں بتاتا رہتا ہے اور وہ ان پیش گوئیوں کو اپنے نام سے میڈیا پر بڑی سنجیدگی سے چلا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ انہیں سب خبر ہے کیونکہ وہ پنڈی کے گیٹ نمبر چار کے رازدان ہیں۔ حالت یہ ہے کہ وہ پاکستان انڈیا کی کئی جنگیں کراچکے ہیں‘ حفیظ شیخ کو بڑے مارجن سے سینیٹر بنوا چکے ہیں‘ نواز لیگ میں سے چھ ماہ پہلے ش نکال چکے ہیں اور مجال ہے کوئی ایک بات سچی نکلی ہو۔ عمران خان نے انہیں وزیر ان کی قابلیت سے زیادہ غالباً ان کے شر سے بچنے کیلئے بنا رکھا ہے۔ ممکن ہے خان صاحب نے یہ سیاسی فارمولہ بینظیر بھٹو سے سیکھا ہو کہ جس سے زیادہ خطرہ ہو اسے وزیر بنا کر اپنے دفاع اور خوشامد پرلگا دو۔ مصطفی کھر کو جب بینظیر بھٹو نے دوسرے دور حکومت میں وزیر بنایا تو انہیں یاد دلایا گیا کہ یہ وہی ہیں جنہوں نے جتوئی کے ساتھ مل کر آپ کی پہلی حکومت کے خلاف سازش کی اور اسے گرایا۔ محترمہ نے ہنس کر کہا: اب کابینہ میں مجھے کیا کہتا ہے؟ جواب ملا کہ آپ کو یس پرائم منسٹر کہتا ہے اورقومی اسمبلی میں شیخ رشید کا منہ بند کرنے کے کام بھی آتا ہے۔کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو نے کہا :تو پھر کھر باہر میرے لیے فائدہ مند ہے یا کابینہ کے اندر؟ شیخ رشید اور کھر جیسے لوگوں کو وزارتیں ان کی سازشوں اور زبان کی وجہ سے ملتی ہیں‘ اس کا قا بلیت سے کوئی تعلق نہیں۔ یقین نہیں آتا تو شیخ رشید کی اب تک کی کارکردگی سے اندازہ لگا لیں۔ شیخ صاحب کے بعد عمران خان کی نظر ِانتخاب اعظم سواتی پر پڑی جن کے فراڈ کے خلاف ایف آئی اے کی جے آئی ٹی نے پانچ والیمز پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جس میں بتایا گیا تھا کہ بشیر احمد المعروف اعظم سواتی نے مانسہرہ میں سیلاب زدگان کیلئے ایک ملین ڈالرکے جعلی نوٹ عطیہ کر دیے۔ اس ملک میں کیسے کیسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اعلیٰ عہدے بھی پاتے ہیں اور فراڈ کر کے نہ صرف سینیٹر بلکہ وزیر بھی بن جاتے ہیں۔
جب آپ ایسے لوگوں کو ریلوے دیں گے تو پھر یہی ہوگا جو ہورہا ہے۔ پھر رونا کس بات کا؟ مرنے والے کون سے ان حکمرانوں کے اپنے تھے یا ان کے سگے تھے؟ یہ خود سڑکوں پر پورا روٹ لگوا کر گاڑیوں کے ہجوم میں چلتے ہیں ۔ عمران خان تین سال سے ہیلی کاپٹر پر وزیراعظم ہاؤس سے بنی گالہ آتے ہیں۔ یہی عمران خان ہیں جو اپوزیشن کے دنوں میں کہتے تھے کہ وہ ڈچ وزیراعظم کی طرح سائیکل پر دفتر آیا کریں گے۔ نواز شریف خاندان نے چالیس کروڑ روپے کی گاڑیاں منگوا کر اپنے پروٹوکول اور ذاتی استعمال کے لیے رکھ لیں۔ زرداری نے سرکاری خرچے پردبئی کے سو سے زیادہ دورے کئے تھے تو نواز شریف نے لندن کے سو دورے کر لیے۔ سب خرچہ ان عوام کی جیب سے ہورہا تھا جو ریلوے ٹریکس حادثات میں مارے جاتے ہے اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ خان صاحب کے حامی کہتے ہیں کہ ان کا کیا قصور ‘پچھلے حکمران تباہ کر گئے‘ سوال یہ ہے کہ اگر پچھلے اتنے اچھے ہوتے تو عمران خان کو کس نے ووٹ دینے تھے؟ زرداری اور نواز شریف نالائق نکلے تو عمران خان کی جگہ بنی۔ آپ کو لائق سمجھ کر لایا گیا تو آپ نے کون سا تیر مار لیا؟ ہر بات پر وہی ایک ہی تان کہ پچھلی حکومتوں نے برباد کر دیا۔ مان لیا کہ انہوں نے برباد کیا تو آپ نے ریلوے کو آباد کرنے کیلئے کیا کیا؟ شیخ رشید اور اعظم سواتی ہم پر مسلط کئے۔ عمران خان کی حکومت نے ان تین سالوں میں ایک دفعہ بھی سوچا یا کسی پراجیکٹ پر کام کیا کہ ریلوے کے سفر کو جدید اور محفوظ بنایا جائے؟ تین سال کافی عرصہ ہوتا ہے۔ کچھ بھی کہیں سعد رفیق کے دور میں ریلوے کی حالت کچھ بہتر ہوئی تھی‘حادثے ان کے دور میں بھی ہوئے‘ انسانی جانیں اُس وقت بھی ضائع ہوئیں لیکن سعد رفیق کی پھرتیوں اور کوششوں سے لگتا تھا کہ وہ کچھ کر رہے ہیں۔ ان تین سالوں میں اِن سے تو یہ اداکاری بھی نہیں ہورہی۔ ہر وقت وہی ایک ہی گردان کہ پچھلوں نے برباد کیا۔ مانا کہ پچھلی حکومتیں کرپٹ تھیں اور ان میں اخلاقی جرأت نہ تھی‘ خان صاحب کی حکومت تو ان سے مختلف ہے‘ یہ اور کچھ نہیں کرسکتی تو کم از کم اپنے وزیر کو برطرف کر کے پچھلی حکومتوں کو شرمندہ تو کرسکتی ہے یا یہ پتھر بہت بھاری ہے اور باقی پتھروں کی طرح ان سے یہ بھی نہیں اٹھایا جائے گا؟
بس باتیں کرا لیں‘روز گھنٹوں تقریریں کرالیں‘ بڑھکیں مروا لیں‘ ٹوئٹس کرالیں‘ دنیا بھر کی مثالیں دلوا لیں‘ درجن بھر ملکوں کے نظاموں پر گفتگو کرا لیں لیکن ایم ایم روڈ اور ریلوے ٹریکس پر مرتے عوام نہ ان کی ترجیح ہیں نہ انہیں ان کا دکھ۔سب ڈرامے ہیں۔