وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں کہ اورنج ٹرین پر خرچ کیا گیا پیسہ ریلوے پر خرچ کیا جاتا تو حادثات کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور سعد رفیق کے گناہ پر اعظم سواتی کیوں استعفیٰ دیں؟ وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات کیوں پیچھے رہتیں۔ انہوں نے کہا: اللہ کے فضل و کرم سے یہ اس سال کا پہلا حادثہ ہے، قوم کو یاد ہے جب ہر دوسرے دن یہی ریل ٹریک کسی حادثے کا شکار ہوتا تھا۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے اس بیان کی وضاحت کر دی اور کہا کہ اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے وہ ہیں جنہوں نے جب اپنی وزارت کا چارج اپنی ہی حکومت کے سب سے بڑے اتحادی سے لیا تو یہ نوید سنائی کہ ریلوے کو ایسے نہیں چلا سکتے‘ اگر معاملہ یونہی رہا تو اسے بھی سٹیل ملز کی طرح بند کرنا پڑے گا۔ اور اب اس حادثے کے بعد موصوف کا کہنا ہے کہ میرے استعفے سے جانیں واپس آ جائیں تو میں استعفیٰ دے دیتا ہوں۔
ان بیانات سے جو بے حسی، نا اہلی پر فخر کرنے اور لوگوں کو بے وقوف سمجھنے کی داستان سامنے آ رہی ہے انہیں الفاظ میں سمیٹنا ممکن نظر نہیں آتا، اسی لئے لکھ دئیے ہیں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔ تادم تحریر ڈھرکی ٹرین حادثے میں شہید ہونے والے مسافروں کی تعداد 68 ہو چکی ہے جبکہ 10 زخمی مسافروں کی حالت شدید خطرے میں بتائی جاتی ہے۔ ناجانے کتنے معصوم بچوں کے سروں سے ان کے والدین کا سایہ اٹھ گیا، ناجانے کتنی مائوں کے بیٹے ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے، نا جانے کتنے بوڑھے والدین کے سہارے ان سے چھن گئے لیکن صدقے جائیں اپنے ان حکمران سیاستدانوں کے کہ کسی جوان لڑکی کے بیوہ ہو جانے یا پھر کسی معصوم بچے سے اس کی ماں کے چھن جانے کا سانحہ بھی ان کی بے حسی پر کوئی اثر نہیں ڈال سکا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اورنج ٹرین منصوبے پر لگائے جانے والی خطیر رقم اور ریلوے ٹریک کی مرمت کا موازنہ کیا ہے تو اب کوئی ان کو کیسے سمجھائے کہ پاکستان ریلوے وفاق کے زیر انتظام ہے اور اورنج لائن ٹرین صوبائی حکومت پنجاب کا منصوبہ تھا۔ اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریلوے کے معاملات کو ٹھیک کرنا مسلم لیگ ن کی حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خود ریلوے کے غیر جانب دار افسروں کے مطابق اس وقت کے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اپنے محکمے کے بگڑے معاملات کو سنوارنے یا کم از کم بہتر بنانے کے لیے کافی اقدامات کیے تھے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر ریلوے کا منصب سنبھالتے ہی شیخ رشید احمد نے نہ صرف خواجہ سعد رفیق کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر شدید تنقید شروع کر دی بلکہ ریلوے کی دن بہ دن بگڑتی اور ابتر ہوتی صورت حال کا ذمہ دار بھی خواجہ سعد رفیق ہی کو قرار دیا اور پھر ریلوے میں انقلابی فیصلوں کا اعلان کیا اور قوم کو یہ خوش خبری سنائی کہ جلد ہی ریلوے کے بوسیدہ، نا کارہ اور خسارے میں ڈوبے محکمے کو ایک بار پھر سے نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا جائے گا بلکہ یہ ایک منافع بخش اور عوام کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ ادارہ بن جائے گا۔ لیکن کیا کیجئے اس بد بخت سیاست کا کہ ان کی اپنی ہی حکومت میں ان کی جگہ پر وفاقی وزیر ریلوے کا منصب سنبھالنے والے جناب اعظم سواتی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ہی شیخ رشید احمد کی طرف سے اپنائی گئی پالیسیوں کو غیر فعال قرار دے دیا اور فرمایا کہ اس طرح سے ریلوے کے محکمے کو نہیں چلایا جا سکتا‘ اگر ہم نے اسی طرح سے ریلوے کو چلانے کی کوشش کی تو پاکستان سٹیل ملز کی طرح ایک دن ریل کے پہیے کو بھی روکنا پڑ جائے گا۔
سیاست دانوں کے اپنے اختلافات اور بلیم گیم سے قطع نظر اگر ہم ریلوے کے بوسیدہ نظام اور قومی خزانے پر ہر سال اس حوالے سے پڑنے والے بوجھ کا جائزہ لیں تو عوام ارباب اختیار سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ گزشتہ 74 سالوں میں کیا کوئی حکومت یا اس کے وزیر ایسے بھی ہیں کہ جنہوں سے واقعی اس قومی ادارے کو بچانے، سنبھالنے، نفع بخش بنانے اور ایک قومی اثاثہ بنانے کے لیے کوئی کوشش یا جدوجہد کی ہو؟ عوام کو ہمیشہ مختلف طرح کے دل فریب خواب اور سبز باغ دکھا کر ماضی کی حکومتوں کو کرپٹ اور نا اہل ثابت کرنے کی کوششوں میں مگن ہمارے حکمران نا جانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں ان کو ووٹ صرف اپوزیشن پر تنقید کی بنیاد پر نہیں ملیں گے بلکہ ہمارے عوام اب اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ وہ آپ کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیں۔ اگر ہم 2018ء میں بننے والی تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ہونے والے چیدہ چیدہ ریلوے حادثات کا جائزہ لیں تو صورتحال کچھ یوں نظر آتی ہے:
16 جون 2018 کو میانوالی میں خوشحال خان ایکسپریس کی 7 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں جس کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 20 مسافر زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح 27 ستمبر 2018 کو دادو میں ٹرین کی 11 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں اور 5 مسافر زخمی ہو گئے تھے۔ 24 دسمبر 2018 کو فیصل آباد میں شالیمار ایکسپریس کو پیچھے سے آنے والی ملت ایکسپریس نے ٹکر مار دی، حادثے میں ایک مسافر جاں بحق اور 5 زخمی ہوئے تھے۔2019 میں پاکستان ریلوے کی تاریخ کا بدترین سال ثابت ہوا، جس میں چھوٹے بڑے 100 سے زائد حادثات ہوئے۔ یکم اپریل 2019 کو رحیم یار خان میں مال بردار ریل گاڑی کی 13 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں جس سے محکمہ ریلوے کو نہ صرف لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا بلکہ ملک بھر میں مسافر ریلوں کا نظام بھی درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔ 11 جولائی 2019 کو رحیم یار خان کے قریب اکبر ایکسپریس مال گاڑی سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں 20 مسافر جاں بحق ہوئے۔ 31 اکتوبر 2019 کو ضلع رحیم یار خان میں مسافر ٹرین میں آگ لگنے سے 74 افراد جان سے گئے۔ اسی طرح فروری 2020ء میں سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے متصل روہڑی کے نزدیک پاکستان ایکسپریس ٹرین اور ریلوے پھاٹک کراس کرتی ہوئی ایک مسافر بس میں تصادم کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 22 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ اسی طرح شیخوپورہ میں گزشتہ سال سکھ برادری کی مسافر کوچ کو ٹرین سے حادثہ پیش آیا جس میں کئی جانیں چلی گئیں۔
اگر ہم ان تمام حادثات کے بعد ہونے والی محکمانہ تحقیقات کا جائزہ لیں تو یہ با ت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ریلوے کو غیر سنجیدگی سے اور سیاسی انداز سے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر ریلوے وزیر اپنے من پسند افسر کو قابلیت نہ ہونے کے باوجود اعلیٰ عہدے پر فائز کرکے کام چلانے کی کوشش کرتاہے۔ ماہرین کے مطابق ہمارا ریلوے ٹریک مکمل طور پر بوسیدہ ہوچکا ہے، سگنل سسٹم بھی مکمل طور پر کام نہیں کر رہا۔ یہاں ہر حکومت میں ٹریک اور آلات کی مینٹیننس کے بجائے ڈنگ ٹپائو پالیسیاں اپنائی جاتی رہی ہیں۔ عالمی سطح پر ریلوے کو ایک مکمل نظام کے طور پر سمجھا جاتا ہے اور اس پر ریسرچ کی جاتی ہے، لیکن پاکستان ریلوے میں ہر حادثہ ہونے پر تحقیقات کے بعد نظام میں نشاندہی کرکے خامیاں دور کرنے کے بجائے اس کی ذمہ داری کسی چھوٹے ملازم پرڈال کر اور ماضی کی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر اگلے حادثے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اگر ٹریک اور سگنل کا نظام بوسیدہ ہے تو اس کی بہتری کے لیے اقدامات کس نے کرنے ہیں؟ ڈنگ ٹپائو پالیسی اور مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا تو دور کی بات، اس کے لیے حقیقی معنوں میں کوشش کرنے کا فقدان ہی اس محکمہ کی بربادی کا باعث ہے۔