تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     10-06-2021

بھولا بسرا کردار مولوی احمد اللہ شاہ

جس روز یہ کالم چھپے گا اس روز مولوی احمد اللہ شاہ شہید کی 163ویں برسی کو گزرے پانچ روز گزر چکے ہوں گے۔ مولوی احمد اللہ شاہ مورخہ پانچ جون 1858ء کو اکہتر سال کی عمر میں بھارت کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع شاہ جہان پور کے قصبے پوائیں میں شہید ہوئے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کالم کو پڑھنے والے بہت سے قارئین سوچیں گے کہ آخر یہ مولوی احمد اللہ شاہ ہے کون؟ لیکن صرف مولوی احمد اللہ شاہ پر ہی کیا موقوف! وہ تو تامل ناڈو کے نواح میں پیدا ہوئے اور اتر پردیش کے نواح میں شہید ہوئے، ہم میں کتنے لوگوں نے رائے احمد خان کھرل، رائے سارنگ کھرل، بہلول فتیانہ، صلابت ترہانہ، مراد فتیانہ، موکھا وہنی دال، باہلک وٹو، سوجا بھدرو، محمد کاٹھیہ، نتھو کاٹھیہ اور ولی داد مردانہ کے نام سنے ہیں؟ حالانکہ یہ سب لوگ تو آج کے ضلع ملتان، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ساہی وال، اوکاڑہ اور فیصل آباد کے سپوت تھے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں‘ بہت کم لوگوں نے ان سب کا نام سنا ہو گا۔ یہ سب اسی قافلے کے سوار تھے جس کی قیادت کرنے والوں میں مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی ایک نمایاں مقام کے حامل تھے۔ آج ہم ان لوگوں کا نام بھی بھول چکے ہیں۔
مجھے افسوس اس بات کا نہیں کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے یہ ہیرو نہ ہماری یادداشت کا حصہ ہیں اور نہ ہی ہماری موجودہ تاریخ کا باب ہیں، بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے ان لوگوں کی اولادوں کی اب تک تکریم کرتے ہیں‘ جنہوں نے 1857 کی جنگِ آزادی میں آزادی کے پروانوں کو تہ تیغ کرنے میں انگریز بہادر کو اپنی بھر پور مدد اور مقدور بھر تعاون فراہم کیا۔ ملتان کے پل شوالہ پر اپنے مریدوں کے ہمراہ انگریزوں کا ساتھ دینے اور چھائونی میں بغاوت کرنے والی پلٹن نمبر 69 کے مجاہدین کے قتل عام میں حصہ لینے والے مخدوم شاہ محمود قریشی (سینئر) کی آل اولاد کا نام آتا ہے۔ ہمارے پیارے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا نام نامی اپنے اسی بزرگ کے نام پر بطور برکت رکھا گیا تھا۔
ہمیں اپنے وفاقی وزیر سید فخر امام کا نام منہ زبانی یاد ہے۔ آپ کے جدِ امجد سید مہر شاہ اور چراغ شاہ نے انگریزوں کے لیے وہی خدمات سر انجام دیں جو جلال پور پیر والا سے کئی بار ایم این اے بننے والے دیوان عاشق بخاری کے بزرگ دریا کے کنارے مجاہدین کا صفایا کرنے میں سرکارِ انگلشیہ کے دست و بازو بن کر سر انجام دیتے رہے۔ جس طرح جنگِ آزادی کے دوران ملتان کے نواحی شہر (حالیہ ضلع) خانیوال کے مہر سلطان خان ہراج نے انگریزوں کی مقدور بھر مدد فرمائی۔ خانیوال اور کبیر والا کے ہراج اسی خاندان کی چشم و چراغ ہیں اور ہر دو تحصیلوں کی سیاست اور اقتدار کا حصہ رہتے ہیں۔ اسی طرح ملتان کے گیلانی خاندان کے بزرگ پیر سید ولایت حسین شاہ نے موضع جلی ضلع منٹگمری (حالیہ ساہیوال) میں اپنے تین سو ہمراہیوں سمیت حصہ لیا۔ ان کے فرزند محمد غوث المعروف سید محمد صدر الدین شاہ تھے اور وہ سرکار انگلشیہ کے ایسے قابل اعتماد وفادار تھے جن پر بہت زیادہ عنایات کی گئیں۔ صدر الدین شاہ کے بیٹے مخدوم زادہ سید غلام مصطفی شاہ تھے۔ ان کے سات بیٹے تھے۔ ان کے ایک بیٹے سید علم دار حسین گیلانی ہمارے محبوب لیڈر اور سابقہ وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے والد ہیں۔ رائے احمد خان کھرل کی مخبری کرنیوالے سرفراز خان کھرل کی اولاد بھی ہماری سیاست کا حصہ ہے اور مخدوم آف شیر شاہ سید مخدوم شاہ علی محمد کی خدمات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ شیر شاہ کے قریب دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کے قتلِ عام میں آپ کی معاونت نہ ہوتی تو حالات سرکار انگلشیہ کے قابو سے باہر ہو جاتے۔ آپ کی آل اولاد بھی ہمارے سیاسی نظام کا حصہ ہے۔ یہ تو ملتان کا قصہ ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا عنایت اللہ گنڈا پور کے بزرگ، مردان کی ہوتی فیملی کے آبائو اجداد، ہزارہ کے راجہ سکندر زمان کے جدِ اعلیٰ، مانسہرہ کی تنولی فیملی، سرگودھا کے ٹوانے، واہ (اٹک) کے مشہور و معروف حیات کھٹڑ کی آل اولاد از قسم سر سکندر حیات خان، شوکت حیات خان اور ہمارے ایک حالیہ وزیر صاحب... لیکن جانے دیں‘ یہ فہرست بڑی طویل ہے اور آپ اس میں سے بیشتر افراد کو جانتے ہیں۔ فی الحال تو میں ذکر رہا تھا مولوی احمد اللہ شاہ کا جن سے ہم میں سے بہت سے، بلکہ تقریباً سبھی لوگ نا واقف ہیں۔
مولوی احمد اللہ شاہ کی زندگی کے ابتدائی ساٹھ سالوں کے بارے میں کیا تفصیل لکھوں؟ میرا خیال ہے یہ تفصیل ایسی نہیں جو انہیں تاریخ کا حصہ بنائے۔ ان کی زندگی کے آخری بارہ سال انہیں علی شاہ سے احمد اللہ شاہ، ڈنکے شاہ، دلاور جنگ اور مولوی آف فیض آباد بناتے ہیں۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کا ہیرو، فریڈم فائٹر، بہادر، شجاع، جنگی حکمت عملی کا ماہر اور باغیوں کے لیے مینارہ نور۔ اودھ کے علاقے میں جنگ آزادی کا سب سے نمایاں نام۔ بقول تھامس سیٹن ایک ایسا شخص جو بے مثال جرات، عزم صمیم اور دیگر باغیوں سے کہیں زیادہ بہتر حربی صلاحیتوں اور خوبیوں سے بھرپور تھا۔ اتنا بہادر، بے خوف اور بے مثل سپاہی کہ انگریز ہزار کوششوں کے باوجود جب اسے زندہ پکڑنے میں نا کام ہو گئے تو اس کے سر کی قیمت لگا دی۔ یہ شاید اس زمانے میں کسی شخص کے سر کے اوپر لگائی جانے والی سب سے بڑی رقم تھی۔ مولوی احمد اللہ شاہ کو زندہ یا مردہ پیش کرنے کی صورت میں پچاس ہزار چاندی کے روپے انعام میں رکھے۔ یاد رہے کہ تب ملتان کے مخادیم کو مجاہدین کا فی بندہ مارنے کے عوض جتنی رقم ملتی تھی وہ اس خطیر رقم کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ سید فخر امام کے پڑدادا سید چراغ شاہ کے بھائی سید مہر شاہ کو ملکہ معظمہ وکٹوریہ قیصر ہند کی جانب سے ملنے والی سندِ دربارِ قیصری کے مطابق دسمبر 1857ء میں ایک عدد پروانہ خوش نودیٔ مزاج مع مبلغ پچیس روپے برائے بطور خلعت اور مبلغ اسی روپے بطور انعام ملے تھے۔ یکم ستمبر 1857 کی ایک اور سند کے مطابق جو کہ تم نے سال گزشتہ میں ہنگام وقوع غدر خدمت و خیر خواہی سرکار دولت مدار میں جیسا کہ چاہیے کوشش و جاں فشانی کری اور ہر ایک امور خیر خواہی کے سر انجام ہیں۔ بدرجہ اتم سعی کی‘ اس واسطے سرکار ذوی الاقتدار تمہاری خدمت اور خیر خواہی سے از بس راضی و خوشنوہ ہوئی چنانچہ اب بجائے اس حسنِ خدمت کے پیش گاہ صاحب چیف کمشنر بہادر سے مبلغ اسی روپے بطور خلعت و انعام مرحمت ہو کر پروانہ ہٰذا بطور سند نیک نامی و یادداشت خیر خواہی کے تم کو عطا ہونا چاہیے۔ جبکہ ان کے پڑدادا پیر چراغ علی شاہ کو انگریزوں کی امداد ناکہ بندی کے عوض مبلغ بیس روپے اور ایک لنگی بطور انعام بخشی گئی تھی۔ اس سارے موازنے سے آپ پچاس ہزار روپے کی انعامی رقم کے بارے میں اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ اس زمانے میں کتنی بڑی رقم ہو گی اور وہ شخص انگریزوں کے نزدیک کس حد تک درد سر ہو گا جس پر انہوں نے یہ رقم بطور انعام رکھی ہو گی۔
مولوی احمد اللہ شاہ کے بارے میں انگریزوں کا کہنا تھا کہ 1857 کے غدر (انگریز اسے غدر جبکہ آزادی کے پروانے اسے جنگ آزادی قرار دیتے ہیں) سے قبل جن لوگوں نے محکوم ہندوستان کے عوام کو آزادی کا شعور اور بغاوت کا درس دیا مولوی احمد اللہ شاہ ان میں شاید سب سے نمایاں شخص تھے۔ مولوی احمد اللہ شاہ اور فضل حق کبیر آبادی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ جی بی ملسن کے بقول جنگ آزادی کی سازش کے پیچھے کسی شک و شبہ کے بغیر مولوی کا دماغ اور کوششیں کار فرما تھیں اور پُراسرار چپاتی موومنٹ کے پیچھے بھی'' مولوی‘‘ کا ذہنِ رسا کام کر رہا تھا۔
(کالم ہٰذا کے لیے مختلف خاندانوں کے بارے میںتاریخی حوالے ''مرقع مولتان‘ از سید اولاد علی گیلانی مطبوعہ 1938‘‘ سے لیے گئے) (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved