کچھ دن ہوئے پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نے بتایا کہ ان کے محکمے کا ایک افسرکچھ عرصہ پہلے جنوبی پنجاب کے ایک ضلع میں لگایا گیا۔ اس کی تقرری کو تین ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر سے ایک سمری ملی کہ اس افسر کو فلاں ضلع میں لگادیا جائے۔ یہ کام وزیرموصوف کے علم میں لائے بغیرہو جاتا لیکن قواعد کے مطابق ان کے دستخط بھی اس تبادلے کی چٹھی پر ضروری تھے۔ وزیر نے سادگی سے اس پر اعتراض لگا دیا کہ یہ افسرکچھ عرصہ پہلے ہی موجودہ جگہ پر لگایا گیا ہے اس لیے تبادلہ مناسب نہیں۔ دفتر کا وقت ختم ہوا تو وزیر صاحب کو ایک سرکاری افسر کا فون آیا کہ تبادلے کی چٹھی پر منظوری کے علاوہ کچھ بھی نہیں لکھنا کیونکہ وزیراعلیٰ کے دفتر کو یہ تبادلہ فوری طور پر مطلوب ہے۔ وزیر صاحب نے فون پر تو کچھ نہیں کہا مگر ادھر اُدھر سے اس تبادلے کی 'فوری ضرورت‘کا سراغ لگانے کو کوشش کی تو پتا چلا کہ جہاں تبادلہ کیا جارہا ہے، وہاں کئی ارب روپے کا نیا منصوبہ شروع ہونے والا ہے۔ اس کئی ارب روپے کے منصوبے کیلئے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو یہاں سے بننے والا مال پانی مناسب جگہوں تک پہنچائے۔ یہ جان کر وزیر صاحب مزید اٹک گئے مگر وزیراعلیٰ کا دفتر وزیراعلیٰ کا دفتر ہوتاہے۔ جب رویہ بدلا گیا اور آنکھیں ماتھے پر رکھی گئیں تو وزیر باتدبیر نے تبادلے کی چٹھی پر دستخط کردیے۔ البتہ یہ چال چلی کہ اربوں روپے کے منصوبے کو ایک طاقتور نیم سرکاری ادارے کے حوالے کردیا جس کے سامنے افسر کی یا وزیراعلیٰ کے دفتر کی بھی پیش نہیں چلتی۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ کا دفتر اس وزیر سے ناراض ہوگیا اور یہ ناراضی اب تک قائم ہے۔
اسی طرح ایک صاحب کو حال ہی میں ایک شمالی ڈویژن میں بھیجا گیا۔ ابھی وہ عہدے کا چارج لینے لاہور سے نکل کر موٹروے تک ہی پہنچے تھے کہ وزیراعلیٰ کے دفتر سے ان کے موبائل پر فون آگیا۔ بتایا گیا کہ اپنا چارج سنبھالیں تو انہیں سب سے پہلے جس فائل پر دستخط کرنے ہیں وہ ایک متنازع زمین پر بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹی کی ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے پیشرو کا انجام اچھا نہیں ہوا اس لیے جب تک وہاں رہیں وہی کریں جو کہا جائے۔ ان صاحب نے نصیحت پلے باندھ لی اور جاتے ہی فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ فائل پر دستخط کردیے۔ اس افسر کے سپرد چند افسروں کی انکوائریاں بھی کردی گئیں جن کے بارے میں پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ کس میں کسے باعزت بری کرنا ہے اور کسے رگڑا لگانا ہے۔ اللہ کے اس بندے نے فدویانہ طور پرایک ایسی انکوائری پربھی دستخط کردیے جسے اس نے پڑھا تک نہیں تھا، بس اسے لکھی لکھائی ملی تھی۔
جنوبی پنجاب کے ہی ایک ضلع میں ایک نچلے درجے کا سرکاری افسر اپنے سے دو گریڈ اوپر کے افسر کا اضافی چارج لیے بیٹھا تھا۔ علاقے کے سابق ایم این اے کے ساتھ اس کا گہرا گٹھ جوڑ تھا اورایم این اے کی مالی ضروریات پوری کرنا بھی اس کی ذمہ داری تھی۔ اس کے عوض ایم این اے اسے کسی بھی قسم کی کارروائی سے محفوظ رکھتے تھے۔ 2018 ء میں حکومت بدلی تو وہ افسر ہٹا دیا گیا۔ اس نے اپنے ضلع کے ایک ایسے آدمی سے رابطہ کیا جو وزیراعلیٰ کے دفتر میں ہی بہت بڑے عہدے پرکام کرتا تھا۔ اس رابطے کے بعد اسے لاہور بلایا گیا، چند دن صوبائی چیف ایگزیکٹو کے دفتر میں وہ پھرتا رہا اور مرضی کی پوسٹنگ لے کر وہیں چلا گیا جہاں سے آیا تھا۔ آج کل وہ تحریک انصاف کی سیاسی چھتر چھایا میں خوب پھل پھول رہا ہے۔
یہ جو تین کہانیاں میں نے آپ کو سنائی ہیں، اس طرح کی بے شمار کہانیاں لاہورمیں گونج رہی ہیں۔ اس خاکسار کو ہر اس شخص کا نام بھی معلوم ہے، اور قدرو'قیمت‘ بھی جوتبادلوں کے اس کاروبارمیں خریدار ہے یا فروخت کنندہ۔ لاہورکے اس گھر کے بارے میں بھی علم ہے جہاں سے کوئی بھی سرکاری افسر اپنی مرضی کی پوسٹنگ خرید سکتا ہے۔ صوبے میں افسروں کے درمیان ایک اصطلاح چلتی ہے ٹیکے لگوانا ( ٹیکے یعنی ٹ ی ک ے )۔ ''ٹی کے‘‘ لگوانے کا مطلب ہے وہ رقم جو مطلوبہ عہدے پر تقرری کیلئے طلب کی جائے۔ تبادلے تقرری کا یہ بازار اتنا گرم ہے کہ اس کے بارے میں وفاقی کابینہ کے لوگوں کو بھی خوب علم ہے، مگر مجبور ہیں، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
پاکستان تحریک انصاف کے دعووں اور اس کے اکابرین کی تحقیق کے مطابق ملک میں سیاسی کرپشن کے دو بڑے ذرائع ہیں، پہلا یہ کہ کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کیا جائے اور اس میں سے معزز رکن صوبائی اسمبلی سے لے کر اوپر تک سبھی کچھ نہ کچھ حاصل کرلیں۔ دوسرا طریقہ ذرا گھٹیا نوعیت کا ہے اوروہ ہے سرکاری افسروں سے پیسے لے کرانہیں مرضی کی پوسٹنگ دے دی جائے یا کوئی ایسا لائسنس جاری کرانے کے پیسے لے لیے جائیں جس کا ملنا کچھ مشکل ہو۔ ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے کمائے جانے والے کمیشن پرزیادہ شور نہیں ہوتا کہ عوام کی توجہ اس منصوبے کے فوائد پر مرکوز رہتی ہے لیکن سرکاری ملازموں سے پیسے لے کر پوسٹنگ دینے کا شور بہت ہوتا ہے کیونکہ پیسے دے کر کہیں لگنے والا فوری طورپر اپنے پیسے پورے کرنے کے چکر میں پڑ جاتا ہے۔ جس کسی کو ایسے کسی افسر سے کام پڑتا ہے اسے پتا چل جاتا ہے کہ یہ پیسے دے کر آیا ہے اور پیسے لے کر ہی کام کرے گا۔ پنجاب میں یہ شور اسی لیے پڑا ہے کہ اوپر سے نیچے تک سرکاری دفتر نیلام ہورہے ہیں۔ آج سے پہلے اتنا شورلاہور میں اس وقت مچا تھا جب ایک سابق وزیراعظم کے صاحبزادگان ہر وفاقی محکمے کی پوسٹنگ اور وفاقی محکموں سے ملنے والے لائسنسوں کے کاروبار میں دن رات مصروف رہا کرتے تھے۔ اس وقت بھی کئی لوگوں نے سابق وزیراعظم کو اس کے نتائج و عواقب سمجھانے کی کوشش کی مگروہ غصے میں آجایا کرتے تھے۔ پھر عوام نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی تاریخ ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ وفاق یا وفاقی اداروں میں پیسے دے کر تقرریاں لی جارہی ہیں تو یہ درست نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ کسی نالائق نے اپنے جیسے کسی نالائق کو کسی اہم عہدے پر لگوا دیا مگرعمومی طور پروزیراعظم کا خوف اتنا ہے کہ کوئی پیسے لینے کی ہمت نہیں کرپاتا‘ لیکن لاہور میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں تین اسمائے گرامی ہر کسی کو معلوم ہیں۔ ان میں سے کم ازکم ایک کا تعلق اسلام آباد سے ہے، دوسرے کا جنوبی پنجاب سے اورتیسری شخصیت محض اپنی ارادت کے زورپرہی سرکاری افسروں کی پیر بنی بیٹھی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ وزیراعظم توہمیشہ ہر الزام کی تفتیش کراتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ تفتیش بھی اسی نے کرنی ہے جس پرخود کسی زمانے میں خیبرپختونخوا پولیس کیلئے اسلحے کی خریداری میں خورد برد کا الزام لگا تھا۔ اس الزام نے اسے اخلاقی طور پر اتنا کمزور کردیا کہ اسے 'تفتیش کار‘ لگنے کیلئے اس شخص کی ضرورت پڑی جو وزیراعظم کے دفتر میں بیٹھا ہے۔ اس لیے اب وزیراعظم کو تفتیش کے اصل نتائج نہیں ملتے بلکہ اس شخص کی مرضی کی رپورٹ ملتی ہے جس نے تفتیش کار پر احسان کیا تھا۔ اب کیا وہ بیچارہ تفتیش کار اور کیا اس کی تفتیش۔ بس ایک مذاق ہے جو وزیراعظم کے ساتھ تفتیش کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک لطیفہ بھی سن لیں کہ کچھ عرصہ پہلے پنجاب کے ایک سرکاری افسر کے بچوں کی شادی پر اخراجات کی خبر وزیراعظم تک پہنچی تو انہوں نے اخراجات کی تفتیش کرانے کا حکم جاری کردیا۔ تفتیش بھی کیا ہوئی کہ افسر نے آمدواخراجات بتا دیے لیکن یہ کسی نے نہیں پوچھا کہ جناب اخراجات تو دنیا نے دیکھے، آمد کہاں سے ہوئی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کہانیاں تو سنا رہا ہوں مگر نام نہیں لے رہا۔ اس کی سیدھی سی وجہ پاکستان کے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم نے ایک خفیہ ایجنسی کے اس شخص کو بتائی تھی جو انہیں پیپلزپارٹی کے خلاف الیکشن لڑنے کیلئے پیسے دینے گیا تھا۔ اس شخص نے جب ان پیسوں کی رسید طلب کی تو سابق وزیراعظم نے کہا تھا'ان کاموں کے لیے رسید نہیں بس اعتبار کافی ہوتا ہے‘۔ سوتھوڑے لکھے کو ہی کافی جانیں۔